شجرہ ممنوعہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شجرہ ممنوعہ یا درخت ممنوع یا ممنوعہ درخت جنت کا وہ درخت ہے جس کا پھل کھانے سے اللہ تعالٰی نے حضرت آدم و حوا کو منع کیا تھا لیکن شیطان کے وسوسے کی بدولت انھوں نے اس درخت سے پھل کھایا۔ اس نافرمانی کی وجہ سے ان کے بدن سے بہشتی لباس اتر گئے اور خدا نے انھیں بہشت سے نکال دیا۔ شجرہ ممنوعہ کی داستان قرآن پاک میں تین مرتبہ آئی ہے اور توریت میں قرآن سے مختلف انداز میں بیان ہوئی ہے۔ اس ممنوعہ درخت کی ماہیت اور حقیقت کے بارے میں مختلف اقوال مذکور ہیں۔ بعض اسے حسد اور بعض علم سے اسے تعبیر کرتے ہیں۔

واقعہ[ترمیم]

خداوند نے بہشت میں قیام کے دوران آدم و حوا کو ایک مخصوص پھل والے درخت کے علاوہ تمام درختوں سے پھل کھانے کی اجازت دی اور انھیں شیطان کی طرف سے ورغلائے جانے سے بھی آگاہ کیا۔ خدا کی جانب سے آدم و حوا کو تنبیہ کی گئی کہ اگر تم نے اس درخت سے کچھ کھایا تو تم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا ہے۔ آدم و حوا نے شیطان کے بہکاوے میں آ کر اس درخت سے پھل کھا لیا۔ شیطان نے انھیں ورغلاتے ہوئے کہا کہ اگر تم اس ممنوعہ درخت سے کھاؤ گے تو تم فرشتے میں تبدیل ہو جاؤ گے یا ہمیشگی کی زندگی پا لو گے۔ اس درخت سے پھل کھانے کے بعد ان کے جسم سے بہشتی لباس اتر گئے اور ان کی شرم گاہیں ننگی ہو گئیں۔ خدا نے انھیں جنت سے نکل جانے کا حکم دیا۔[1]

حقیقت درخت[ترمیم]

قرآن میں بقره کی 35-38ویں، اعراف کی 19-23ویں اور طہ 120-122ویں آیات میں شجرہ ممنوعہ کی داستان بیان ہوئی ہے۔ لیکن درخت کی قسم معین اور واضح نہیں ہے۔ تفسیر قرآن سے متعلق روایات اسلامی میں اس کی وضاحت دو طرح بیان ہوئی ہے:

ظاہری معنا[ترمیم]

بعض مفسرین درخت کے ظاہری معنی مراد لیتے ہیں۔ اس درخت کی قسم اور نوع میں مختلف تفاسیر جیسے خوشہ گندم،[2] درخت انگور،[3] انجیر،[4] نخل،[5] ترنج (کھٹا لیموں)،[6] کافور[7] انگور[8] کا تذکرہ ملتا ہے۔

درخت ممنوع کی تاویل[ترمیم]

  1. درخت حسد: بعض روایات کے بیان میں حسد کو شجرہ ممنوعہ کہا گیا ہے۔[9] ان روایات کی بنا پر معتقد ہیں کہ فرشتوں کے آدم کو سجدہ کرنے کے بعد انھوں نے اپنے آپ سے کہا: کیا خدا نے مجھ سے بہتر بھی کوئی مخلوق خلق کی ہے؟ خدا نے اس کے جواب میں آدم کو اس سے بالاتر مرتبے کے حامل افراد یعنی پیامبر اسلام(ص)، امام علی(ع)، حضرت فاطمہ(س)، امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) سے آشنا کروایا۔ خدا نے آدم کو ان سے حسد کرنے سے منع کیا لیکن شیطانی وسوسوں کی بدولت آدم و حوا میں حسد کی حالت ایجاد ہو گئی۔[10] اسی طرح درخت سے غیر ظاہری معنا قرآن میں اور مقامات پر بھی لیا گیا ہے۔[11] مانند شجرہ ملعونہ کہ اس سے مشرکین اور طاغوت ہے۔[12]
  2. درخت علم و ولایت: بعض مفسرین چند روایات سے استناد کی وجہ سے معتقد ہیں کہ علم یا ولایت محمد و آل‌ محمد درخت ممنوع ہے۔ ان روایات کے بیان کے مطابق یہ واقعہ اس طرح منقول ہے:

