شہریت ترمیمی قانون، 2019ء
شہریت (ترمیم) قانون، 2019 | |
---|---|
بھارتی پارلیمان | |
ایک قانون جو شہریت ایکٹ، 1955 میں مزید تبدیلی کرتا ہے۔ | |
سمن | 2019 کا ایکٹ نمبر 47 |
نفاذ بذریعہ | لوک سبھا |
تاریخ منظوری | 10 دسمبر 2019ء |
نفاذ بذریعہ | راجیہ سبھا |
تاریخ منظوری | 11 دسمبر 2019ء |
تاریخ رضامندی | 12 دسمبر 2019ء |
تاریخ تنفیذ | ابھی نوٹی فیکیشن باقی ہےء |
قانون سازی کی تاریخ | |
بل متعارف لوک سبھا | شہریت(ترمیم) بل(سی اے بی یا کیب) |
حوالہ بل | 2019 کا بل نمبر 370 |
تاریخ اشاعت | 9 دسمبر 2019 |
متعارف کردہ بدست | امت شاہ وزیر داخلہ |
First reading | 9 دسمبر 2019ء |
Second reading | 10 دسمبر 2019ء |
Third reading | 11 دسمبر 2019ء |
خلاصہ | |
یہ بل 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والےہندو، سکھ، بدھ مت، جین مت، پارسی اور مسیحی مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کے قابل بناتا ہے۔ اس بل میں شہریت کے لیے ملک میں 11 سال رہنے کی شرط کو تین ممالک کے چھ مذاہب کے تارکین وطن کے لیے نرم کر کے 5 سال کر دیا گیا ہے۔ | |
صورت حال: نافذ |
شہریت ترمیمی قانون 2019ء (انگریزی: Citizenship Act, 2019) بھارت کی پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ ایک ایکٹ ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعہ 1955 کے شہریت کے قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔اس ترمیم میں میں بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھ) سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دینے کی تجویز ہے، ان چھ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے جو مہاجر 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت آ گئے تھے، انھیں بھارتی شہریت دی جائے گی۔ اس ترمیم میں بھارتی شہریت کے لیے بھارت میں 11 سال رہنے کی شرط کو نرم کرتے ہوئے اسے 5 سال کر دیا گیا ہے۔ اس بل کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے مسلمان مہاجرین کو شہریت نہیں دی جائے گی۔ اس بل کے اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد ملک میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔[1]
مخالفت کی وجوہات
اکثریت کا اقلیت میں بدلے جانے کا خوف
آسام، میگھالیہ اور منی پور کے علاوہ دوسری شمال مشرقی ریاستیں جو بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد پر واقع ہیں اس بل کی مخالفت مقامی لوگوں کے اقلیت میں بدلے جانے کی وجہ سے کر رہی ہیں۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ اس قانون سے بنگلہ دیش کے ہندوؤں اور بودھ باشندوں کو یہاں آ کر بسنے کی ترغیب ملے گی اور اس طرح مقامی افراد نسلی طور پر رفتہ رفتہ اقلیت میں بدل جائیں گے۔
غیر آئینی
اس بل کی مخالفت اس لیے بھی ہو رہی ہے کہ یہ بل غیر جمہوری اور غیر آئینی ہے۔
بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا
بی جے پی کی بعض اتحادی جماعتوں کے خیال میں یہ بل بی جے پی کا اپنا سیاسی ایجنڈا ہے جس کا وہ حصہ نہیں بننا چاہتیں۔
شہریت (ترمیم) بل کے خلاف مظاہرے
بل کے پاس ہوتے ہی ملک بھر میں مظاہرے اور احتجاجات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بالخصوص آسام[2][3][4]، تریپورہ اور منی پور میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔[5] ان احتجاجات میں متعدد لوگ زخمی ہوئے ہیں اور دو کی موت ہو چکی ہے۔ ملک کی سول تنظیموں نے اس بل مخالفت کی ہے اور انڈین نیشنل کانگریس نے ایوان پارلیمان اور باہر سڑکوں پر ملک گیر احتجاج شروع کیا ہے۔مظاہروں کی وجہ فلائٹ اور ٹرینیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔[6] آسام اور تریپورہ میں حکومت نے انٹرنیٹ کی خدمت معطل کر دی ہے۔[7] رنجی ٹرافی 2019ء-2020ء کا آسام اور سروسز کے درمیان میں کا مقابلہ منسوخ ہو گیا۔
حوالہ جات
- ↑ شہریت کا متنازع ترمیمی بِل انڈین سپریم کورٹ میں چیلنج
- ↑ Kaushik Deka New DelhiDecember 12، 2019UPDATED: دسمبر 12، 2019 04:01 Ist۔ "Citizenship Amendment Bill protests: Here's why Assam is burning"۔ India Today (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2019
- ↑ Bikash Singh (2019-12-12)۔ "Citizenship Amendment Bill 2019: Why is Assam protesting?"۔ The Economic Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2019
- ↑ "'Anti-Muslim' citizenship law challenged in India court" (بزبان انگریزی)۔ 2019-12-12۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2019
- ↑ "Protests and strikes hit Assam, Manipur, Tripura against CAB" (بزبان انگریزی)۔ 2019-12-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2019
- ↑ "Citizenship Bill protests affect Assam; flights suspended, train services hit"۔ Deccan Chronicle (بزبان انگریزی)۔ 2019-12-12۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2019
- ↑ "Anti-Citizenship Bill protests: Army deployed in Assam, Tripura; Internet suspended"۔ The Hindu (بزبان انگریزی)۔ Special Correspondent۔ 2019-12-11۔ ISSN 0971-751X۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2019
بیرونی روابط
- Rules under Foreigners Act, 1946, The Gazette of India, 7 September 2015.