صارف:AbdurRahman299/تختہ مشق/فریدالدین قادری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ڈاکٹر فرید الدین قادری

معلومات شخصیت
اصل نام فرید الدین قادری
پیدائش 1918
جھنگ، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند)
وفات 2 نومبر 1974(1974-11-02)
جھنگ، پنجاب، پاکستان
قومیت ہندوستانی (1918-1947) پاکستانی (1947-1974)
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت والجماعت
فقہی مسلک حنفی
اولاد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، محمد جاوید، محمد طارق
والد میاں خدا بخش
پیشہ طب، اسلامی صوفی عالم دین

ڈاکٹر فرید الدین قادری تحریکِ پاکستان کے فعال کارکن، ماہر طبیب اور معروف صوفی عالم دین تھے، جنہیں جدوجہد آزادی کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دینے پر تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے 3 فروری 2022ء کو صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے ہاتھ سے گولڈ میڈل سے نوازا گیا، جو ان کے پوتے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے وصول کیا۔ [1] [2] [3] [4]

خاندانی پس منظر[ترمیم]

فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری 1918ء میں جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد جھنگ کے ماہنی سیال خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جو تحصیل جھنگ کے چنیوٹ روڈ پر واقع قدیم گاؤں کھیوہ میں مقیم تھے۔ آپ کے والد کا نام میاں خدا بخش ہے۔ آپ کے تین بیٹے ہیں، جن کے نام بالترتیب محمد طاہر، محمد جاوید اور محمد طارق ہیں۔ بڑے بیٹے محمد طاہر بعدازاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے مشہور ہوئے۔[5]

تعلیم[ترمیم]

فرنگی محل، لکھنؤ

اسلامیہ ہائی سکول جھنگ سے مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں درس نظامی کی ابتدائی کتب صرف، نحو اور منطق وغیرہ مولانا غلام فرید سے پڑھیں۔ میٹرک سیالکوٹ سے کیا اور اسی دوران میں علامہ محمد یوسف سیالکوٹی سے درس نظامی کی مزید تعلیم حاصل کی، جو اپنے دور میں مفتی اعظم کے لقب سے معروف تھے۔ میٹرک کے بعد اعلی تعلیم کیلئے فرنگی محل لکھنؤ چلے گئے، جہاں مولانا عبدالحی فرنگی محلی سے درس نظامی کے اعلیٰ علوم حاصل کئے۔ حصول علم کیلئے مجموعی طور پر لکھنؤ میں 12 سال قیام کیا۔ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جوائنٹ طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا اور شفاء الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی سے طبی علوم کی سند بھی حاصل کی۔ نیز لکھنؤ میں قیام کے دوران کنگ جارج میڈیکل کالج سے میڈیسن کی تعلیم بھی حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں ڈاکٹر عبدالعزیز لکھنوی (ایم۔ آر۔ ایس لندن)، مولانا حکیم محمد ہادی رضا لکھنوی، مولانا حکیم محمد حسین رضا لکھنوی اور بیسویں صدی کے ماہر نباض حکیم عبدالوہاب نابینا انصاری شامل ہیں۔ [6] [7]

بیعت[ترمیم]

انہوں نے بغداد کے نقیب الاشراف حضرت ابراہیم سیف الدین گیلانی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ [8]

اساتذہ و شیوخ[ترمیم]

انہوں نے علم الحدیث، علم التفسیر، علم الفقہ، علم التصوف والمعرفۃ، علم اللغۃ والأدب، علم النحو والبلاغۃ اور دیگر کئی اِسلامی علوم و فنون اور منقولات و معقولات کا درس اور اَسانید و اِجازات جن شیوخ اور علماء سے حاصل کیں بلاد و اماکن کے اعتبار سے ان کا تذکرہ یوں ہے۔

شیوخِ حرمین (مکہ و مدینہ)[ترمیم]

  1. امام عمر بن حمدان المحرسیؒ
  2. امام محمد بن علی بن ظاہر الْوَتْرِیؒ
  3. امام احمد بن اسماعیل البرزنجیؒ
  4. امام احمد شریف بن محمد السنوسیؒ
  5. امام احمد بن زینی الدحلانؒ
  6. الشیخہ اَمۃ اللہ بنت الامام عبد الغنی المحدّث الدھلوی المدنیؒ