خداوند نے آدم کو مقام ولایت پنج تن آل‌عبا کی پہچان کروائی اور انھیں کہا: یہ تم اور دیگر مخلوقات سے بلند و بالا ہیں اگر میں انھیں خلق نہ کرتا تو تو نہ تمھیں اور نہ ہی بہشت و جہنم، آسمان و زمین کو خلق نہ کرتا اور پھر آدم کو ان کے مقام و منزلت کے حاصل کرنے کی خواہش سے ڈرایا لیکن آدم کے دل میں ان کے مقام و منزلت کے حصول کی خواہش پیدا ہوئی اور شیطان نے انھیں وسوے میں ڈالا کہ وہ ممنوع درخت سے پھل کھا لے گا تو اسے جاودانی زندگی حاصل ہو جائے گی۔[13]

توریت میں شجره ممنوعہ[ترمیم]

توریت میں بھی شجرۃ ممنوعہ کی تعبیر معنوی آئی ہے اور دو: درخت علم اور درخت زندگی کو درخت ممنوع کہا گیا ہے۔ توریت قرآن سے مختلف انداز میں آدم کے واقعے کو بیان کرتی ہے۔ اس کے مطابق حضرت آدم اس درخت کے پھل کھانے سے پہلے کسی قسم کی دانش نہیں رکھتے تھے یہاں تک کہ وہ اپنے جسم ڈھانپنے کو بھی نہیں جانتے تھے۔ جب درخت علم کا پھل کھایا تو کہیں آدم زندگی جاویدانی کا پھل نہ کھا کر ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ کر لے خدا نے اسے بہشت سے نکال دیا۔[14]

گناه حضرت آدم[ترمیم]

اسلام سے پہلے کے ادیان ابراہیمی میں کتاب مقدس کی روایت شجرہ ممنوعہ کی بنا پر حضرت آدم بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے تھے اور حضرت آدم چاہتے تھے کہ زندگی جاودانی کے پھل کھانے کا قصد رکھتے تھے تا کہ وہ بھی خدا طرح ہمیشہ رہیں اور یہ طرح کی خدا سے ضد اور جنگ تھی۔[15]

لیکن اسلام میں عصمت انبیا کے اعتقاد کی وجہ سے حضرت آدم کا پھل کھانا کسی قسم کا گناہ نہیں تھا۔ اسی بنیاد پر حضرت آدم کے اس فعل کے متعلق چند نظریات بیان ہوئے ہیں:

  • ترک اولی:اس نظریے کی بنا پر حضرت آدم نے گناہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ ایک نسبی گناہ تھا یعنی ایسا کام تھا جس کا انجام دینا انبیا کی نسبت شائستہ نہیں تھا۔ پس اس نظرئے کی بنیاد پر حضرت آدم نے شرک و کفر جیسے افعال میں سے کوئی کام انجام نہیں دیا تھا جس کی بدولت انسان کو عقاب دیا جاتا بلکہ وہ ایسے افعال میں سے تھا جن کا انجام دینا اللہ کے انبیا جیسے برگزیدہ افراد کے لیے سزاوار نہیں تھا کہ وہ ایسے افعال انجام دیں۔اسے گناہ نسبی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایسے افعال کو ترک اولی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس نظریے کی بنیاد پر حضرت آدم کے لیے اس پھل کا کھانا ممنوع اور حرام نہیں تھا بلکہ آدم جیسی برگزیدہ ہستی کی نسبت اس کا کھانا صحیح نہیں تھا۔ اس لحاظ سے اس فعل کی انجام دہی پر اسے بہشت سے نکال دیا گیا۔[16]
  • پھل نہ کھانے کی نصیحت : بعض معتقد ہیں کہ پھل نہ کھانے کا حکم وظیفہ و ذمہ داری کے عنوان سے صادر نہیں ہوا تھا بلکہ یہ خدا کی جانب سے ایک توصیہ و نصیحت تھی۔ پس اس نظریے کی بنیاد پر خدا اپنے علم کی بنیاد پر آگاہ تھا کہ درخت ممنوع سے پھل کھانے کی وجہ سے وہ بہشت سے نکلنے اور زحمت میں گھر جانے کا سبب بنے گا اس لیے اللہ نے اسے توصیہ کیا تم اس درخت کے قریب نہ جانا۔ خدا کی جانب سے اس جیسے امر و نہی کو امر و نی ارشادی کہا جاتا ہے۔ ایسے افعال کی مخالفت پر انسان کسی قسم کی سزا کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ ان افعال کی انجام دہی ان فوائد کے سلب اور لیے جانے کا موجب بنتے ہیں۔ اس نظریے پر بعض علما نے یہ اعتراض کیا ہے کہ خدا کی طرف سے حکم کے صدور کے بعد جب حضرت آدم نے مخالفت کی اور پھر اس پر توبہ کا خواستگار ہوا جبکہ اوامر و نہی ارشادی کی مخالفت کی صورت میں خدا سے درخواست اور بخشش کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔[17]
  • ہر حسد گناه نہیں: اس نظریے نے درخت ممنوع کا معنا حسد کیا ہے، حضرت آدم کا حسد بری اور ناپسندیدہ صفات اخلاق میں سے نہیں تھا بلکہ غبطہ میں سے تھا۔[18] بعض علما حضرت آدم کے حسد کو حقیقی حسد ہی کہتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ حسد حرام ہے جو رفتار و کردار کے اظہار پر منتہی ہو اور آدم کا حسد اندرونی تھا اور اس کا اظہار انھوں نے اپنے عمل سے نہیں کیا تھا۔[19]

