شیخ محمد المجموعی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شیخ محمد المجموعی بارہویں صدی ھجری کے ایک راسخ غیر مقلد عالم تھے۔ دین کے فقط دو اصولوں یعنی قرآن اور سنت کے قائل تھے اور اجماع کے سرے سے منکر تھے۔ ان کے مطابق اصولِ اجماع ایک بدعت ہے جو کوفہ کے مجتہدین نے امت میں رائج کی تھی اور اس کی حیثیت محض فروع ہے۔ ان کے نزدیک، ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے مسائل کا حل قرآن و سنت سے خود تلاش کرے کیونکہ تقلید کرنا ایک گمراہی ہے۔ ان کے مطابق اسلام میں ضعیف احادیث کی کوئی بھی حیثیت نہیں۔ ان کے افکار غیر مقلدین کے امام اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی فکر سے کافی حد تک مماثل تھے۔
وہابی اور سلفی مسلک میں انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، کیوں کہ شیخ مجموعی دراصل ان کے امام محمد بن عبد الوہاب نجدی کے ان تین غیر مقلد اساتذا کرام میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی تعلیمات سے ان کے اندر انقلابی سوچ پیدا کی اور ان کے حقیقی اسلام سے انھیں روشناس کرایا۔ ابن عبد الوہاب کے بقیہ دو مُربّی شیخ عبدﷲ ابن السیف النجدی اور شیخ محمد حیاة السندی تھے، مگر شیخ محمد المجموعی ان کی شخصیت پر کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہوئے۔ لہٰذا شیخ ابن عبد الوہاب کے متاثرین نے آپ کی سوانح حیات میں اکثر شیخ محمد المجموعی کا تذکرہ کیا ہے، مثلاً سید علی طنطاوی جوھری مصری (متوفی 1335ھ) لکھتے ہیں: [ و قد عاد الي نجد فاستاذن اباه ان یکمل رحلته في طلب العلم فيتوجه الي الشام، فاذن له و كان الطريق علي البصرة فلما وصل إليها و جد فيها عالمنا سلفياله و مدرسة يقرئ فيها اسمه الشيخ محمد المجموعي فحضر عليه و سمع دروسه و رآه قائما بانكار المنكر صريحا في ذالك لايدري فيه و لا يساير و كان في نفس ابن عبد الوهاب مثل البر كان يريد أن يتفجر عليه فلقي منفذا فانطلق يعلن بالانكار يشجعه علي ذالك شيخه المجموعي و زاد حتيٰ راح يكفر المسلمين جميعا [1] ]
ترجمہ: (غیر مقلد علما ابن السیف نجدی اور حیاة السندی سے تحصیل علم کے بعد) شیخ ابن عبد الوہاب اپنے والد کے ہاں لوٹ آئے اور مزید حصول علم کے لیے ملکِ شام کو جانے کی اجازت طلب کی اور والد نے اجازت دے دی۔ ابھی بصرہ (عراق) پہنچے تھے کہ وہاں ایک غیر مقلد عالم "شیخ محمد المجموعی" سے ملاقات ہوئی جو وہاں مدرس تھے، بدعات کے انکار میں سخت متشدد تھے اور کسی قسم کی نرمی نہیں کرتے تھے۔ ادھر شیخ محمد بن عبد الوہاب کے دل میں (اعتقادی بدعات کے خلاف) پہلے ہی آتش فشاں کا لاوا ابل رہا تھا اور آتش فشاں عنقریب پھٹا چاہتا تھا اور محمد المجموعی سے ملاقات کے بعد وہ لاوا پھٹ پڑا، شیخ مجموعی ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے حتیٰ کہ شیخ نجدی نے بالآخر تمام مسلمانوں (مقلدین) کو کافر قرار دیا۔
شیخ ابن عبد الوہاب سے شیخ مجموعی کی پہلی ملاقات بصرہ میں ہوئی تھی، شیخ نجدی اس وقت بھرپور جوانی کے عالم میں تھے اور اپنے دونوں غیر مقلد اساتذا کی صحبت میں رہنے کے بعد ملکِ شام (یا کچھ روایتوں کے مطابق تُرکی) کے سفر پر گامزن تھے۔ انھیں دیکھتے ہی محمد مجموعی سمجھ گئے کہ یہ نوجوان بھی روایتی بدعات اور بدعت پسند عثمانی حکومت سے بیزار ہے اور یہ ضرور آگے چل کر ایک عظیم انقلاب کا امام ثابت ہوگا۔ چنانچہ انھوں نے شیخ نجدی کو شام (یا پھر استنبول) کے سفر سے باز رکھا اور انھیں بصرہ میں کئی سالوں تک اپنے بیباکانہ افکار میں ڈھالنے اور ان پر مزید سے مزیدتر راسخ کرنے میں کوئی کسر نہ رہائی۔ بالآخر شیخ محمد بن عبد الوہاب ان کے مطابقہ توحیدی اور تمام بدعات سے پاک عقائد و نظریات لے کر شیخ مجموعی کے بھائی عبد الکریم اصفھانی، شاگرد آسیہ شیرازی، بی بی صفیہ بصری اور ان کے دیگر پیروکاروں کے کہنے پر شرک و گمراھی کا قلعہ قمع کرنے اپنے آبائی علاقے "نجد" چلے آئے۔ اس وقت شیخ محمد المجموعی بصرہ میں موجود نہ تھے۔ لیکن واپس آنے پر جیسے ہی انھیں اپنے ہونہار شاگرد کے جرات مندانہ اقدام کا پتا چلا، تو خود بھی نجد کو روانہ ہو گئے، پس شیخ نجدی سے وہاں ملاقات کی اور دین کی خاطر ان کی ہمت کو خوب سراہا۔ یعنی میدانِ عمل میں بھی شیخ المجموعی ہمیشہ شیخ ابن عبد الوہاب کے ساتھ ہدایت کا سایہ بن کر رہے۔ انھوں نے ہی شیخ ابن عبد الوہاب کو عربستان میں قبروں پر بنی عمارتیں (مزارات) منہدم کر کے زمین کے برابر کر دینے کے لیے آمادہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے افکار کی اشاعت کے لیے شیخ نجدی کی جو مالی مدد کی، اس کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ امیرِ درعیہ محمد بن سعود کا شیخ محمد بن عبد الوہاب سے منسلک ہونا بھی شیخ المجموعی کے توسط کا نتیجہ تھا۔
الغرض، شیخ محمد المجموعی کی حیثیت امام محمد بن عبد الوہاب نجدی کی زندگی میں ایک مربّی اور معلم سے کہیں زیادہ تھی۔ بلکہ اگر انھیں شیخ ابن عبد الوہاب کے ساتھ مسلکِ وهابيه کا شریک بانی کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