انہوں نے حرمین شریفین کے مذکورہ بالا ائمہ و محدثین کی اسانید حدیث اور اجازاتِ علوم شرعیہ درج ذیل شیوخ کے واسطہ سے حاصل کی ہیں، اور انہی سے براہ راست اخذ علم حدیث اور سماع و روایت حدیث کا شرف پایا ہے:

  1. محدّث الحرم الشیخ علوی بن عباس المالکی المکیؒ
  2. الشیخ المعمّر حضرت ضیاء الدین احمد القادری المدنیؒ

شیوخِ بغداد[ترمیم]

ان کی اجازتِ حدیث کا سلسلہ بغداد کے درج ذیل شیوخ و اساتذہ تک پہنچتا ہے:

  1. امام المحدثین الشیخ الامام السید عبد الرحمن بن علی النقیب البغدادی
  2. امام عبد السلام المحدث الآفندی البغدادی
  3. امام عبد الرزاق البزاز المحدث البغدادی (آپ صاحبِ تفسیر روح المعانی امام شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی کے شاگرد ہیں۔)

اِن شیوخ بغداد کی اسانید و اجازات حضرت فرید ملت نے مندرجہ ذیل شیوخ و اساتذہ کی وساطت سے حاصل کی ہیں:

  1. الشیخ السید علوی بن عباس المالکی المکی
  2. الشیخ السید عبد المعبود الجیلانی المدنی

شیوخِ شام[ترمیم]

انہیں ملک شام کے درج ذیل ائمہ و شیوخ سے اسانید اور اجازاتِ حدیث حاصل ہوئی ہیں:

  1. محدث الشام امام محمد بن جعفر الکتانی
  2. محدث الشام امام محمد بدر الدین بن یوسف الحسنی
  3. محدث الشام امام عبد الحی بن عبد الکبیر الکتانی
  4. امام ابو المکارم محمد امین السوید الدمشقی رحمھم اﷲ

آپ نے مذکورہ بالا شیوخ کی اسانیدِ علم اور اجازاتِ حدیث دمشق کے الشیخ السید محمد الفاتح بن محمد المکی الکتانی جیسے مسلمہ محدث کے واسطے سے حاصل کی ہیں۔

شیوخِ لبنان و طرابلس[ترمیم]

انہیں الشیخ السید محمد الفاتح بن محمد المکی الکتانی (دمشق) کے واسطے سے لبنان اور طرابلس کے درج ذیل شیوخ و اساتذہ سے اسانید و اجازاتِ حدیث ملی ہیں:

  1. امام یوسف بن اسماعیل النبہانی
  2. امام عبد القادر الشلبی الطرابلسی
  3. امام حسن عویدان الفیتوری الطرابلسی

شیوخِ مغرب و شنقیط[ترمیم]

فرید ملت کو مغرب (مراکش) اور شنقیط (موریطانیہ) کے درج ذیل شیوخِ حدیث سے اجازات و اسانیدِ علم و حدیث ملی ہیں:

  1. امام ابو عبد اﷲ محمد بن مصطفی ماء العینین الشنقیطیؒ
  2. امام محمد حبیب اﷲ الشنقیطیؒ
  3. امام محمد العربی بن محمد العزوزی الفاسیؒ
  4. امام عبداﷲ بن صدیق الغماری المغربی ؒ

ان شیوخ کی اسانید آپ کو درج ذیل اساتذہ و شیوخ کے واسطہ سے حاصل ہوئی ہیں:

  1. الشیخ السید علوی بن عباس المالکی المکی
  2. الشیخ السید محمد الفاتح بن محمد المکی الکتانی

شیوخِ پاک وہند[ترمیم]

حضرت فرید ملت کو ہندوستان اور پاکستان کے درج ذیل شیوخ و اساتذہ کی اسانیدِ علم اور اجازاتِ حدیث ملی ہیں:

  1. امام الہند الشاہ احمد رضا خان المحدث بریلوی
  2. امام ابو الحسنات عبدالحئی بن عبدالحلیم محدث الانصاری لکھنوی
  3. محدث الہند مولانا ارشاد حسین رام پوری
  4. الشاہ حاجی امداد اللہ مہاجر المکی
  5. محقق الہند امام فضل حق خیر آبادی
  6. الشیخ السید دیدار علی شاہ محدث الوری
  7. محدث الہند علامہ محمد انور شاہ کشمیری (صاحبِ فیض الباری)
  8. محدث الہند علامہ احمد علی سہارن پوری
  9. الشیخ عبد الشکور المحدث المہاجر المدنی
  10. الشیخ محمد بدر عالم میرٹھی