بہشت سے خروج[ترمیم]

قرآنی آیات کی بنا ہر درخت ممنوع کے استفادے کے بعد بہشت سے نکال دیا گیا۔ آدم و حوا کی بہشت کے متعلق تین نظریات بیان ہوئے ہیں:

  • 'زمینی بہشت: بعض معتقد ہیں کہ زمین کے ہی ایک سر سبز باغات والی زمین میں زندگی بسر کرتے تھے۔ کیونکہ بہشت آخرت میں شیطان کا داخلہ ممنوع ہونے کی وجہ سے شیطان کا حضرت آدم و حوا کو وسوسے میں ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح جو انسان ایک دفعہ بہشت میں داخل ہو جائیں گے اور انھیں وہاں پر ہمیشہ رہنا ہے لہذا ان کا بہشت سے باہر آنا ممکن نہیں ہے حالانکہ آدم جس بہشت میں قیام پزیر تھے وہیں شیطان کے وسوسے کا شکار ہو کر بہشت سے باہر نکالے گئے۔ بعض روایات میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے۔[20]
  • اخروی بہشت: بعض روایات کی بنیاد پر بہشت آدم وہی آخروی بہشت تھی۔ [21] بعض علما نہج البلاغہ کے پہلے خطبے سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں:
امام علی (ع) نے فرمایا: خدا نے آدم کو وعدہ دیا تھا کہ وہ اسے بہشت میں لوٹائے گا۔[22] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آدم کو جہاں لوٹانے کا وعدہ کیا گیا ہے پہلے بھی وہیں رہ رہے تھے نیز آئندہ جس میں قیامت کے بعد آدم کو جانا ہے۔ پس اس بنا پر آدم جس بہشت میں رہ رہے تھے وہ بہشت اخروی ہی تھی۔[23]
  • برزخی بہشت : اس نظریے کی بنا پر بشہت آدم نہ تو زمینی تھی اور نہ ہی اخروی تھی بلکہ دنیا اور آخرت کے درمیان کے زمانے کی بہشت ہے۔ اس بہشت میں اخروی بہشت کی خصوصیات جیسے دائمی شادابی، بھوک کے رنج کا نہ ہونا، تشنگی، سرما و گرما وغیرہ پائی جاتی ہیں اور اسی طرح زمین بہشت کی خصوصیات جیسے شیطان کے وسوسے کا شکار ہونا وغیرہ پائی جاتی ہیں۔ یہ نظریہ حقیقت میں پہلے اور دوسرے نظریے سے حاصل شدہ ہے۔[24]

سرگزشت آدم و حوا[ترمیم]

