شیخ سلیمان قندوزی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(شیخ سلیمان القندوزی سے رجوع مکرر)
شیخ سلیمان قندوزی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1805ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قندوز ،  درانی سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات اگست1877ء (71–72 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استنبول ،  سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش قندوز
بلخ
بخارا
استنبول (1877–)
قونیہ
ایران   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم ،  مصنف ،  محقق ،  فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

علامہ شیخ سلیمان قندوزی (پیدائش: 1805ء — وفات: اگست 1877ء) مسلم عالم، مصنف، محقق، فقیہ تھے۔ آپ کی وجہ شہرت آپ کی تصنیف ینابیع المودۃ ہے۔ آپ موجودہ افغانستان سے تعلق رکھتے ہوئے ایران اور سلطنت عثمانیہ کے علما میں بھی شمار ہوتے تھے۔ آخری دور میں استنبول میں زندگی بسر کی۔

سوانح[ترمیم]

پیدائش اور نام و نسب[ترمیم]

علامہ سلیمان قندوزی کی پیدائش موجودہ افغانستان کے شہر قندوز میں سنہ 1220ھ مطابق 1805ء میں ہوئی۔اُس وقت قندوز بلخ کا ہی ایک علاقہ شمار کیا جاتا تھا۔ قندوز کی نسبت سے ہی آپ قندوزی کہلاتے ہیں۔ آپ کا نام سلیمان بن ابراہیم ہے جبکہ نسب یوں ہے: سلیمان بن ابراہیم خواجہ کلاں بن محمد بابا خواجہ بن محمد ابراہیم ابن شیخ ترسوں قندوزی بلخی۔

تعلیم[ترمیم]

علامہ قندوزی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بخارا جو اُس زمانے میں علم و فضل کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا، آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے بخارا چلے گئے اور وہاں سے سند ِ فضیلت حاصل کی۔ اِس کے بعد سابق علما کی طرح بصیرت و اطلاع کے لیے دیگر شہروں کی سیاحت و سفر کو روانہ ہوئے۔

تبلیغی اسفار[ترمیم]

علامہ قندوزی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلامی ممالک اور اُن مقامات کی سیاحت میں صَرف کیا جن مقامات پر مسلمانوں کا اَثر تھا۔ اِس سلسلے میں آپ ہندوستان اور افغانستان کے دوسرے صوبوں میں بھی پہنچے۔ خلقتِ کثیر کو اپنے علم و فضل کے چشمہ سے سیراب کیا۔ تصوف سے گہرا تعلق تھا ، اِسی سبب صوفیا کے اصحابِ طریقت سے ملاقات آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ مقامات ِ سلوک اور علوم شرعیہ میں ترقی کرتے رہے۔ اِن اسفار کے بعد اپنے وطن قندوز واپس آگئے اور یہاں بچوں کی تعلیم اور عوام کی تربیت کو فروغ دینے کے لیے ایک مسجد اور خانقاہ بھی تعمیر کروائی۔[1]

شوق ِ سیاحت[ترمیم]