حضرت فرید ملت کو مذکورہ بالا مشاہیر سے اسانید و اجازات درج ذیل اساتذہ کے واسطوں سے حاصل ہوئی ہیں:

  1. الشیخ ضیاء الدین احمد المہاجر المدنی
  2. الشیخ السید عبد المعبود الجیلانی المدنی (انہوں نے 165 سال کی طویل عمر پائی اور یہ براہِ راست شاہ امداد اللہ مہاجر مکی کے شاگرد تھے۔)
  3. امام عبد الباقی بن علی محمد الانصاری لکھنوی المدنی
  4. الشیخ عبد الہادی بن علی الانصاری المحدث لکھنوی
  5. محدثِ اعظم علامہ سردار احمد قادری
  6. الشیخ السید ابو البرکات احمد محدث الوری [9] [10]

سفر[ترمیم]

آپ نے حصول علم و معرفت کے لئے جھنگ سے سیالکوٹ، لکھنؤ اور حیدرآباد، دکن کے علاوہ بیرون ملک ایران، عراق، ترکی، شام اور حرمین شریفین کے سفر بھی کئے۔ انہوں نے ایک سفرنامہ بھی تحریر کیا، جس میں ایران، عراق، ترکی اور شام کے سفر کی روداد بیان کی ہے۔ [11]

سعودی عرب میں بطور شاہی طبیب تقرری[ترمیم]

1963ء کے سفرِ حرمین شریفین کے دوران میں حج کے دنوں میں آپ کو شاہی خاندان کے ایک لاعلاج مریض کے علاج کا موقع بھی ملا۔ اس کے اعزاز میں انہیں شاہی پاسپورٹ جاری کیا گیا کہ جب چاہیں بلا ویزہ سعودی عرب آ جا سکیں۔

شاعری[ترمیم]

ایک ماہر نباض ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک صاحب دیوان شاعر بھی تھے۔ شاعری میں آپ امیر مینائی کے بھتیجے شکیل مینائی سے اصلاح لیتے تھے۔ لکھنؤ میں قیام کے دوران مشاعروں میں حصہ لیتے رہے۔ ان کے کلام کا بیشتر حصہ زمانے کی دستبرد کی نذر ہوگیا۔ نمونے کے طور چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

السلام اے مطلعِ صبحِ ازل السلام اے جانِ ہر نثر و غزل
السلام اے قلزمِ جود و سخا السلام اے مصدرِ حمد و ثناء
میرے سینے میں تری ہی یاد ہو میری دنیا میں تو ہی آباد ہو
میرا ہر موئے بدن اِک ساز ہو یارسول اللہ کی آواز ہو
نفس امارہ کہے انی سقیم منہ کے بل گر جائے شیطان الرجیم

[12]

مجھے تو اب کوئی آ کے پہلے سکونِ قلب و جگر بتا دے کہ سازِ ہستی کی کشمکش تو رہے گی پیچھے بہ تا قیامت

تحریک پاکستان میں عملی کردار[ترمیم]

ڈاکٹر فرید الدین قادری نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں قیام پاکستان کی تاریخ ساز جدوجہد میں حصہ لیا۔ زمانہ طالب علمی میں تحریک پاکستان کے لیے کام کرتے رہے اور طلباء تنظیموں میں بھی بھرپور حصہ لیتے۔ آپ نے حیدرآباد دکن اور لکھنو میں قیام کے دوران میں تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کی آزادی کے لیے کی جانے والی کاوشوں میں عملی طور پر مؤثر کردار ادا کیا۔

حکیم الامت علامہ اقبالؒ سے ملاقاتیں[ترمیم]

دورانِ تعلیم لکھنؤ سے حکیم الامت علامہ محمد اقبال سے ملاقات کے لیے لاہور آئے اور ان سے ملاقات کی۔ 1937ء میں جب حکیم الامت شدید علیل تھے اور ملاقاتوں کا سلسلہ مسدود ہوچکا تھا، ایسے موقع پر انہیں جب ڈاکٹر فرید الدین قادری کی آمد کا بتایا گیا تو آپ نے علالت کے باوجود ان سے ملاقات کی اور یہ ملاقات ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی۔ [13]