آیات قرآن کی بنیاد پر جب آدم و حوا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے خدا سے توبہ کی اور خدا سے بخشش کے طلبگار ہوئے۔ خداوند نے ان کی توبہ قبول کی۔[25] لیکن ان کی یہ خطا ان کے جنت سے نکلنے کا موجب بنی اور وہ حکم الہی پر زمین میں مستقر ہوئے اور انھوں نے نئی زندگی کا آغاز کیا۔ خداوند نے آدم کو اپنا خلیفہ بنا[26] کر نبوت سے نوازا۔[27]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش‌، ج6، ص114-120.
  2. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1412ق، ج1، ص83؛ طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1415ق، ج1، ص69؛ طبری، جامع البیان عن تأویل آی القرآن، 1415ق، ج1، ص330؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، 1408ق، ج1، ص220.
  3. طبری، جامع البیان عن تأویل آی القرآن، 1415ق، ج1، ص332؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، 1408ق، ج1، ص220؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ق، ج11، ص165.
  4. طبری، جامع البیان عن تأویل آی القرآن، 1415ق، ج1، ص333؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، 1408ق، ج1، ص220؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ق، ج11، ص165.
  5. سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، 1983م، ج1، ص53.
  6. سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، 1983م، ج1، ص53.
  7. ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، 1408ق، ج1، ص220.
  8. حسن بن علی العسکری (ع)، التفسیر المنسوب إلی الإمام ابی محمد الحسن بن علی العسکری (ع)، 1409ق، ص222؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ق، ج11، ص190.
  9. عیاشی، تفسیر العیاشی، المکتبہ العلمیہ الإسلامیہ، ج2، ص9؛ صدوق، معانی الأخبار، 1361ش، ص124؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ق، ج11، ص164.
  10. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش‌، ‌ج6، ص120-121.
  11. اسراء، آیت 60.
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش‌، ‌ج12، ص172.
  13. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، ج1، ص144؛ جوادی آملی، تفسیر تسنیم، چاپ چہارم، 1387ش، ج3، ص343.
  14. کتاب مقدس تورات، ١٣٦٤ش، سفر پیداش، فصل دوّم، شماره17 و فصل سوم، شماره23.
  15. ملایوسفی/ معماری، گناه نخستین از دیدگاه اسلام و مسیحیت، تہران، پاییز و زمستان 1390ش، ص101-126.
  16. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش‌، ج6، ص126-124.
  17. طبرسی، مجمع البیان، دار المعرفہ، ج1، ص195-197؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش‌، ج6، ص124-125.
  18. مجلسی، بحارالأنوار، 1403ق، ج11، ص165 و 173.
  19. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش‌، ج6، 121.
  20. فخر رازی، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، 1420ق، ج3، ص452.
  21. مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج11، ص143.
  22. شریف الرضی، نہج البلاغہ، 1413ق، خطبۂ اول، ص10.
  23. کون سی بہشت میں آدم سکونت رہتے تھے؟ پایگاه اینترنتی اسلام کوئست. تاریخ ثبت: 1393/06/09، تاریخ بازدید: 1395/10/22.
  24. طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ق، ج1، ص132.
  25. سورہ بقرہ، آیت37.
  26. سوره بقره، آیه 30.
  27. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش‌، ج6، ص127.

منابع[ترمیم]

  • ابن‌کثیر، ابوالفداء اسماعیل الدمشقی، تفسیر القرآن العظیم، با مقدمہ دکتر عبد الرحمن المرعشلی، بیروت، دار المعرفہ، 1412ق.
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، تحقیق محمد جعفر یاحقی و دکتر محمد مہدی ناصح، مشہد، بنیاد پژوہش‌ ہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1408ق.
  • جوادی آملی، عبدالله، تفسیر تسنیم، قم، مرکز نشر إسراء، چاپ چہارم، 1387ش.
  • حسن بن علی العسکری (ع)، التفسیر المنسوب إلی الإمام ابی محمد الحسن بن علی العسکری (ع)، قم ، مدرسہ الإمام المہدی، 1409ق.
  • سیوطی، جلال الدین عبد الرحمن، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، بیروت، دارالفکر، 1983م.
  • شریف الرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تحقیق: عزیزالله عطاردی قوچانی، تہران، بنیاد نہج البلاغہ، 1413ق.
  • صدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی، معانی الأخبار، تحقیق علی اکبر غفاری، قم، انتشارات اسلامی، 1361ش.
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ النشرالاسلامی التابعہ لجماعہ المدرسین.
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان، فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ اعلمی للمطبوعات، 1393ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، 1415ق.
  • طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل آی القرآن، با مقدمہ خلیل المیس، تحقیق صدقی جمیل العطار، بیروت، دارالفکر، 1415ق.
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی ، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المکتبہ العلمیہ الإسلامیہ.
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1420ق.
  • کتاب مقدس تورات، ترجمہ ماشاءلله رحمان پور داوود و موسی زرگری، تہران، انجمن فرہنگی اوتصر ہتورا، 1364ش.
  • مجلسی، محمّد باقر، بحارالأنوار، بیروت، الوفاء، 1403ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، دار الكتب الاسلامیہ، تہران، چاپ سی و دوم،‌ 1374ش‌.
  • ملایوسفی، مجید/ معماری، داوود، گناه نخستین از دیدگاه اسلام و مسیحیت، تہران، دانشگاه الہیات و معارف دانشگاه تہران، مجلہ ادیان و عرفان، سال چہل و چہارم، شماره دوم، پاییز و زمستان 1390ش، ص101-126.
  • آدم کونسی بہشت میں رہتے تھے؟ پایگاه اسلام کوئست. تاریخ ثبت: 1393/06/09، تاریخ بازدید: 1395/10/22.

سانچہ:قرآن مجید