شفیق الرحمن ندوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شفیق الرحمن ندوی
معلومات شخصیت
پیدائش 9 جون 1942ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ضلع مغربی چمپارن   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 24 جون 2002ء (60 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم ندوۃ العلماء   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  ادیب ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

شفیق الرحمن ندوی (سنہ ولادت: 1942ء، سنہ وفات: 2002ء) بھارت کے ایک عالم دین، عربی اور اردو زبانوں کے مصنف و ادیب اور دار العلوم ندوۃ العلماء کے فاضل، استاذ اور عربی زبان میں فقہ کی مشہور کتاب ”الفقہ المیسر“ کے مصنف تھے۔ انھوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء کے ملحقہ مدارس کے آفس انچارج کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں، جن کی تعداد اس وقت 150 تھی۔

ابتدائی و تعلیمی زندگی[ترمیم]

شفیق الرحمن ندوی 9 جون 1942ء کو سنت پور، نوتن تھانہ، ضلع مغربی چمپارن، بہار میں شیخ منظور حسن صدیقی کے یہاں پیدا ہوئے۔[1][2] انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن سے قریب مدرسوں میں حاصل کی، جن میں مدرسہ اسلامیہ بیتیا قابل ذکر ہے،[1] جہاں سے انھوں نے 10 جون 1956ء کو دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ کا رخ کیا اور فروری 1962ء کو وہاں سے امتیازی نمبرات کے ساتھ فضیلت کا امتحان پاس کیا۔[1][2]

ان کے اساتذۂ دار العلوم ندوۃ العلماء میں حبیب الرحمن سلطانپوری، سعید الرحمن اعظمی ندوی، عبد الماجد عظیم آبادی ندوی، معین اللہ اندوری ندوی، محمد اویس نگرامی ندوی، محمد ظہور اعظمی ندوی، ابوالعرفان خان جونپوری ندوی، عبد الحفیظ بلیاوی، محمد رابع حسنی ندوی، محمد اسحاق سندیلوی ندوی، ابو الحسن علی حسنی ندوی اور محمد منظور نعمانی شامل ہیں۔[2]

ان کے زمانۂ طالب علمی میں[3] 1959ء کے اواخر میں محمد رابع حسنی ندوی کی نگرانی میں[4][5][6][7] دار العلوم ندوۃ العلماء کی عربی انجمن ”النادی العربی“ کے مساہمین کی طرف سے ایک عربی پندرہ روزہ ”الرائد“ کا اجرا ہوا،[3][8] جس کی ادارت و تدوین کے فرائض شفیق الرحمن ندوی انجام دیتے تھے؛[3] لیکن اکتوبر 1960ء میں دوسرے سال کے ساتویں یا آٹھویں شمارے میں بطور مدیر التحریر ان کا نام پہلی بار صفحہ اول پر ظاہر ہوا۔[9]

عملی زندگی[ترمیم]

انھوں نے ندوہ سے فراغت کے متصلاً بعد اپریل 1962ء کو مدرسہ اصلاح المسلمین پتھر کی مسجد، پٹنہ سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا، دو سال بعد ابو العرفان خاں ندوی، کارگزار مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء کی تحریک اور مشورے پر فروری 1964ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے شعبۂ تدریس سے منسلک ہوئے اور ایک سال تدریسی خدمت انجام دینے کے بعد وطن لوٹ آئے، سات آٹھ سال تجارت اور اخبار نویسی سے وابستہ رہے۔ 1972ء میں رفاہ المسلمین رام پور کیسریا، مشرقی چمپارن، بہار کے مہتمم مقرر ہوئے، 1974ء میں اپنے محسن استاد محمد رابع حسنی ندوی کے اصرار وحکم پر دوبارہ بحیثیت استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لائے اور تاحیات بہ حیثیت مدرس مفوضہ فرائض انجام دیتے رہے۔[2][10]

انھوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء کے 150 ملحقہ مدارس کے آفس انچارج کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں،[11][12][13] اس سلسلے کی تمام کارروائیاں انھیں کی رپورٹ اور سفارش پر عمل درآمد ہوتی تھیں اور ان ملحقہ مدارس میں ان کے دورے بھی ہوا کرتے تھے۔[13]

ابو الحسن علی حسنی ندوی کے ایما و حکم پر[14] کتاب ’’الفقه الميسر‘‘ مرتب کی،[15][16] جو دار العلوم ندوۃ العلماء[16][1][17] اور اس کی تمام شاخوں سمیت[13] ملک و بیرون کے جامعات میں شامل نصاب ہے۔[1][2]

ماہنامہ ذکر و فکر، نئی دہلی میں لکھے گئے ان کے پانچ سالہ سرگرمیوں پر ان کے فرزند ارجمند طارق شفیق ندوی [صدر آل انڈیا ملی کونسل مشرقی اترپردیش، کنوینر تنظیم ابنائے ندوہ بہار و صدر شعبۂ اردو، اسلامیہ کالج گورکھپور] نے ”متاع ذکر و فکر“ کے نام سے تجزیاتی تذکرہ لکھا ہے۔[18][19]

وفات[ترمیم]

