مندرجات کا رخ کریں

شیزر

متناسقات: 35°16′04″N 36°34′00″E / 35.26778°N 36.56667°E / 35.26778; 36.56667
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شيزر
لاریسا
گاؤں
شیزر کا قلعہ اور قصبہ
شیزر کا قلعہ اور قصبہ
شیزر is located in Syria
شیزر
شیزر
سوریہ کے نقشہ میں مقام
متناسقات: 35°16′04″N 36°34′00″E / 35.26778°N 36.56667°E / 35.26778; 36.56667
ملک سوریہ
محافظہحماہ
ضلعمحردہ
ناحیہناحيہ مركز محردہ
آبادی (2004 ء کی مردم شماری کے مطابق)[1]
 • کل۵۹۵۳
منطقۂ وقتای ای ٹی (UTC+2)
 • گرما (گرمائی وقت)ای ای ایس ٹی (UTC+3)

شیزر شمالی سوریہ میں واقع ایک قصبہ ہے جو انتظامی لحاظ سے محافظہ حماہ کا حصّہ ہے۔ یہ قصبہ حماہ شہر سے شمال مغربی جانب واقع ہے۔ اس کے نزدیک محردہ، تریمسہ، کفر ھود، خُنَيزير اور حلفايا واقع ہیں۔ سوریہ کے سرکاری ادارے مرکزی ادارۂ شماریات کے مطابق ۲۰۰۴ء کی مردم شماری میں اس قصبہ کی کل آبادی ۵۹۵۳ افراد پر مشتمل تھی۔[2]

صلیبی جنگوں کے دوران اس قصبہ کی بجائے ایک قلعہ ہوا کرتا تھا جس پر بنو منقد حاکم تھے۔ اس قلعہ اور خاندان نے صلیبی دور کی عیسائی اور مسلم سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔

جائے وقوعہ

[ترمیم]

شیزر، حماہ کے شمال مغرب میں 28 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے عاصی کے کنارے ایک اہم کراسنگ پوائنٹ پر واقع ہے۔

وجہ تسمیہ

[ترمیم]

14 صدی قبل مسیح زمانہ کے مکتوبات عمارنہ میں اس قصبہ کا نام سینزر یا سیزر درج تھا۔ یونانیوں نے اسے سِڈزارا کا نام دیا۔ سلوقی سلطنت کے دور حکومت میں تھسلی کے ایک قصبہ لاریسا سے کافی نوآبادیات آ کر یہاں بس گئے تھے[3] اس بنا پر اس کا نام تبدیل کر کے لاریسا رکھ دیا گیا۔[4] جب رومی یہاں کے حاکم ہوئے تو اُنھوں نے سابقہ نام بحال کر دیا اور بازنطینی دور میں یہ پرانے نام سیزر سے جانا جانے لگا۔ صلیبیوں نے اس قصبہ کا قبضہ پایا تو نام تبدیل کر کے قیصریہ رکھ دیا کیوں کہ صلیبیوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی تھی کہ یہ مقام قیصریہ مزاکا (کیپادوکیہ، ترکیہ) ہے جہاں عیسائیوں کے ایک سینٹ باسل اعظم کی پیدائش ہوئی تھی۔

تاریخ

[ترمیم]

64 قبل مسیح میں رومی فوج نے جنرل پومپی کی قیادت میں سوریہ فتح کیا تو یہ قصبہ بھی رومیوں کے قبضہ میں چلا گیا مگر جلد سلطنت اشکانیان کے پاکورس اوّل (دور: ۳۹ قبل مسیح) نے سوریہ رومیوں سے حاصل کر لیا۔ عربوں کی سوریہ پر یلغار کے وقت شیزر پر بازنطینی حاکم تھے۔ ۱۷ھ (۶۳۸ء) میں عربوں نے حضرت ابو عبیدہ کی قیادت میں شیزر فتح کیا۔ عربوں اور بازنطینیوں کی جنگی کشمکش میں یہ قصبہ کبھی عربوں کی حکومت میں آ جاتا تھا تو کبھی بازنطینیوں کے قبضہ میں چلا جاتا تھا۔ ۹۶۸ء میں بازنطینی قیصر نیکوفوروس دوم نے شیزر کا محاصرہ کیا اور ۹۹۹ء میں باسل دوم نے اسے مسلمانوں کے قبضہ سے چھین لیا۔ بازنطینیوں نے اسے اپنا جنوبی سرحدی علاقہ بنا لیا اور اس کے انتظامی معاملات کا ذمہ دار بشپ آف شیزر کو قرار دیا۔ بازنطینیوں کے دوبارہ قبضہ کے وقت شیزر میں ایک فاطمی قلعہ بھی موجود تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں مختصر مدت کے لیے فاطمی بھی قابض رہے۔[3] امارت بنو منقذ کے دوسرے فرماں روا سدید الملک ابو الحسن علی (دور امارت: ۱۰۸۱ء - ۱۰۸۲ء) نے یہ قصبہ ۱۰۸۱ء میں بشپ سے قیمتاً حاصل کر لیا۔ بعد ازاں بازنطینیوں نے متعدد بار اس کے دوبارہ حصول کے لیے محاصرے کیے لیکن ہر بار اُنھیں ناکامی کا سامنا رہا۔

