شمالی کوریا میں خواتین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شمالی کوریائی خاتون فوجی

شمالی کوریا میں خواتین (انگریزی: Women in North Korea) کا صحیح موقف دنیا کے آگے واضح نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر شمالی کوریا یکا و تنہا ہے۔ شمالی کوریا کے ارباب مجاز اس بات کے لیے راضی نہیں ہے کہ وہ بیرونی تحقیق کاروں کو ملک کے حالات کا جائزہ لینے کے مواقع فراہم کریں۔ سرکاری و نیم سرکاری ذرائع، سیاسی پالنا بدل کرنے ملک سے فرار ہونے والے، ملک کے متصادم پڑوسی جنوبی کوریا، مغربی ذرائع ابلاغ اور اس کے علاوہ کچھ بیرونی مطالعاتی ادارہ جات اکثر متضاد خبریں پیش کرتے ہیں۔ سرکاری طور یہ موقف ہے کہ ملک میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ ملک میں کئی قوانین رائج ہیں، جن میں جنسی برابری کا قانون، مزدوری کا قانون اور ضروری صنعتوں کے قومیانے کا قانون، جو اپنی تفصیلات میں خواتین کو بااختیار بنانے کے عظیم مقصد کی تکمیل کی کوشش کرتے ہیں۔[1] ملک میں کئی اصلاحات کو بھی بہ روئے کار لانے کی کوشش کی گئی، جن کا مقصد جنسی برابری کے اصول کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنا ہے۔ حالاں کہ ان اصلاحات میں کامیابی کے بارے میں رائے منقسم ہے۔

چین میں استحصال[ترمیم]

شمالی کوریا کے تعلقات دنیا کے بیش تر ممالک کے ساتھ نہیں ہیں یا بہت اچھے نہیں ہے۔ تاہم ایک استثناء چین ہے، جس سے ملک کے تعلقات اچھے ہیں اور ایک محدود حد تک لوگ شمالی کوریا سے چین آیا جایا کرتے ہیں۔ 2019ء میں لندن کی ایک غیر سرکاری سماجی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا کی ہزاروں خواتین اور لڑکیوں کو چین میں جسم فروشی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ کوریا فیوچر انیشیٹو نامی اس تنظیم کے مطابق ان میں اکثر خواتین کو اغوا کر کے جسم فروشی کے لیے فروخت کر دیا جاتا ہے یا چینی مردوں سے شادی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرائم پیشہ تنظیموں کے لیے اس کاروبار کی سالانہ مالیت دس کروڑ ڈالر ہے۔[2]

ملک میں جنسی استحصال[ترمیم]

عالمی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ (ایچ آر ڈبلیو) نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ شمالی کوریا میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنا، ان کے ساتھ نازیبا رویہ اختیار کرنا اور بعض اوقات انھیں آبرو ریزی کا نشانہ بنایا جانا کوئی بڑی بات نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ایچ آر ڈبلیو کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں شمالی کوریا کے ان افراد کو بنیاد بنایا گیا ہے، جو وہاں سے راہ فرار اختیار کرنے اور دوسرے ملکوں میں بسنے میں کامیاب ہوئے۔[3]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]