ان کا انتقال 12 ربیع الآخر 1423ھ[12] مطابق 24 جون 2002ء کو صبح صادق کے وقت حرکت قلب بند ہونے سے ہوا۔ نماز جنازہ دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ کے احاطے میں سعید الرحمن اعظمی ندوی نے پڑھائی اور ڈالی گنج قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔ اُس وقت ان کے پسماندگان میں اہلیہ اور پانچ صاحب زادیوں کے علاوہ دو صاحب زادے طارق شفیق ندوی اور خالد شفیق ندوی تھے۔[13]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ محمد رابع حسنی ندوی، محمود حسن حسنی ندوی، محمد مستقیم محتشم بھٹکلی ندوی (2012ء)۔ یادوں کے چراغ (جلد اول) (پہلا ایڈیشن)۔ لکھنؤ: مکتبۃ الشباب العلمیہ۔ صفحہ: 297–301 
  2. ^ ا ب پ ت ٹ طارق شفیق ندوی (2021ء)۔ متاع ذکر و فکر (پہلا ایڈیشن)۔ لکھنؤ: مشہود انٹرپرائزز۔ صفحہ: 353 
  3. ^ ا ب پ محمد نعیم صدیقی ندوی (2021ء)۔ بزم دانشوراں (پہلا ایڈیشن)۔ مئوناتھ بھنجن، اتر پردیش: دار الفہیم پبلی کیشنز۔ صفحہ: 222 
  4. فرید الدین احمد (2019ء)۔ "Arabic Journalism in India: its growth and development" [ہندوستان میں عربی صحافت: اس کی نمو و ترقی] (PDF)۔ دَ ایکو (بزبان انگریزی)۔ 8 (1): 311۔ ISSN 2278-5264۔ 27 دسمبر 2021ء میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2024ء 
  5. انیس النگادن (2014ء)۔ Relocating Arabic Language And Literature With Reference To Arabic Journalism In India 1950 To 2000 (مقالہ) (بزبان عربی)۔ کیرلا، بھارت: مہاتما گاندھی یونیورسٹی۔ صفحہ: 180۔ hdl:10603/30548۔ 29 نومبر 2023ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2024ء 
  6. سرور عالم ندوی (2000ء)۔ تطور الصحافة العربية في الهند بعد استقلالها [آزادی ہند کے بعد ہندوستان میں عربی صحافت کی ترقی] (مقالہ) (بزبان عربی)۔ بھارت: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ صفحہ: 204–205۔ hdl:10603/57825۔ 26 نومبر 2023ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2024ء 
  7. جبیلیا پی (2020ء)۔ دار العلوم ندوة العلماء ومساهماتها في تطور اللغة العربية وآدابها: دراسة تحليلية [عربی زبان و ادب کی ترقی میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کی خدمات: ایک تجزیاتی مطالعہ] (مقالہ) (بزبان عربی)۔ بھارت: شعبۂ عربی، جامعہ کالیکٹ۔ صفحہ: 193۔ 26 نومبر 2023ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2024ء 
  8. سعید الرحمن اعظمی ندوی (2010)۔ اسلامی ثقافت اور ندوۃ العلماء (پہلا ایڈیشن)۔ مظفر پور، بہار: جمعیۃ الہلال الاحمر۔ صفحہ: 106 
  9. ندوی 2000, p. 205.
  10. سید احمد زکریا غوری ندوی (2010ء)۔ مقدمات الإمام أبي الحسن الندوي (الجزء الأول) (PDF) (بزبان عربی) (پہلا ایڈیشن)۔ دمشق: دار ابن كثير۔ صفحہ: 389 
  11. محمد خیر رمضان یوسف (2016ء)۔ "شفیق الرحمن الندوي"۔ تتمة الأعلام: وفيات 1396- 1435 هـ، 1976- 2013 م (بزبان عربی)۔ المجلد الرابع (چوتھا ایڈیشن)۔ عدن، یمن: دار الوفاق۔ صفحہ: 144 
  12. ^ ا ب سعید الرحمن اعظمی ندوی، واضح رشید حسنی ندوی، مدیران (ستمبر–اکتوبر 2002ء)۔ "فضيلة الأستاذ شفيق الرحمن الندوي في ذمة الله تعالى" [مولانا شفیق الرحمن ندوی کا انتقال]۔ مجلۃ البعث الاسلامی (بزبان عربی)۔ لکھنؤ: دار العلوم ندوۃ العلماء۔ 47 (10): 93–95 
  13. ^ ا ب پ ت شمس الحق ندوی، مدیر (10 جولائی 2002ء)۔ "استاذ دارالعلوم مولانا شفیق الرحمن ندوی کا حادثہ وفات"۔ پندرہ روزہ تعمیر حیات۔ لکھنؤ: دار العلوم ندوۃ العلماء۔ 39 (17): 5–6، 28 
  14. سلمان حسینی ندوی (2004ء)۔ "فقہ اور علوم القرآن میں کچھ پیش رفت"۔ ہمارا نصاب تعلیم کیا ہو؟ (پہلا ایڈیشن)۔ کٹولی، ملیح آباد، لکھنؤ: جامعہ سید احمد شہید۔ صفحہ: 185 
  15. شمس تبریز خاں (1984ء)۔ تاریخ ندوۃ العلماء (جلد دوم) (پہلا ایڈیشن)۔ لکھنؤ: دفتر نظامت ندوۃ العلماء۔ صفحہ: 452 
  16. ^ ا ب ابو الحسن علی حسنی ندوی (اگست 1983ء)۔ کاروان زندگی (پہلا ایڈیشن)۔ گوئن روڈ، لکھنؤ: مکتبۂ اسلام۔ صفحہ: 225 
  17. اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا (2017ء)۔ نحو تفعيل الإفتاء والقضاء في العصر الحاضر (بزبان عربی) (پہلا ایڈیشن)۔ بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیہ۔ صفحہ: 104 
  18. محمد صدر عالم ندوی (30 جون 2021ء)۔ "متاع ذکر و فکر ایک مطالعہ"۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جنوری 2024ء 
  19. محمد انتخاب ندوی (23 مارچ 2021ء)۔ "متاعِ ذکر و فکر"۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جنوری 2024ء