صلیبی

[ترمیم]

فرنگی قوم کے قدم یہاں پہلی صلیبی جنگ کے دوران ۱۰۹۸ء میں پڑے تھے۔ صلیبیوں کے سوریہ پر قبضے اور مختلف امارتوں کی تشکیل کے بعد اُن کے امارتِ بنو منقذ سے جھڑپوں اور اتحادوں کے سلسلے جاری ہوئے۔

شیزر کا قلعہ

امارتِ بنو منقذ

[ترمیم]

بنو منقذ نے شیزر کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اس لیے الگ عنوان کے تحت ان کے مختصر حالات دیے جا رہے ہیں۔

بنو منقذ کا اقتدار شیزر کے مشرق میں جبال انصاریہ سے بحیرۂ روم کے ساحل تک اور شمال میں لاذقیہ کے ساحلی شہروں سے جنوب میں طرطوشہ تک قائم رہا۔ پہلی صلیبی جنگ کے دوران بنو منقذ کے تیسرے امیر عزّ الدولہ نصر نے اپنی حدود سے گزرنے والے صلیبیوں کی مدد کی اور اُنھیں گھوڑے، خوراک اور دیگر ضروری سامان فراہم کیا۔ صلیبی جنگ کے بعد اُس کی سرحد انطاکیہ کی صلیبی سلطنت سے ملحق ہو گئی تھی اور بنو منقذ کی حدود میں انطاکیہ اور طرابلس کی صلیبی ریاستوں کی جانب سے چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ ۱۱۰۶ء میں مختصر مقابلہ کے بعد صلیبیوں نے شیزر کے شمال مغرب میں واقع قلعہ المضیق فتح کیا تو بنو منقذ نے شیزر سے اُن کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا[3] اور مجد الدین (دور امارت: ۱۰۹۸ء - ۱۱۳۷ء) اور عزّ الدین سلطان (دور امارت: ۱۰۹۸ء - ۱۱۵۴ء) نے طرابلس کے صلیبی حاکم ولیم دوم کو شکست دی، صلیبیوں سے معرکوں کے دوران ٹانکریڈ کو جنگی قیدی بنا لیا اور اُس کی رہائی کے لیے ۱۱۰۸ء اور ۱۱۱۰ء میں صلیبیوں سے تاوان وصول کیا۔ ٹانکریڈ، شاہِ یروشلم بالڈون اوّل اور طرابلس کے صلیبی حاکم برٹرینڈ نے اتحاد قائم کر کے ۱۱۱۱ء میں شیزر کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ دو ہفتے جاری رہا، آخر موصل کے سلجوقی حاکم شرف الدولہ مودود نے بنو منقذ کی مدد کی اور صلیبیوں کی رسد روک دی۔ نتیجتاً پانی اور خوراک کی کمی کی وجہ سے صلیبی محاصرہ اُٹھانے پر مجبور ہو گئے۔ ٹانکریڈ نے پسپائی کے باوجود شیزر کے نزدیک تل ابن معشر میں ایک قلعہ تعمیر کرایا تا کہ بنو منقذ کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔

