قرحہ چشم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(شبکی ورمِ ارومہ سے رجوع مکرر)

قرحہ چشم جس کو Retinoblastoma بھی کہا جاتا ہے ایک سرطان ہے جو نومولود اور بچوں کی آنکھ کے پردے میں نمودار ہوتا ہے، یہ ایک آنکھ میں بھی ہو سکتا ہے اور دونوں آنکھوں میں بھی۔ اسے عنادی سرطان میں شمار کیا جاتا ہے، عنادی سرطان ایسے سرطان ہوتے ہیں جو پھیل جانے کی فطرت رکھتے ہیں لہذا اس قرحہ چشم میں بھی آنکھ کے پردے سے نکل کر ارد گرد کے ملحقہ حصوں میں پھیل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

قرحہ چشم (retinoblastoma) سے متاثر ایک بچہ

عام طور پر بچوں میں اس کا انکشاف آنکھ کی پتلی میں نظر آنے والے سفید نشان سے ہوتا ہے۔ یا پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بچے میں اس ورم یا سرطان کی وجہ سے ہونے والی کسی پیچیدگی کے باعث نظر کی خرابی یا آنکھوں کی حرکات کے خراب یا متاثر ہونے سے اس کی موجودگی علم میں آئے۔

طبی وضاحت[ترمیم]

قرحہ چشم (Retinoblastoma) دراصل آنکھ کے سرطانوں میں سب سے عام سرطان ہے جو بچوں اور نومولود بچوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ ایک آنکھ میں بھی نمودار ہو سکتا ہے اور دونوں آنکھوں میں بیک وقت بھی۔ اس کو انگریزی میں retino-blast-oma کہتے ہیں۔ اس کی اردو اور انگریزی تعریفیں درج ذیل میں دی جا رہی ہیں۔

  • اردو اصطلاحات میں: قرحہ چشم، ایک قسم کا سرطان ہوتا ہے جو ارومیہ خلیات سے بنتا ہے اسی لیے اس کو ورم ارومہ کہتے ہیں۔
  • انگریزی اصطلاحات میں: Retinoblastoma ایک قسم کا سرطان ہے جو blastema خلیات سے بنتا ہے اسی لیے اس کو blast-oma کہتے ہیں اور چونکہ یہ آنکھ کے retina (یعنی سادہ الفاظ میں پچھلی دیوار) میں پیدا ہوتا ہے اس لیے اس کے نام کے ساتھ Retino کا لاحقہ لگا دیا جاتا ہے۔

سبب[ترمیم]

قرحہ چشم کی وجہ ایک gene یعنی وراثے میں ہونے والے طفرہ (mutation) میں بیان کی جاتی ہے جس کو Rb1 کہتے ہیں۔ اس وراثے کا ایک حصہ یا الیل، ماں کی جانب سے اور دوسرا باپ کی جانب سے آتا ہے۔ اگر کسی بچے کے خلیات میں ان میں سے ایک (ماں یا باپ کسی کی طرف والا بھی) حصہ خراب ہو جائے اور پھر بعد میں کسی وجہ سے دوسرا حصہ بھی متاثر ہو جائے تو ایسی صورت میں یہ سرطان نمودار ہوجاتا ہے۔

Rb1 ایک وراثہ ہوتا ہے جو تمام خلیات میں پایا جاتا ہے اور جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہر وراثے کی طرح اس کا بھی ایک الیل، ماں کی جانب سے اور دوسرا باپ کی جانب سے آتا ہے۔ یہ Rb1 نامی وراثہ ایک قسم کے قرحہ چشم میں ملوث ہو سکتا ہے اگر اس میں کسی قسم کی خرابی واقعہ ہو جائے۔ اگر Rb1 وراثے کا کوئی ایک الیل (مثلا ماں کی طرف والا) خراب ہو جائے (کسی قبل از پیدائش یا بعد از پیدائش وجہ سے ) تو دوسرا الیل کام کرتا رہتا ہے ۔

اب اگر دوسرا الیل بھی خـراب ہو جائے تو کیا ہوگا؟ Rb1 کا کام مکمل طور پر ختم ہو جائے گا، کیونکہ ابھی تک ایک الیل خراب تھا مگر دوسرا کام کر رہا تھا یعنی غیر لاقحت کی کیفیت موجود تھی، مگر اب دوسرا بھی خراب ہو گیا اور پہلا تو خراب تھا ہی، یعنی دونوں الیل ایک جیسے ہو گئے یا یوں کہ لیں کہ ان کی غیر لاقحت ختم ہو گئی اور عدم غیرلاقحت کی کیفیت پیدا ہو گئی، اس طرح چونکہ وراثہ کا کام مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور یوں Rb1 کا کام مکمل طور پر ختم ہوجانا، شبکی ورم ارومہ نامی سرطان کا موجب بن جاتا ہے۔

