شیخ محمد مراد شامی
ان کا پورا نام شیخ مراد بن علی بن داؤد بن کمال الدین بن صالح ابن محمد حسینی حنفی بخاری نقشبندی ہے۔[1] آپ حضرت خواجہ محمد معصوم کے وہ خلیفہ تھے جن کی بدولت ترکستان میں سلسلہ نقشبندیہ کی نشر و اشاعت عمل میں آئی۔ سنوری، یروکلمان، محمد خلیل مرادی، زرکلی اور کہالہ نے آپ کی تصانیف کا تعارف کرایا۔
بیعت و خلافت
[ترمیم]اگرچہ ان کا قیام شام اور دمشق میں تھا لیکن اکثر حرمین شریفین میں مقیم رہتے تھے۔ عربی، فارسی اور ترک زبان پر عبور حاصل تھا۔ ان کے والد شیخ علی بن داؤد حضرت مجدد الف ثانی کے مرید و خلیفہ اور سمرقند کے 'نقیب الاشراف' تھے۔ شیخ محمد مراد شامی نے سرہند صرف ایک ہفتہ قیام کیا اور سلوک کی تمام منازل حضرت خواجہ محمد معصوم سے طے کیں۔ واپسی پر بلاد عجم کا سفر بھی کیا۔ سمرقند اور بلخ کے مشائخ سے ملے اور مشہور شاعر مرزا صائب سے ایران میں ملاقات ہوئی۔ دوسرے حج کے بعد 1080ھ /1670ء میں وہ دمشق گئے۔ 1092ھ /1681ء میں روم اور قسطنطنیہ کے سفر کے بعد 1097ھ / 1686ء میں تیسری مرتبہ حج کیا اور ایک سال حرمین شریفین میں مقیم رہے۔ 1119ھ / 1708ء میں انھوں نے چوتھی مرتبہ حج کیا۔ انھوں نے اپنے علاقے میں ایک مدرسہ قائم کیا جو مدرسہ نقشبندیہ کہلاتا ہے۔
علمی خدمات
[ترمیم]شیخ محمد مراد شامی کو دس ہزار احادیث مع اسناد حفظ تھیں۔ آپ کئی کتابوں کے مولف بھی تھی۔ مکتوبات امام ربانی اور مکتوبات معصومیہ کے بعض حصوں کا عربی میں ترجمہ بھی کیا۔ آپ ان مکتوبات کا درس بھی دیتے تھے جس کے ترکی اور دیار عرب میں بڑے خوشگوار اثرات مرتب ہوئے اور نہ صرف اہل عرب اس طریقہ مبارکہ کی حقانیت سے آگاہ ہوئے بلکہ ترک بھی اس کی عظمت کے معترف ہو گئے۔ ان کے معاصرین نے مکتوبات شریف کا ترکی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔[2]
دیگر تالیفات درج ذیل ہیں۔
- المفردات القرآنیہ۔ دو جلدوں پر مشتمل اس تالیف میں آیات کی تفسیر پہلے عربی پھر فارسی اور آخر میں ترک زبان میں کی گئی ہے۔ علما میں یہ کتاب بہت مقبول رہی۔[1]
- فی آداب الطریقتہ النقشبندیہ۔ آداب طریقت نقشبندیہ پر رسالہ[3]
مکتوبات امام ربانی اور مکتوبات معصومیہ کا عربی ترجمہ کیا اور آپ ان مکتوبات کا درس بھی دیتے تھے جس کے ترکی اور دیار عرب میں بڑے خوشگوار اثرات مرتب ہوئے اور نہ صرف اہل عرب اس طریقہ مبارکہ کی حقانیت سے آگاہ ہوئے بلکہ ترک بھی اس کی عظمت کے معترف ہو گئی۔ ان کے معاصرین نے مکتوبات شریف کا ترکی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔
وفات و تدفین
[ترمیم]ان کی وفات 21 ربیع الثانی 1132ھ / 1720ء میں جامع ابو ایوب خالد انصاری میں ہوئی اور مدفن درس خانہ مدرسہ محلہ نیشانجی پاشا قسطنطنیہ ہے۔[1]
خدمات سلسلہ
[ترمیم]حضرت خواجہ محمد معصوم جب حج کے لیے حجاز مقدس میں حاضر ہوئے تو شیخ محمد مراد شامی کئی ہزار شامیوں کے ہمراہ آپ کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے۔[4]
ان کی وجہ سے شام اور ترکی میں سلسلہ نقشبندیہ کو بڑا فروغ ہوا۔
آپ کے دو صاحبزادوں میں سے شیخ مصطفے مرادی نے حضرت خواجہ محمد معصوم سے کسب فیض کیا۔ مکتوبات معصومیہ میں ایک طویل عربی خط آپ کے نام ملتا ہی۔[2]
آپ کے دوسرے صاحبزادے شیخ محمد دمشقی مرادی متوفی 1169ھ / 1755ء حضرت خواجہ محمد زبیر سرہندی کے خلیفہ تھے۔[4]
شیخ محمد مراد شامی اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ محمد معصوم کے صاحبزادگان کا بھی بہت احترام کرتے تھے۔ حضرت خواجہ محمد معصوم کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت خواجہ صبغت اللہ حج کے لیے گئے تو شیخ محمد مراد شامی نے حاضر خدمت ہو کر ایک لاکھ روپے بطور نذر پیش کیے۔[2]
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب پ سلک الدرر، محمد خلیل مرادی
- ^ ا ب پ مقامات معصومیہ، خواجہ صفر احمد معصومی
- ↑ ہدیۃ العارفین، اسمعیل بغدادی
- ^ ا ب روضتہ القیومیہ، کمال الدین محمد احسان