شہرت بخاری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شہرت بخاری
پیدائشسید محمد انور
2 دسمبر 1925(1925-12-02)ء

لاہور، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان)
وفات11 اکتوبر 2001(2001-10-11)ء

لاہور، پاکستان
آخری آرام گاہمیانی صاحب قبرستان، لاہور
قلمی نامشہرت بخاری
پیشہشاعر، ماہرِ تعلیم
زباناردو
نسلپنجابی
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
تعلیمایم اے (اردو)،ایم اے (فارسی)
اصنافشاعری، آپ بیتی
ادبی تحریکحلقہ ارباب ذوق
نمایاں کامطاق ابرو
دیوار گریہ
کھوئے ہوؤں کی جستجو

شہرت بخاری (پیدائش: 2 دسمبر، 1925ء - وفات: 11 اکتوبر، 2001ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر اور ماہرِ تعلیم تھے۔

پیدائش[ترمیم]

شہرت بخاری 2 دسمبر 1925ء کو لاہور برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے[1][2][3]۔ ان کا اصل نام سید محمد انور تھا۔

تعلیم[ترمیم]

انھوں نے نمایاں طور پر اردو اور فارسی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔

عملی زندگی[ترمیم]

حصول تعلیم سے فارغ ہوکر کچھ عرصے مجلس زبان دفتری میں ملازم رہے۔ بعد ازاں درس وتدریس کو ذریعۂ معاش بنایا۔ اسلامیہ کالج لاہور میں شعبۂ اردو وفارسی کے صدر رہے۔[3]

شہرت بخاری کی پاکستان پیپلز پارٹی سیاسی وابستگی رہی اور سیاسی جدوجہد میں عملی حصہ لینے کی پاداش میں انھیں کچھ عرصے تک جلا وطنی بھی جھیلنی پڑی۔ وہ اقبال اکیڈمی پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

شعر و ادب[ترمیم]

انھوں نے ایک طویل عرصہ حلقہ ارباب ذوق سے وابستگی میں گزارا۔ احسان دانش سے انھیں تلمذ حاصل تھا۔ ان کے شعری مجموعے طاق ابرو، دیوارِ گریہ، شب آئینہ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں جبکہ ان کی خود نوشت سوانح عمری کھوئے ہوؤں کی جستجو کے نام سے اشاعت پزیر ہو چکی ہے۔[2]

تصانیف[ترمیم]

شاعری[ترمیم]

  • طاق ابرو
  • دیوارِ گریہ
  • شبِ آئینہ
  • کلیاتِ شہرت بخاری

آپ بیتی[ترمیم]

  • کھوئے ہوؤں کی جستجو

نمونۂ کلام[ترمیم]

غزل

ہر چند سہارا ہے ترے پیار کا دل کورہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی لے اڑا نیندیںوہ درد کہ اٹھا نہ کبھی کھا گیا دل کو
یا سانس کا لینا بھی گزر جانا ہے جی سےیا معرکۂ عشق بھی اک کھیل تھا دل کو
وہ آئیں تو حیران وہ جائیں تو پریشانیارب کوئی سمجھائے یہ کیا ہو گیا دل کو
سونے نہ دیا شورش ہستی نے گھڑی بھرمیں لاکھ ترا ذکر سناتا رہا دل کو
روداد محبت نہ رہی اس کے سوا یاداک اجنبی آیا تھا اُڑا لے گیا دل کو
جز گرد خموشی نہیں شہرت یہاں کچھ بھیکس منزل آباد میں پہنچا لیا دل کو[4]

غزل

دل اس سے لگا جس سے روٹھا بھی نہیں جاتاکام اس سے پڑا جس کو چھوڑا بھی نہیں جاتا
دن رات تڑپتا ہوں اب جس کی جدائی میںوہ سامنے آئے تو دیکھا بھی نہیں جاتا
منزل پہ پہنچنے کی امید بندھے کیسےپاؤں بھی نہیں اٹھتے رستہ بھی نہیں جاتا
یہ کون سی بستی ہے یہ کون سا موسم ہےسوچا بھی نہیں جاتا بولا بھی نہیں جاتا
انگاروں کی منزل میں زنجیر بپا ہیں ہمٹھہرا بھی نہیں جاتا بھاگا بھی نہیں جاتا
ہر حال میں اتنے بھی بے بس نہ ہوئے تھے ہمدلدل بھی نہیں لیکن نکلا بھی نہیں جاتا
کافر ہوں جو حسرت ہو جینے کی مگر شہرتاس حال میں یاروں کو چھوڑا بھی نہیں جاتا[5]

غزل

جانے کس کس کی توجہ کا تماشا دیکھاتوڑ کر آئینہ جب اپنا ہی چہرا دیکھا
آ لگے گور کنارے تو ملا مژدۂ وصلرات ڈوبی تو ابھرتا ہوا تارا دیکھا
ایک آنسو میں ہوئے غرق دو عالم کے ستمیہ سمندر تو تیرے غم سے بھی گہرا دیکھا
عشق کے داغ ہوئے محو اس آشوب میں سبٹمٹماتا سا چراغ رخ زیبا دیکھا
کوئی اس خواب کی تعبیر بدل دے یاربگھر میں بہتا ہوا اک خون کا دریا دیکھا
کھو گئے بھیڑ میں دنیا کی پر اب تک شہرتسنسنا اٹھا ہے جی جب کوئی ان سا دیکھا

وفات[ترمیم]

شہرت بخاری 11 اکتوبر، 2001ء کو لاہور، پاکستان وفات پا گئے اور لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[1][2][3]

حوالہ جات[ترمیم]