شیخ نذیر احمد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نذیر احمد 1911 میں پٹیالہ میں پیدا ہوئے۔ کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا شعر و ادب کا شوق تھا کالج دور تک مشاعروں میں شرکت رہی لیکن بعد میں اس طرف زیادہ رغبت نہ رہی

مجموعہ کلام[ترمیم]

ان کے مزاحیہ شاعری کے دو مجموعے "حرف بشاش" اور "وارے شیخ نذیر" ہیں جو ان کی وفات کے بعد منظر عام پر آئے

لمرک[ترمیم]

ظریفانہ شاعری میں نظم قطع غزل اور پیروڈی کے ساتھ ساتھ مزاحیہ شاعری کی مغربی  صنف سخن "لمرک"کے اردو شاعری میں موجد ہیں اور تاحال خاتم بھی۔ مزاح میں صنعتی شاعری بھی انہی سے مخصو ص ہے۔

شاعری[ترمیم]

ان کی شاعری صحیح معنوں میں مطالعہ مشاہدے اور تجربے کی شاعری ہے آپ نے مختلف موضوعات پر مزاحیہ شاعری کی مختلف ہیئتوں میں خوبصورتی کے ساتھ سمودیا سادگی اور سلامت ان کے مزاح کہیں  فنی خوبی ہے فکری حوالے سے ان کے موضوعات زندگی سے جڑے ہیں

بقول ڈاکٹر فرمان فتح پوری شیخ

نزیر احمد نے آج  کے صنعتی دور اس کے پیدا کردہ تہذیبی مسائل کو طنز و مزاح کے پیرائے میں موضوع سخن بنایا اور کسی مخصوص ہیت  میں نہیں بلکہ ہر صنف سخن میں کچھ نہ کچھ کہا ہے

نذیر احمد اگرچہ ان چند نظم گو شعرا میں سے ہیں جن کے  ہاں سنجیدہ کلام نہیں ملتا ان کا کل کلام طنز و مزاح پر مشتمل ہے نظم کی تمام اختلاف میں ان کے ہم تو اسے کام مل تاہے وارث شیخ نصیر میں کل 21 غزلیں ہیں جن میں موجود اشیاء ان کے تجربات اور مشاہدات متعلق ہیں آنکھیں ایسے بہت سے اشعار ملتے ہیں جن میں بہت سہولت سے اچھوتے مضامین کو قلمبند کیا گیا ہے۔

قول مردوں کا جان رکھتا ہے عورتوں کا زبان رکھتا ہے کیوں نہ مہمان کو ہم کہیں رحمت گھر میں امن وامان رکھتا ہے

تخلص[ترمیم]

شیخ اور وائظ پر چوٹ شاعری میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ مزاحیہ شاعری کی ابتدا ہی شیخ اور۔ وعظ،ناصح  سے چھیڑ چھاڑ سے ہوئی ہے اور آپ نے اپنے تخلص کا بھرپور فائدہ اٹھا کر شیخ اور واعظ پر خوب چو ٹیں کیں۔

شیخ صاحب نے عید قرباں
ایک مرغا اصیل کر ڈالا

لفظ سازی[ترمیم]

لفظ سازی تو اردو شاعری میں بہت سے شعرا کے ہاں مل جاتی ہے لیکن ایسے الفاظ بہت کم شعرا کے ہاں ملتے ہیں جو گھڑے جانے کے بعد اپنا پورا جواز بھی مہیا کریں اور شعر بھی اپنی نشست میں اجنبی یا کھڑے ہوئے محسوس نہ ہو مزاحیہ شاعری میں اکثر مزاح گو شعرا کے ہاں اس کی مثالیں مل جاتی ہیں لیکن نذیر احمد جیسی لفظ سازی قریب قریب نایاب ہے جیسے ذیل کے اشعار میں ظریفے اور ردیف کے الفاظ

لطیفے زباں پر وظیفے ہوئے ہیں بچو شیخ صاحب ظریفے ہوئے ہیں ردیف اتنی لمبی مگر بحر اتنی چھوٹی یہ اشعار خالی ردیفے ہوئے ہیں

تابع مہمل کا استعمال[ترمیم]

انور مسعود کی رائے "پچھلے دنوں میں نے پنجابی کی اک نظم میں تابع مہمل کا استعمال کیا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ ایک نئی بات ہے۔ کلیات شیخ کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ جناب شیخ کا نقش قدم یہاں بھی موجود ہے [1]۔"

یار اب بولتا چالتا بھی نہیں کان رس گھولتا گھالتا بھی نہیں شیخ بے ساختہ گھڑ رہا ہے غزل شعر کو چھیلتا چھالتا بھی نہیں

صنعت اشتقاق کا استعمال[ترمیم]

صنعت اشتقاق [2] ایک مشکل صنعت ہے اس میں استعمال ہونے والے الفاظ ایک ہی مآخذ سے مربوط ہوتے ہیں۔" اس صنعت کا استعمال عام طور پر اساتذہ کے ہاں ہی ملتا ہے کہ نئے دور کے شعرا اتنی محنت کے عادی نہیں ہوتے۔ ذیل کی غزل کے دو اشعار میں اس صنعت کو مہارت سے سمویا گیا ہے۔ پہلے شعر میں صحافی سے صحیفے اور دوسرے میں ضعیفی سے ضعیفے اور بھلی تکرار۔ جس سہولت سے اسم سے فعل بنایا گیا ہے وہ شاعر کی قادرالکلامی پر برہان قاطع ، دلیل ساطع ہے۔

لطیفے زباں پر وظیفے ہوئے ہیں بچو شیخ صاحب ظریفے ہوئے ہیں ہماری سمجھ پر ہی پتھر پڑے تھے صحافی پہ نازل صحیفے ہوئے ہیں

حوالہ جات[ترمیم]

  1. انور مسعود، شاخ تبسم ، ض 46  
  2. عابد علی عابد، سید، البدیع ، ص 255