صابر براری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
صابر براری
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: احمد مرزا قادری ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 30 اکتوبر 1928ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اچلپور ،  امراوتی ضلع ،  برار ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 مئی 2006ء (78 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد بی ایڈ   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

صابر براری (پیدائش: 30 اکتوبر 1928ء - 5 مئی 2006ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر تھے۔ انھوں نے نعت، سلام، منقبت، رباعی اور غزل کی اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی۔

حالات زندگی[ترمیم]

صابر براری 30 اکتوبر 1928ء میں ایلچ پور (موجودہ اچلپورامراوتی ضلع، برار ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام احمد مرزا قادری تھا مگر صابر براری کے قلمی نام سے شہرت پائی۔ والد کا نام مولوی حمید مرزا تھا۔ جل گاؤں، کھام گاؤں اور امراؤتی کی درس گاہوں سے تعلیم حاصل کی۔ حیدرآباد دکن سے عالم اردو کی سند حاصل کی۔ جامعہ کراچی سے بی اے اور جامعہ ملیہ کالج کراچی سے بی ایڈ کیا۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ مولانا ضیاء القادری بدایونی اور عارف اکبر آبادی کے تلمیذ رہے۔انھوں نے نعت اور تاریخ گوئی میں شہرت پائی۔ صابر کی کتابوں میںہدیہ صلواة و السلام (مجموعہ نعت، 1957ء)، فردوسِ عقیدت (مجموعہ نعت، 1957ء)، آمنہ کا لال (مجموعہ نعت، 1961ء)، بہشتِ مناقب (مناقب، 1963ء)، انوارِ پنجتن (مجموعہ سلام، 1970ء)، جامِ طور (مجموعہ نعت، 1978ء) ،تاریخِ رفتگان (جلد اول 1986ء، دوم 1998ء، سوم 2000ء) اور کتابوں پر تاریخی قطعات (2004ء) شائع ہو چکی ہیں۔ نعت، مناقب، قطعات اور سلام کے علاوہ انھوں نے غزلیں بھی کہیں۔ ان کا غزلوں کا مجموعہ چشمِ شوق کے نام سے شائع ہوا۔صابر براری 5 مئی 2006ء کو کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ وہ کورنگی نمبر 1 کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔[1][2]

نمونۂ کلام[ترمیم]

نعت

نہ تھے ارض و سما پہلے نہ تھے شمس و قمر پہلےخدا کے بعد تھا نورِ شہِ جن و بشر پہلے
نبی جتنے بھی آئے حضرت آدم سے عیسیٰ تکسبھی نے دی شہِ بطحا کے آنے کی خبر پہلے
کف بوجہل میں کس نے گواہی دی رسالت کیکبھی گویا ہوئے تھے اس طرح سے یہ حجر پہلے
وہ تارا بار ہا روح الامیں نے جس کو دیکھا تھاوہ تھا روئے مبارک میں فلک پر جلوہ گر پہلے
خدا نے شرط یہ رکھ دی دعا مقبول ہونے کیدرودِ پاک کا تحفہ میرے محبوب پر پہلے
یہی اک راہِ روشن ہے خدا کو ڈھونڈنے والےمنور کر نبی کے عشق سے قلب و نظر پہلے
یقیناً موت کا اک دن معین ہے مگر یا ربمیسر ہو مجھے مکے مدینے کا سفر پہلے
مچے گا شور محشر میں، ہو رحمت کی نظر مولااِدھر پہلے اِدھر پہلے اِدھر پہلے اِدھر پہلے
ملی ہے نعت گوئی کے سبب شہرت یہ صابر کووگرنہ مانتے کب تھے اسے اہل ہنر پہلے

نعت

خدا نے مغفرت کی شرط کیا راحت فزا رکھ دیدِلائے مصطفیٰ رکھ دی رضائے مصطفیٰ رکھ دی
رضا پہ ان کی رب نے منحصر اپنی رضا رکھ دیانہی کے عشق پہ موقوف ایماں کی بقا رکھ دی
کیا پہلے تو اپنے نور سے نور نبی پیداپھر اس نور مقدس سے دو عالم کی بنا رکھ دی
کوئی جانے تو کیا جانے کوئی سمجھے تو کیا سمجھےحقیقت آپ کی حدِ خرد سے ماوریٰ رکھ دی
درودِ پاک ہو وردِ زباں جس کے اسے کیا غمخدا نے ہر مرض کے واسطے اس میں شفا رکھ دی
مخدا کا شکر جتنا بھی ادا ہو کم ہے اے صابرکہ مجھ عاصی کے لب پہ مدحتِ شاہِ ہدیٰ رکھ دی

حوالہ جات[ترمیم]

  1. منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 580
  2. ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات نعت گویان پاکستان، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2015ء، ص 65