قندوز میں مختلف قسم کے فرائض اداء فرماتے رہے، بالآخر پھر شوق ِ سیاحت نے وطن چھوڑنے پر مجبور کیا، اب وطن چھوڑنا آپ کے لیے دشوار بن گیا تھا۔ کیونکہ قندوز میں آپ کے ذ ِمہ بہت سی ذمہ داریاں عائد ہو گئی تھیں جنہیں آپ بڑی تندہی اور محنت و سلیقہ سے انجام دیا کرتے تھے۔ جب سفر کے عزم و اِرادہ میں استحکام پیدا ہو گیا تو آپ کو اپنے کام تقسیم کرنا پڑے۔ چنانچہ آپ نے اپنے بھتیجے محمد صلاح کو اپنا خلیفہ مقرر کر دیا اور تصوف کے سلسلہ کی ذ ِمہ داریاں اُن کے سپرد کر دیں اور تعلیم و تدریس کی ذ ِمہ داری ملا محمد عوض پر عائد کردی۔ شوق ِ سیاحت میں دوبارہ قندوز سے نکل پڑے۔اِس سفر میں تین سو اِرادت مند بھی شریک سفر تھے۔ اپنے تمام ساتھیوں سمیت روم (سلطنت عثمانیہ) پہنچے جہاں آ پ نے دو سال قیام فرمایا۔ علامہ قندوزی کی د ِلی خواہش تھی کہ اپنی سیاحت کا اِختتام مکہ مکرمہ میں فرمائیں اور وہیں قیام پزیر رہ کر پیوند ِ خاک ہوجائیں لیکن یہ قدرت کو منظور نہ تھا اور یہ خواہش تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔ روم (سلطنت عثمانیہ) سے روانہ ہو کر بغداد پہنچے۔ بغداد آمد سے قبل ہی آپ کی شہرت کا چرچا ہو چکا تھا۔ آپ جس شہر میں جاتے، امرا سمیت عوام آنکھوں پر بٹھاتی۔ بغداد میں آپ کا نہایت پرتپاک خیر مقدم ہوا۔ بغداد میں آپ کے قیام سے بے اِنتہاء استفادہ حاصل کیا گیا اور لوگوں نے آپ کے بحر علم سے سیرابی حاصل کی۔کچھ عرصہ بغداد میں قیام کے بعد آپ ایران آئے اور یہاں مختصر قیام کے بعد موصل، دیار بکر ، حلب سے ہوتے ہوئے قونیہ پہنچ گئے۔ قونیہ اُس وقت تصوف کا مرکز تھا ۔ شیخ صدر الدین قونوی کے مقبرہ کے کتب خانہ میں تصوف کے نوادر تھے، جبکہ شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی کے قلمی مخطوطات و نسخہ جات محفوظ تھے۔ آپ نے تین سال قونیہ میں قیام کیا۔ قونیہ میں قیام کے دوران تصوف کے جو نوادر آپ کو ملے، اُن میں سے اِقتباسات قلمبند کرتے رہے۔ [2]

ایران میں قیام[ترمیم]

ماہِ ذوالحجہ 1277ھ میں آپ ایران واپس چلے آئے۔ ایرانی حکومت نے آپ کا شاندار خیر مقدم کیا اور آپ کی بے انتہا عزت کی۔ مختلف قسم کی سہولیات بہم پہنچائی گئیں۔ آپ کا اِرادہ تھا کہ آپ مکہ مکرمہ چلے جائیں مگر تبدیلی ٔ حالات کے سبب ایران میں ہی مقیم ہو گئے۔اگرچہ قیام ایران میں رہا اور یہاں آپ کا حلقہ اِرادت وسیع سے وسیع تر ہو گیا اور ممالک اسلامیہ کے حکمران آپ کے مرید ہوتے چلے گئے۔ایران میں دورانِ قیام اپنے مریدین اور اہل سلوک کی رہنمائی اور قرآن و حدیث کی تعلیم میں وقف ہو گئے۔ [3]

تصنیف و تالیف[ترمیم]

علامہ قندوزی کو تصنیف و تالیف کا اچھا خاصہ شوق تھا۔بکثرت کتب کی تالیف کے متمنی تھے لیکن مریدین کی کثرت اور اُن کی آمدو رَفت کے تسلسل کے باعث زیادہ کتب تالیف نہ کرسکے۔

وفات[ترمیم]

علامہ قندوزی کی وفات ماہ ِ شعبان 1294ھ مطابق اگست 1877ء میں جمعرات کے د ِن استنبول میں ہوئی۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. علامہ سلیمان قندوزی: معالم العترۃ ، ترجمہ اُردو ینابیع المودۃ ، صفحہ 5/6، مطبوعہ اگست 1963ء
  2. علامہ سلیمان قندوزی: معالم العترۃ ، ترجمہ اُردو ینابیع المودۃ ، صفحہ 5/6، مطبوعہ اگست 1963ء
  3. علامہ سلیمان قندوزی: معالم العترۃ ، ترجمہ اُردو ینابیع المودۃ ، صفحہ 7، مطبوعہ اگست 1963ء
  4. علامہ سلیمان قندوزی: معالم العترۃ ، ترجمہ اُردو ینابیع المودۃ ، صفحہ 8، مطبوعہ اگست 1963ء

مزید دیکھیے[ترمیم]