شیخ محمد المجموعی کی شروعاتی زندگی اسرار سے گھری ہوئی ہے۔ ان کا اصلی نام "ہمفر شوے" (Hempher Shvay) یا "ہمفرے" (Humphrey) تھا۔ وہ سترہویں صدی عیسوی کے اواخر میں انگلستان میں پیدا ہوئے اور وہیں پر ہی تعلیم و تربیت پائی۔ ان کی ابتدائی زندگی کے متعلق تقریباً ساری معلومات ہمیں ان کی تصنیف "ہمفر کی یادداشتیں" (The Memoirs of Mr. Hempher) سے ملتی ہے، جو انھوں نے غالباً اپنی عمر کے اواخر میں لکھی تھی۔

شیخ محمد المجموعی
معلومات شخصیت
اصل نام ہمفر شوے (Hempher Shvay)
ہمفرے (Humphrey)
تاریخ پیدائش c. 1690
انگلستان
شوہر (لیڈی ماریا شوے[2]) Lady Maria Shvay
اولاد (راسپوٹین شوے[3]) Rasputin Shvay
پیشہ خفیہ کارندہ[4]، عالم، فقیہ
پیشہ ورانہ زبان انگریزی، ترکی، عربی، فارسی
کارہائے نمایاں The Memoirs of Mr. Hempher
وہابی تحریک[5]