یکجانبی، دوجانبی و سہ جانبی[ترمیم]

جیسا کہ اوپر بیان آیا کہ قرحہ چشم اصل میں ایک وراثے کے ناکارہ ہوجانے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جس کو Rb1 کہا جاتا ہے اور یہ وراثہ لونی جسیمہ 13 پر پایا جاتا ہے۔ چونکہ اس کے درست ہونے کی وجہ سے سرطان کی سرکوبی کی جاتی ہے لہذا اس کو کابت الورم (tumor suppressor) وراثات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس وراثے کا صرف ایک الیل ہی سرطان کی سرکوبی کے لیے کافی ہوتا ہے اور سرطان صرف اسی صورت میں نمودار ہوتا ہے کہ جب اس کے دونوں (یعنی ماں اور باپ والے) حصے (الیل) میں کسی وجہ سے خرابی یا طفرہ پیدا ہو جائے۔ یہ وراثی مرض (genetic disease) ؛ وراثتی (heredity) بھی ہو سکتا ہے اور ماحولی (acquired) بھی۔ اس وراثہ یا gene میں خرابی پیدا ہونے کا یہ عمل جلد قبل ازپیدائش، تاخیری قبل ازپیدائش اور یا پھر بعد ازپیدائش کے عرصے میں کسی بھی مقام پر ہو سکتا ہے۔

اگر اس وراثے Rb1 میں نقص ماں یا باپ کی جانب میں سے بچے میں آئے تو ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ بچے کے تمام خلیات میں نقص والا حصہ یا الیل موجود ہوگا اور ایسی صورت میں یہ سرطان دونوں آنکھوں میں نمودار ہو سکتا ہے یعنی دوجانبی (bilateral) ہوتا ہے۔ اگر یہ نقص ماں یا باپ کی جانب سے منتقل نہ ہوا ہو بلکہ ایک طفرہ کی صورت بچے کے خلیات میں ہی نمودار ہو تو ایسی صورت میں دو باتیں ممکن ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ طفرہ ماں کے پیٹ میں بہت بچہ بننے کے بہت ابتدائی ایام میں پیدا ہوا ہو اور ایسی صورت میں اس کا تمام خلیات کو متاثر کرنے کا امکان ہوتا ہے اور سرطان کا امکان بھی دو جانبی ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری صورت میں اگر یہ طفرہ دوران حمل آخری ایام میں بنا ہو تو پھر ایسی صورت میں ظاہر ہونے والا سرطان عموما یکجانبی (unilateral) ہوتا ہے۔

وراثتی قرحہ چشم کے حامل افراد میں ایک اور دماغ کے سرطان کا اندیشہ بھی ساتھ ہوتا ہے جو غدہ صنوبری (pineal gland) میں پیدا ہوتا ہے اور ورم صنوبری (pinealoma) کہلایا جاتا ہے اور قرحہ چشم کے ساتھ (یا اس کی وجہ سے ) ورم صنوبری کے پیدا ہونے کی یہ کیفیت سہ جانبی (trilateral) کہلاتی ہے۔

اولاد[ترمیم]

اگر یہ عارضہ دوجانبی (اور وراثتی) ہو تو اس کے اس بچے کی اولاد میں منتقل ہونے کے امکانات کا اندازہ 10 تا 20 فیصد ہوتا ہے اور اگر یہ یکجانبی ہو تو اولاد میں منتقلی کا امکان 1 فیصد ہوتا ہے۔

ورود[ترمیم]

ورود (incidence) کسی مرض یا وباء کے وارد ہونے کو یا اس کی آمد کو کہا جاتا ہے۔ قرحہ چشم کے ورود کی اوسط عمر 18 ماہ ہوتی ہے اور قریباً 90% بچوں کی عمر 5 سال سے کم کی ہی ہوتی ہیں۔

اشارات و علامات[ترمیم]

علامات سے مراد کسی مرض کے وہ اثرات ہوتے ہیں جو مریض محسوس کرتا ہے اور اس کی شکایت ہوتی ہے، اس کو انگریزی میں Symptoms کہا جاتا ہے۔ جبکہ اشارات سے مراد کسی مرض کے وہ اثرات ہوتے ہیں جو مریض محسوس نہیں کرجاتا بلکہ طبیب (Doctor) مریض کے طبی معائنے پر معلوم کرتا ہے انھیں انگریزی میں sign کہتے ہیں۔