قلعہ شیزر کی داخلی گزرگاہ

۱۱۱۳ء میں جب حلب کے سلجوقی امیر رضوان (دور امارت: ۱۰۹۵ء - ۱۱۱۳ء) کی وفات ہوئی تو اُس کے بیٹے اور جانشین الاخرس (دور امارت: ۱۱۱۳ء - ۱۱۱۴ء) نے باطنیوں کو چُن چُن کر شہر سے بے دخل کر دیا، حلب سے بے دخل ہونے والے اکثر باطنیوں نے شیزر کا رُخ کیا اور اس قصبہ کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ ۱۱۱۹ء میں جب حلب کے حاکم الغازی بن ارتق (دور امارت: ۱۱۰۷ء - ۱۱۲۲ء) نے انطاکیہ کی صلیبی ریاست کے خلاف جہادی مہم شروع کی تو شیزر کی فوج نے بھی اُس میں حصّہ لیا۔ ۱۱۲۳ء میں الرہا شہر کے باہر جب ارتقی حکمران نور الدولہ بیلک غازی (دور امارت: ۱۱۱۲ء - ۱۱۲۴ء) نے شاہِ یروشلم بالڈون دوم کو جنگی قیدی بنا لیا تو اُسے ایک سال تک شیزر میں قیدی بنا کر رکھا گیا۔ بالڈون کے تاوان کے طور پر اُس کی بیٹی لوویٹا کو یرغمال بنا کر بالڈون کو رہا کر دیا گیا۔ لوویٹا ۱۱۲۵ء میں اپنے تاوان کی ادائیگی تک شیزر میں ہی قید رہی۔ بنو منقذ کے چوں کہ صلیبیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے لہٰذا شاہِ یروشلم کو اجازت حاصل تھی کہ وہ جب چاہے اپنی بیٹی سے ملاقات کو آ سکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلم پڑوسی ریاستوں سے بھی اُس کے دوستانہ تعلقات استوار تھے۔ ۱۱۲۵ء میں شیزر کو موصل کے ساتھ ملحق کر دیا گیا اور بنو منقذ، موصل کے سلجوقی امیر آق سنقر کے زیر فرمان آ گئے۔ آق سنقر کے بعد جب اُس کا بیٹا عماد الدین زنگی ۱۱۲۷ء میں موصل کا حاکم ہوا تو شیزر نے اُس کی بالادستی تسلیم کی۔

۱۱۳۷ء میں بازنطینی قیصر جان دوم (دور حکومت: ۱۱۱۸ء - ۱۱۴۳ء) نے انطاکیہ پر بازنطینی عمل داری قائم کرنے کی غرض سے کوچ کیا اور انطاکیہ پہنچ کر یہاں کے صلیبی حاکم ریمنڈ (دور امارت: ۱۱۳۶ء - ۱۱۴۹ء) سے وعدہ کیا کہ اگر وہ انطاکیہ کو بازنطینی سلطنت کے اختیار میں دے ڈالے گا تو شیزر، حلب، حماہ اور حمص پر مشتمل ایک ریاست قائم کر کے اُسے سپرد کر دی جائے گی۔ اپریل ۱۱۳۸ء میں بازنطینی فوج نے شیزر کا محاصرہ کر لیا مگر ریمنڈ اور حاکم الرُّہا جوسلین دوم نے بازنطینیوں کو فوجی مدد فراہم نہ کی۔ محاصرے کو ابھی چند ہی روز گزرے تھے کہ مئی میں سلطان عماد الدین زنگی قلعہ شیزر کو صلیبی محاصرے سے نجات دلانے آ پہنچا۔ بنو منقذ نے جب خود کو دونوں فوجوں کے مابین گھرا ہوا پایا تو زنگی کی بجائے بازنطینی اقتدار کی بالادستی کو اپنی امارت کے حق میں مناسب خیال کیا اور جان دوم کو اپنا بالادست فرماں روا تسلیم کرنے کی پیش کش کر دی۔ لیکن زنگیوں اور بازنطینیوں میں سے کسی نے بھی شیزر پر اپنا اختیار نافذ کرنے کی کوئی کوشش نہ کی اور شیزر بدستورِ سابق خود مختار حیثیت کا مالک رہا۔

بنو منقذ کی امارت ۱۲ اگست ۱۱۵۷ء تک قائم رہی، آخر ایک زبردست زلزلے میں قلعہ کی عمارت زمین بوس ہو گئی اور بنو منقذ کا تمام خاندان جو کسی شاہی تقریب میں شرکت کی غرض سے قلعہ میں جمع تھا، ہلاک ہو کر تاریخ کا حصہ بن گیا۔ شاہی خاندان کے صرف دو افراد خوبیٔ قسمت سے اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے۔ ایک تو امیر تاج الملک محمد بن سلطان (دور امارت: ۱۱۵۴ء - اگست ۱۱۵۷ء) کی بیوی تھی اور دُوسرا اُس کا بھتیجا اُسامہ بن منقذ تھا جو اس زلزلے کے دوران سفارت کی غرض سے دمشق میں موجود تھا۔