زبردست قوت حافظہ اور غیر معمولی عقل و فہم کے مالک تھے۔ لہٰذا نوجوانی میں ہی لندن کی برطانوی وزارت برائے رفاہ عامہ (British Ministry of Commonwealth) میں بطور جاسوس ملازمت حاصل کرلی۔ برطانیہ کے استعماری مقاصد کے لیے ہندوستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی (East India company) میں بھی خدمات سر انجام دیں[6]۔
لیکن انھوں نے برطانوی خفیہ کارندے کی حیثیت سے دور لالہ (Tulip era) کے دوران سلطنت عثمانیہ کی بنیادیں کمزور کرنے میں جو اہم کردار ادا کیا، وہ ان کی سب سے بڑی وجہءِ شہرت بنا۔ اسی سلسلے میں انھوں نے شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کا غیر مقلدیت کی جانب میلان اور عثمانی ترکوں کے خلاف عداوت دیکھ کر ان کی کئی سالوں تک (اپنے مفادات کے مطابق) مذہبی تربیت کی اور بالآخر 1125ھ میں ان کے ہاتھوں ایک نئے فرقے "وھابیه" کی بنیاد رکھوائی، جو آگے چل کر خلافت عثمانیہ اور اس کے ہمعقیدہ مسلمانوں کے خلاف ایک عظیم ہتھیار ثابت ہوا۔
مسٹر ہمفر دراصل برطانوی وزارت کی جانب سے خلافت عثمانیہ اور صفوی سلطنت میں بھیجے گئے سیکڑوں جاسوس مردوں اور عورتوں میں سے محض ایک تھے[7]۔

برطانوی وزارت برائے رفاہ عامہ کے حکام اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ انھیں (اپنا عالمی استعمار کے خواب کو پورا کرنے کے لیے) اگر خلافت عثمانیہ کو صفحہِ ہستی سے مٹانا ہے تو پہلے دین اسلام کو پارہ پارہ کرنا ہوگا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اسلام ایک دین کامل ہے اور اس میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ پس جیسے ہی کوئی فتنہ کھڑا کیا جاتا ہے، علما اسے اپنی اسلامی تعلیمات سے پہچان لیتے ہیں اور فوراً عوام کو اس کے متعلق آگاہ کر دیتے ہیں اور اسی طرح ہمارا فتنہ ناکام ہو جاتا ہے۔
اس لیے ہمیں عام مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی سوچ کا بیج بونا ہوگا کہ یہ اپنے ائمہ، اکابرین و علما سے باغی ہو جائیں اور خود کو ہی ہر مسئلے کا حل تلاش کرنے کے قابل سمجھنے لگیں۔ اور خلیفہ سے بغاوت پر لوگوں کو آمادہ کرنے کے لیے ہمیں مسلمانوں کے دلوں سے ان کے نبی ﷺ کی محبت و جذبہءِ تعظیم بھی نکال باہر کرنی پڑے گی، کیوں کہ وہ خلیفہ کو اپنے نبی ﷺ کا جانشین تصور کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ 
لہٰذا ایک ایسے فرقے کی احیاء جس میں یہ دونوں خصوصیات یکسر موجود ہوں، برطانیہ کے لیے انتہائی ناگزیر تھی۔ اور یہ عظیم کارنامہ مسٹر ہمفر نے کر دکھایا۔

کارکردگی[ترمیم]

