شجاع بن ولید

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(شجاع بن الولید سے رجوع مکرر)
شجاع بن ولید
معلومات شخصیت
رہائش کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لقب أبو بدر
عملی زندگی
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب[ترمیم]

شجاع نام،ابوبدرکنیت،والد کا اسم گرامی ولید اورجدامجد کا قیس تھا[1]کوفہ کے خاندان بنو کندہ کی ایک شاخ سکون بن اشرس سے نسبی تعلق رکھتے تھے،اسی باعث سکونی اورکوفی کی نسبتوں سے شہرت پائی۔ [2]

وطن[ترمیم]

ان کا آبائی وطن کوفہ تھا اوروہیں پیدا بھی ہوئے،لیکن پھر بغداد میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی۔ [3]

فضل وکمال[ترمیم]

شیخ شجاع کو نہ صرف دنیائے علم وفن ہی میں ممتاز مقام حاصل تھا ؛بلکہ وہ عبادت وریاضت اورتقویٰ وصالحیت میں بھی بلند مرتبہ تھے، ابن ناصر الدین کہتے ہیں کہ: کان ثقۃ ورعاً عابداً متقناً [4] وہ ثقہ،متقی اورعابد تھے۔ حافظ ذہبی رقمطراز ہیں: کان من صلحاء المحدثین و علمائھم [5] وہ صلحاء محدثین اورعلماء میں تھے۔

شیوخ وتلامذہ[ترمیم]

انھوں نے جن شیوخ حدیث سے استفاضہ کیا ان میں اسماعیل بن ابی خالد،یحییٰ بن سعید الانصاری،سلیمان بن مہران الاعمش موسیٰ بن عقبہ،ہاشم بن ہاشم بن عتبہ، عمر بن محمد،ابو خالد الدولائی،زیاد بن خثیمہ ،زہیر بن معاویہ،لیث بن سعد،مغیرہ بن مقسم،عطاء بن السائب،عبیداللہ بن معاویہ کے نام خصوصیت سے لائق ذکر ہیں [6] اوران کے صاحبزادے ولید کے علاوہ مسلم بن ابراہیم ،یحییٰ بن ایوب، یحییٰ بن معین،احمد بن حنبل،ابو عبید قاسم بن سلام،زہیربن حرب، علی بن المدینی،محمد بن اسحاق الصاغانی،محمد بن عبیداللہ بن محمد بن ایوب المحرمی،سعدان بن بصر، اسحاق بن راہویہ،ان کے نامور تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ [7]

پایہ مرویات[ترمیم]

امام شجاع کی مرویات کے بارے میں علما کافی اختلاف رکھتے ہیں،لیکن ان کے صلاح وتقویٰ پر تقریباً سب کو اتفاق ہے،مروزی کا بیان ہے کہ میں نے امام احمد ابن حنبل سے دریافت کیا، کیا ابو بدر شجاع ثقہ ہیں؟انھوں نے فرمایا: ارجوا ان یکون سدوقاحابس الصالحین [8] مجھے امید ہے کہ وہ صدوق ہوں گے اس لیے کہ انھوں نے صلحاء کی صحبت اٹھائی ہے۔ امام احمد کا ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ: کان شیخاً صالحاً صدوقاً [9] شیخ شجاع صالح اورصدوق تھے۔ علاوہ ازیں ابن معین،ابوزرعہ اور عجلی بھی ان کی روایات کو قابلِ حجت اورثقہ قرار دیتے تھے،ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا نمایاں ذکر کیا ہے؛لیکن محدث ابو حاتم وغیرہ کی رائے ہے کہ وہ قبولِ روایت کے معاملہ میں غیر محتاط تھے۔ اس لیے ان کی مرویات کوحجت بنانا صحیح نہیں،مگر بایں ہمہ ابو حاتم معترف ہیں کہ: عندہ عن محمد بن عمراحادیث صحاح [10] ان کے پاس محمد بن عمر کی بہت سی صحیح احادیث کا ذخیرہ تھا۔

کثرتِ عبادت[ترمیم]

ان کی عبادت وریاضت کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ امام سفیان ثوری جیسے ثقہ بزرگ بھی ان الفاظ میں اس کی شہادت دیتے ہیں: لیس بالکوفۃ اعبدمنہ [11] کوفہ میں ان سے بڑا عابد نہ تھا۔ حافظ ابن حجرؒ ناقل ہیں کہ وہ ورع وتقویٰ میں نہایت بلند مقام رکھتے تھے اورکثرت سے نمازیں پڑھتے تھے۔ [12]

وفات[ترمیم]

ماہ رمضان المبارک 204ھ میں بایامِ خلافت مامون الرشید وفات پائی۔ [13]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تاریخ بغداد:9/247)
  2. (اللباب فی تہذیب الانساب:1/55)
  3. (تاریخ بغداد:9/248)
  4. (شذرات الذہب:2/12)
  5. (العبر:1/346)
  6. (تہذیب التہذیب:4/312)
  7. (تاریخ بغداد:9/347)
  8. (میزان الاعتدال:1/442)
  9. (خلاصہ تذہیب :163)
  10. (میزان الاعتدال:1/242)
  11. (شذرات :2//12)
  12. (تہذیب التہذیب:4/314)
  13. (العبر فی خبر من غبر:1/346)