  • قرحہ چشم کی اہم علامات و اشارات درج ذیل ہیں
  1. حدقۂ ابیض (Leukokoria) -- یعنی آنکھ کی پتلی میں سفید دھبہ نظر آنا
  2. دوبینی (strabismus) – یعنی بھینگا پن یا آنکھ کی حرکات کا معمول کے مطابق نہ رہنا وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔
  3. کم بینی (impaired vision) – نظر کی کمزوری
  4. التہاب جشم (eye inflammation) – آنکھ میں سوزش، سرخ، جلن

اختبارات[ترمیم]

مرض کی کیفیت اور شدت کے مطابق ایک طبیب درج ذیل میں سے کوئی چند یا تمام اختبارات (tests) انجام دے سکتا ہے۔

علاج[ترمیم]

زمانۂ قریب تک اس عارضہ کا علاج قلع العین (enucleation) ہی تھا جو اب بھی بعض اوقات واحد راستے کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار میں متاثرہ آنکھ کو نکال دیا جاتا ہے۔ آج کل اس کے علاج میں خاصی پیشرفت ہوئی ہے اور اب کوشش کی جاتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے آنکھ کو بچا لیا جائے (اگر اس کی قیمت جان کی ادا نہ کرنی پڑے)۔ اس مرض کے علاج اور توقعات بعد از علاج میں مندرجہ ذیل عوامل اہم ہوتے ہیں۔

  1. درجہ (stage) ؛ یعنی سرطان کا جسم میں پھیلاؤ۔ یہ درجہ بندی ہر سرطان کے لیے الگ الگ کی جاتی ہے جو عالمی اداروں کی مقرر کردہ ہے۔
  2. آنکھ میں بینائی کو بچا لینے کے امکانات کتنے فیصد ہیں (جو طبیب، مختلف اختبارات کے ذریعہ اندازہ لگاتا ہے)۔
  3. سرطان کی جسامت اور اس کی تعداد (یعنی ایک ہی جگہ پر ایک ہی سرطان ہے یا وہ مختلف مقامات پر موجود ہے)۔
  4. کیا سرطان سہ جانبی ہے یا دو جانبی و یکجانبی۔ (اس کی وضاحت کے لیے اوپر دیکھیے)

انتخاب معالجہ کا انحصار[ترمیم]

مندرجہ بالا تجزیے کے بعد یہ دیکھا جاتا ہے کہ معالجے کے لیے کون کون سے انتخابات موجود ہیں۔ اگر سادہ انداز میں بیان کیا جائے تو عمومی طور پر یہ انتخابات سرطان کی درج ذیل تین کیفیات یا خصوصیات پر منحصر ہوتے ہیں۔

  1. کیا سرطان درون چشمی (intraocular) یعنی مکمل طور پر صرف آنکھ کے اندر ہی ہے؟
  2. کیا سرطان برون چشمی (extraocular) یعنی آنکھ سے باہر کے اعضاء کو بھی متاثر کیے ہوئے ہے؟
  3. کیا سرطان تکراری شبکی ورم ارومہ (recurrent retinoblastoma) (یعنی جو علاج کے بعد دوبارہ آیا ہو) ہے؟

معالج، منصوبہ و مقاصد[ترمیم]

جب سرطان کی نوعیت کے بارے میں ضروری اختبارات اور تجزیات مکمل ہوجائیں تو پھر معالجہ کرنے والا طبیب جو بہتر ہے ایک اطفالی ماہرالاورام (pediatric oncologist) ہو اسے ایک مکمل انجمن اطباء (team of doctors) کے مشورے بھی حاصل ہوں۔ وہ والدین کے ساتھ گفتگو کر کہ علاج کی حکمت عملی اور اس کے مقاصد بیان کرتا ہے، اس کے علاوہ وہ طبیب اس علاج کو منتخب کرنے کی وجوہات کی وضاحت کے ساتھ ساتھ بعد از علاج توقعات اور اندیشوں سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ مقاصد جو ایک معالج کا ہدف ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں

  1. میں سب اہم ہدف جان کو بچانا ہوتا ہے
  2. دوسرے درجہ پر جہاں تک ممکن ہو سکے نظر کو بچانا احداف میں شامل ہے
  3. آنکھ (جہاں تک ممکن ہو ساخت) بچانا
  4. ثانوی سرطان یا second cancer (علاج کے مضر اثرات کیوجہ سے ) کی ممکنہ حد تک روک تھام کے اقدامات

بیرونی روابط[ترمیم]

مندرجہ ذیل تمام روابط انگریزی مواقع (sites) کی جانب لے جاتے ہیں۔