سنہ 1710ء میں مسٹر ہمفر (محمد المجموعی) اور 9 دیگر خفیہ کارندوں کو پہلی بار سلطنت عثمانیہ اور صفوی سلطنت کے مختلف علاقوں میں، تمام تر ضروری معلومات اور مالی امداد کے ساتھ بھیجا گیا۔ اتفاقاً مسٹر ہمفر کو سلطنت عثمانیہ کے دار الخلافہ "استنبول" کے لیے چنا گیا۔
استنبول میں انھوں نے دو سال تک قیام کیا اور یہیں پر پہلی بار انھوں نے اپنی شناخت بدل کر خود کو محمد المجموعی کے نام سے معروف کر لیا اور باقائدگی سے ہر ماہ ایک رپورٹ لندن میں وزارت برائے رفاہ عامہ کو بھیجتے رہے۔ اسی دوران مسٹر ہمفر نے ایک مدرسے میں احمد آفندی نامی ایک عالم کے ہاں عربی اور ترکی کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث اور شریعت کی اچھی خاصی تعلیم حاصل کی۔ پھر لندن لوٹ آئے۔
چھہ مہینے بعد پھر بصرہ (عراق) کی مہم پر روانہ کر دیے گئے۔
یہاں پر خود کو ایک عالم دین کے طور پر معروف کیا۔ ان کی یہ مہم سب سے اہم ثابت ہوئی، کیوں کہ یہیں پر ان ملاقات پہلی مرتبہ شیخ محمد بن عبد الوہاب سے ہوئی۔ پس شیخ مجموعی (مسٹر ہمفر) نے ان کی فکر و حیات کو بدل کر رکھ دیا۔
کچھ سال شیخ نجدی کی تربیت کرنے کے بعد کسی بہانے ان سے عارضی وداع کرلی اور پھر بصرہ سے بغداد کے رستے کربلا اور نجف گئے۔ چھہ ماہ وہاں گزار کر خفیہ معلومات لندن بھیجت رہے، اب واپس بغداد آکر سیدھا لندن چلے آئے۔
یہاں وزارت کے افسران نے شیخ مجموعی کے کام کو خوب سراہا، کیوں کہ وہ ایک ایسے فرقے کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گئے تھے جس میں ان کے دونوں مطلوبہ عناصر یکسر موجود تھے۔
کچھ عرصہ لندن میں آرام کرتے رہے۔ چھہ ماہ کے بعد وزارت برائے رفاہ عامہ کے حکم پر لندن چھوڑ کر پھر سے بصرہ آ گئے، جہاں انھیں علم ہوا کہ محمد بن عبد الوہاب واپس اپنے آبائی علاقے "نجد" چلے گئے ہیں۔ پس شیخ المجموعی بھی نجد جاکر ان سے دوبارہ ملے اور ایک لمبے عرصے تک اپنے عقائد (وہابی تحریک) کی اشاعت و ترویج میں ان کی مدد اور رہنمائی کرتے رہے۔
تاریخدانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ جب شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہندوستان سے حج کے لیے عربستان تشریف لے گئے تھے، تب شاید انھوں نے شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے ساتھ ساتھ علامہ محمد المجموعی سے بھی ملاقات کی تھی۔ جنھوں نے ہی شاہ ولی اللہ کے فکر کو کچھ حد تک متاثر کیا۔

انکشافات[ترمیم]

شیخ محمد المجموعی نے اپنی کتاب میں اپنے زمانے کے کچھ انتہائی اہم انکشافات کیے ہیں جیسے:

  • ان دِنوں سلطنت عثمانیہ میں غیر ملکی خفیہ کارندوں کو پکڑنے کے لیے کوئی خاص ادارہ ہی قائم نہیں کیا گیا تھا[8]۔
  • مسٹر ہمفر (اور اسی طرح منسٹری کے افسران اور پادریوں) کو اچھی طرح معلوم تھا کہ قرآن کریم ان کے بائبل اور تورات سے کافی درجے بہتر ہے[9]۔
  • برطانیہ کے عالمی مقاصد کے حصول کی خاطر مسٹر ہمفر کے علاوہ بھی تقریباً 5 ہزار کارندے (Agents) سرگرم عمل تھے۔ جبکہ منسٹری کے حکام ان کی تعداد بڑہا کر ١٠٠ ہزار کرنا چاہتے تھے[10]۔
  • برطانوی وزارت نے اسلام کے خلاف منصوبہ بندی کرنے کے لیے جس قدر غور و فکر کے ساتھ قرآن اور حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا، اس کی مثال مسلم دنیا میں بھی مشکل سے ملتی ہے۔
  • عراق میں اہل تشیع کی تعداد اہل سنت کے ١/١٠ کے برابر تھی (مگر دورِ حاضر میں اہل تشیع وہاں اکثریت میں ہے)۔
  • اس زمانے میں مغربی ممالک کے لوگ مسلمانوں کو ان سے زیادہ شائستہ، خوشمزاج اور مہذب تصور کرتے تھے[11]، جبکہ مسلمان تمام فرنگی عیسائیوں کو پلید کہتے تھے۔
  • عراقی شیعہ خلافت عثمانیہ کے مخالف تو تھے مگر اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے قائل نہ تھے۔ ان کے مطابق ان کے مقصود خلیفہ مطلق (امام مہدی علیہ السلام) ہی آکر انھیں نجات دلائیں گے، تب تک انھیں صرف صبر کرنا ہے[12]۔
  • ان دنوں انگلستان میں سدومیت ایک بہت ہی عام فعل تھا[13]۔
  • انگریزوں میں مسواک کا تصور نہ تھا لہٰذا ان کی سانسیں اکثر بدبو دار رہتی تھیں۔
  • عراقی شیعہ تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ان کے علما کے علاوہ، ہزاروں میں سے کوئی ایک پڑھا لکھا نظر آتا تھا[14]۔
  • فوت شدگان کے لیے فاتحہ خوانی ان دنوں بھی اہل سنت کے ہاں معروف تھی[15]۔
  • شیخ محمد بن عبد الوہاب کو اہل تشیع سے کوئی خاص جذباتی عداوت یا تعصب نہیں تھا۔
  • شیخ نجدی بار بار کہتے کہ وہ امام ابو حنیفہ سے بہتر مجتہد ہیں[16]۔
  • شیخ محمد المجموعی سے ملاقات سے قبل ہی شیخ ابن عبد الوہاب فرماتے تھے کہ ہمیں خود قرآن و حدیث سے احکام اخذ کرنے چاہئیں۔ پھر چاہے ہماری تحقیق ائمہ یا پھر صحابہ سے ہی اختلاف کیوں نہ رکھتی ہو، اس پر عمل کیا جائے[17]۔
  • شیخ نجدی عربی زبان کے علاوہ ترکی اور فارسی بھی جانتے تھے[18]۔
  • اسلام میں غیر مقلدیت (وھابیه) کی بنیاد رکھنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے نصرانیت میں پروٹسٹنٹزم (Protestantism).

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. محمد بن عبد الوہاب(سوانح)، ص 19
  2. ["Confessions of a British spy and British enmity against Islam" ; 19th edition, published by Hakîkat Kitâbevi, Istanbul (Turkey)] صفحہ نمبر: 17
  3. ایضاً : صفحہ نمبر 39
  4. ایضاً : صفحہ نمبر 3
  5. ایضاً : صفحہ نمبر 3
  6. ایضاً : صفحہ نمبر 6
  7. ایضاً : صفحہ نمبر 3
  8. ایضاً : صفحہ نمبر 11
  9. ایضاً : صفحہ نمبر 18
  10. ایضاً : صفحہ نمبر 64
  11. ایضاً : صفحہ نمبر 11
  12. ایضاً : صفحہ نمبر 37
  13. ایضاً : صفحہ نمبر 15
  14. ایضاً : صفحہ نمبر 38
  15. ایضاً : صفحہ نمبر 15
  16. ایضاً : صفحہ نمبر 26
  17. ایضاً : صفحہ نمبر 24
  18. ایضاً : صفحہ نمبر 22