شیزر کا جغرافیہ

[ترمیم]

ولیم صوری صلیبی جنگوں کے زمانہ کا ایک نام ور مؤرخ گزرا ہے، وہ ۱۱۵۷ء کے محاصرۂ شیزر کی تفصیلات کے ضمن میں اس کے جغرافیہ کے باب میں رقم طراز ہے: [5]

شیزر دریائے عاصی کے کنارے واقع ہے جو انطاکیہ سے بہتا ہے۔ بعض افراد اسے قیصریہ خیال کرتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہی کیپادوکیہ کا وہ مقام ہے جہاں سینٹ باسل اعظم کا قیام رہا تھا۔ درحقیقت اس نظریہ کے حامل افراد سخت گمراہی کا شکار ہیں۔ قیصریہ تو انطاکیہ شہر سے پندرہ یا اس سے زائد دِن کے سفر پر واقع ہے۔ یہ شہر تو کھوکھلی سوریہ کے صوبہ میں واقع ہے اور کیپادوکیہ سے ملنے والے صوبجات سے بھی الگ تھلگ ہے۔ اور (سینٹ باسل اعظم کے شہر کا) یہ نام بھی قیصریہ نہیں بلکہ قیصرہ ہے۔ شیزر اُن شہروں میں سے ایک ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ انطاکیہ کی بطریقیت کی معاونت کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ شیزر کا نچلا حصہ میدان کے ساتھ پھیلا ہوا ہے جب کہ اُوپری حصہ بلند سطح پر واقع ہے اور وہاں قلعہ بھی موجود ہے جو کافی لمبا مگر تنگ ہے۔ قلعہ مضبوط دفاعی نظام کا حامل ہے کیوں کہ اس کے قدرتی دفاع کے علاوہ دریا ایک جانب سے حائل ہے تو دُوسری جانب سے بستیاں قلعہ پر حملے میں رُکاوٹ ہیں۔ اس طرح قلعہ مکمل طور پر ناقابلِ رسائی ہے۔[6]

شہری زندگی

[ترمیم]

شہریوں کے بارے میں، ولیم صوری کا کہنا ہے:

اُنھیں ہتھیاروں کے بارے میں بہت کم علم تھا؛ اُن کی توجہ مکمل طور پر تجارت پر مرکوز تھی۔ [6]

اُن شہریوں میں سے بہت سے عیسائی تھے جنھیں ولیم اپنے مسلمان حکمرانوں کے ماتحت غلام سمجھتا تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بنو منقذ روادار حاکم تھے اور مختلف فرقوں کے عیسائی اور مسلمان دونوں وہاں امن و امان سے رہتے تھے۔ شیزر اور اسلامی دُنیا کے دیگر مقامات کے طرزِ حیات کا ایک عینی شاہد تذکرہ اُسامہ ابن منقذ کی کتاب الاعتبار میں درج ہے جس میں بارھویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے طرزِ حیات کے مختلف گوشوں کے بارے میں نہایت اہم معلومات کا بیان ہے۔ بنو منقذ کے اُمراء ادب پرور اور شکار کے شوقین تھے، اور اپنے مسلم اور عیسائی پڑوسی حکمرانوں کے ساتھ صلح و جنگ کے معاملات میں بھی شریک رہا کرتے تھے۔

امرائے بنی منقذ کی فہرست

[ترمیم]

شیزر پر ۱۰۵۹ء سے ۱۱۵۷ء تک بنو منقذ کی حکومت قائم رہی تھی، اس امارت کے امراء کی فہرست ذیل میں دی جا رہی ہے:

شمار نام یا لقب دور امارت سابق حکمران سے رشتہ
۱ مخلص الدولہ ۱۰۲۵ء - ۱۰۵۹ء منقذ کا پوتا
۲ سلطان بن علی ۱۰۵۹ء - ۱۰۸۱ء مخلص الدولہ کا پوتا
۳ سدید الملک ۱۰۸۱ء - ۱۰۸۲ء مخلص الدولہ کا بیٹا
۴ عز الدولہ ۱۰۸۲ء - ۱۰۹۸ء سدید الملک کابیٹا
۵ مجد الدین ۱۰۹۸ء - ۱۱۳۷ء عز الدولہ کا بھائی
۶ عز الدین ۱۱۳۷ء - ۱۱۵۴ء مجد الدولہ کا بھتیجا
۷ تاج الملک ۱۱۵۴ء - ۱۱۵۷ء عز الدین کا بیٹا

باطنی، زنگی، مملوک ادوار

[ترمیم]

بنو منقذ کے خاتمہ اور شیزر کی زلزلہ میں تباہی کے بعد اس کے کھنڈرات پر باطنیوں نے قبضہ کر لیا اور یہاں اپنا اڈّہ بنا لیا مگر ۱۱۵۸ء میں وہ صلیبیوں سے شکست کھا گئے، صلیبیوں کو باہمی تنازعات کے باعث محاصرہ ترک کر کے واپس جانا پڑا۔ نور الدین زنگی نے شیزر کو اپنی سلطنت میں شامل کیا اور اس کی تعمیر نو پر توجہ دی۔ ۱۱۷۰ء میں پھر ایک زلزلہ آیا اور شیزر دوبارہ کھنڈرات میں بدل گیا، ۱۱۷۴ء میں یہاں صلاح الدین ایوبی کا اقتدار قائم ہو گیا۔ ایوبی دور میں شیزر کی دوبارہ تعمیر نو ہوئی۔ ۱۲۴۱ء میں خوارزمیوں کے ہاتھوں شیزر کو پھر تباہی کا منہ دیکھنا نصیب ہوا۔ مصر کے مملوک سلطان بیبرس نے ۱۲۶۰ء میں شیزر کا قبضہ پایا تو اس کی تعمیر نو پر توجہ دی۔

موجودہ دور میں

[ترمیم]

شیزر کے تاریخی قلعہ کو ۱۹۵۸ء میں قومی یادگار قرار دیا گیا اور اسے کسی قسم کے نقصان سے بچانے کے لیے قلعہ کے آخری رہائشیوں کو بے دخل کر کے حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔ یہ مقام آج کل قلعہ شیزر کے نام سے جانا جاتا ہے جب کہ شہر کے لیے شیزر کا نام مستعمل ہے۔[7]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. آبادی اور مکانات کی عمومی مردم شماری ۲۰۰۴ء، شام کا مرکزی ادارہ شماریات، محافظہ حماہ، حکومت شام
  2. ^ ا ب پ "Come to Syria | Shaiza | Best hotels in Syria | Syria Travel Tips | - Come To Syria"۔ www.cometosyria.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولا‎ئی 2024 
  3. Getzel M. Cohen (2006-10-03)۔ The Hellenistic Settlements in Syria, the Red Sea Basin, and North Africa (بزبان انگریزی)۔ University of California Press۔ صفحہ: 117۔ ISBN 978-0-520-93102-2 
  4. صلیبی جنگوں کی تاریخ، جلد اوّل: پہلے سو سال، ابواب: بالڈون سوم اور ایمالرک اوّل کے دور میں لاطینی ریاستیں (۱۱۴۳ء - ۱۱۷۴ء)؛ یروشلم کا زوال اور سقوط (۱۱۷۴ء - ۱۱۸۹ء)، مصنف: مارشل ڈبلیو بالڈون، صفحات: ۵۲۸ - ۵۶۱؛ ۵۹۰ - ۶۲۱، ناشر: یونی ورسٹی آف وسکونسن پریس، مقام اشاعت: میڈیسون، ملواکی اور لندن، دوسرا ایڈیشن، سالِ اشاعت: ۱۹۶۹ء
  5. ^ ا ب A History of Deeds Done Beyond the Sea، مصنف: ولیم آف ٹائر، مترجمین: ای اے بابکاک - اے سی کری، صفحات ۲۶۶ - ۲۶۷، ناشر: کولمبیا یونی ورسٹی پریس، سالِ اشاعت: ۱۹۴۳ء
  6. شیزر آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ brill.com (Error: unknown archive URL)، کرسٹینا ٹونگینی، صفحات ۱ تا ۴۰،برل پبلی کیشنز، ۲۰۲۰ء