شاہ قبول اولیاء

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مجاہد اسلام شاہ قبول اولیاء پشاور خیبر پختونخوا کی تاریخی شخصیت ہیں۔

ولادت[ترمیم]

سید شاہ قبول اولیاءکی ولادت باسعادت 1101ھ میں جزیرة العرب یعنی مراکش کے ایک ساحلی قصبہ تنیجا میں ہوئی۔

شجرہ نسب[ترمیم]

آپ کا شجرہ نسب محبوب سبحانی قطب ربانی غوث صمدانی سیدعبدالقادر جیلانی تک پہنچتا ہے آپ پیران پیر حضرت غوث الاعظم جیلانی کے فرزند چہارم سید عبد الرزاق کی اولاد میں سے تھے آپ کے والدماجد کانام سیدعبداللہ تھا۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

ہجرت کر کے کراچی آئے1123ھ میں وادی سندھ سید شاہ عنایت خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کا شرف حاصل کیا یہاں آپ کے سپردلنگرخانے کا اہتمام تھا ایک روز سید شاہ عنایت نے آپ کو اپنا عصا مبارک دیتے ہوئے فرمایا کہ جہاں پہ عصا ٹھہرے وہیں مستقل سکونت اختیار کر کے تبلیغ دین کا مقدس فریضہ ادا کرنا۔

تبلیغی سفر[ترمیم]

آپ مرشد کامل سے اجازت لے کرکچھ عرصہ تبلیغ اسلام کے لیے ملتان تشریف لائے سینکڑوں لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مذہب اسلام قبول کرنے لگے کچھ عرصہ ملتان میں قیام کے بعد آپ کشمیر تشریف لے گئے آپ نے راستے میں اور کشمیر میں ندول شریف (مظفرآباد) دریائے جہلم کے کنارے پہنچ کر اپنے مقدس فریضہ کو جاری رکھا کشمیر میں مختصر عرصہ قیام کے دوران آپ نے یہاں کئی افراد کو مشرف بہ اسلام کیا وہاں سے ہوتے ہوئے آپ ہزارہ تشریف لائے اور یہاں بھی سرائے گدائی (نزد ہری پور) کے عقب میں ندی کے کنارے ویران جنگل میں ایک ٹیلہ کو بارگاہِ الٰہی کی یاد میں مصروف رہنے کے لیے منتخب کیا۔ اسی ٹیلہ میں واقع ایک غار کوقیام گاہ بنا لیا اور اس میں رہنے لگے یہ غار اب بھی تحصیل ہری پور ہزارہ میں واقع ہے اور اسے بھور شریف کے مقدس نام سے پکارا جاتا ہے۔ آپ کی دعاؤں کے اثر سے اللہ تعالیٰ نے پراچہ خاندن کی ایک بانجھ عورت کو لڑکا عطا فرمایا آج بھی یہ پراچہ خاندان ضلع مانسہرہ کے گاؤں ”پیراں دا بانڈا“ میں آباد ہے۔ اڑھائی سو برس پہلے یہ مقام غیر آباد اور جنگل تھا لیکن اب یہ خوبصورت وادی کا روپ دھار چکا ہے ۔ مجاہد اسلام حضرت سید شاہ قبول اولیاءبارہ برس بھورہ شریف ہزارہ میں چلہ کشی و تبلیغ اسلام کے بعد اٹک تشریف لائے آپ نے یہاں بھی سلسلہ تبلیغ جاری رکھا جس کی وجہ سے سینکڑوں ہندو خاندان مشرف بہ اسلام ہوئے ان میں ایک متمول نوجوان دیوان چند بھی تھا جس نے آپ کے دست حق پرست پراسلام قبول کرنے کے بعد آپ سے خلیفہ کا مرتبہ حاصل کیا آپ نے ایک ہی نظر میں اسے دیوان چند سے داتا دیوان بنا دیا اور بعد ازاں تعلیم و تربیت کرنے کے بعد تبلیغ اسلام کے لیے پوٹھوہار بھیج دیا یہاں داتا دیوان کی مساعی جمیلہ سے سینکڑوں غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوئے۔ مبلغ اسلام سید شاہ قبول اولیاء اٹک کے رہنے والوں میں اسلام کی روح پھونکنے کے بعد پشاورتشریف لے گئے اس موقع پر داتا دیوان بھی آپ کے ہمراہ تھے جب آپ پشاور پہنچے تو آپ کا عصا مبارک جو آپ کے مرشد حضرت سید شاہ عنایت نے یہ کہہ کرعنایت فرمایا تھا کہ جہاں یہ ٹھہرے اسی مقام کو مستقل قیام گاہ بنا لینا چنانچہ یہ عصا مبارک اس مقام پر ٹھہرا جہاں آج آپ کی ابدی آرام گاہ ہے یہ علاقہ غیر آبادتھا۔ یہاں صرف چند گھرانے آباد تھے جن کاکام چمڑے کے ڈبے اور مشکیں بنانا تھا ان ڈبوں کا کاروبار بڑے پیمانے پر ہوا کرتا تھا کیونکہ افغانستان غزنی بخارا اور تاشقند کے تاجر ہندوستان میں داخل ہونے کے لیے درہ خیبر اور پاراچنار کے تاریخی راستوں کو اختیار کرتے اور ان ڈبوں کو اپنے مال کی پیکنگ کے لیے خریدتے تھے۔

ڈبگری[ترمیم]

سید شاہ قبول اولیاءکا وردو مسعود1147ھ کو پشاور میں ہوا۔ روایت ہے کہ پہلے پہل ڈبہ گروں کے آباد ہونے سے اس علاقے کا نام ڈبہ گر تھا لیکن بعد ازاں ڈبگری کہلانے لگا لیکن اب اہلیان علاقہ کے پرزور مطالبے پر بازار ڈبگری کو شاہ قبول اولیاء کی نام سے منسوب کر دیا گیا ہے اور بازار شاہ قبول اولیاءکہلانے لگا ہے زمانہ قدیم میں سیدشاہ قبول اولیاء کی آمد کے وقت موجودہ محلہ شاہ قبول اولیاءمیں ندی بہا کرتی تھی اور اسی کے کنارے ڈبہ گروں کے گھرانے آباد تھے۔

وفات[ترمیم]

سید شاہ قبول اولیاء34 برس تک پشاور میں رہے 1181ھ میں 80 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے آپ کے جسد مبارک کا تابوت آپ کی وصیت کے مطابق حویلی و نشست گاہ کے قریب دفن کیا گیا جو درگاہ عالیہ سید شاہ قبول اولیاء کے نام سے موجود ہے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. گلدستہ اولیا از محمد اسلم لودھی صفحہ 59 تا 61