جلسہ قرارداد پاکستان[ترمیم]

انہوں نے 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز جلسہ میں شرکت کی۔ آپ کے ایک دیرینہ دوست ڈاکٹر اِحسان صابری قریشی بھی ساتھ تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں: ’’آل انڈیا مسلم لیگ کے 23 مارچ 1940ء کے تاریخی اجلاس کے لئے ڈاکٹر فرید الدین قادری مجھے لاہور سے لینے آئے۔ 23 مارچ کے اجلاس میں ہمیں تیسری قطار میں جگہ ملی۔ ہم’’مسلم لیگ زندہ باد‘‘ اور ’’قائد اعظم زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے۔ قائد اعظم، مولوی ابوالقاسم، فضل الحق، خلیق الزماں اور نواب زادہ لیاقت علی خان ہمیں شاباش دیتے رہے۔‘‘ [14]

اِنتخابات میں عملی کردار[ترمیم]

ڈاکٹر فرید الدین قادری نے 1945ء / 1946ء میں ہونے والے انتخابات میں جھنگ کی سیاست میں عملی اور کلیدی کردار ادا کیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کرنل عابد حسین کے ساتھ مل کر بہت کام کیا تھا۔ آپ ان رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے ان تاریخی انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کی فتح کو یقینی بنانے کے لیے ان تھک جدوجہد کی۔

تقسیمِ ہند کے دوران مہاجرین کے لیے خدمات[ترمیم]

آزادیِ پاکستان کے وقت جب بہت پڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی اور کثیر تعداد میں مہاجرین بھارتی علاقوں سے پاکستانی علاقوں میں آئے تو آپ نے دوسرے مسلمان رضا کاروں کے ساتھ مل کر مسلمان مہاجرین کی بہت مدد کی۔ آپ اُن طبی پیشہ وروں میں شامل تھے جو مستعدی سے مہاجرین کو طبی اِمداد مہیا فرماتے اور شب و روز ان کے علاج معالجہ میں مصروف رہتے تھے۔

طلائی تمغہ[ترمیم]

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری صدر پاکستان سے اپنے دادا ڈاکٹر فرید الدین قادری کا طلائی تمغہ وصول کرتے ہوئے۔ (3 فروری 2022ء)

تحریک پاکستان کے دوران جدوجہد آزادی کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دینے پر تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے انہیں گولڈ میڈل اور تعریفی سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا۔ یہ گولڈ میڈل ان کی وفات کے 48 سال بعد 3 فروری 2022ء کو صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے ہاتھ سے ڈاکٹر فرید الدین قادری کے پوتے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے وصول کیا۔[15] [16] [17] [18] تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس پلیٹ فارم سے پاکستان کی تشکیل کیلئے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں جدوجہد کرنے والے ہیروں کو تلاش کر کے انہیں عزت سے نوازا جاتا ہے۔ [19]

فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ[ترمیم]

تحریک منہاج القرآن کے مرکز پہ واقع فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہزاروں نایاب دینی کتب کا مجموعہ ہے، اس کا آغاز ڈاکٹر فرید الدین قادری کی ذاتی لائبریی سے ہوا تھا۔ وہاں آج بھی ایک گوشہ مکتبۂ فریدیہ کے نام سے موجود ہے، جہاں ان کی ذاتی کتب دیکھی جا سکتی ہیں۔ [20]

آخری ایام[ترمیم]

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنے والد کی زندگی کے آخری ایام کا تذکرہ یوں کرتے ہیں:

میرے والد ڈاکٹر فرید الدین قادری مولانا روم سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور خصوصاً اپنی زندگی کے آخری سالوں میں وہ مثنوی کو بہت ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا روم کے مقبرے کی ساخت، خوبصورتی اور سکون نے ہمیشہ مجھے متوجہ کیا ہے۔ میں اس کے ساتھ ایک مسحور کن روحانی وابستگی محسوس کرتا ہوں۔ [21]

وفات[ترمیم]

فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری کا مزار

انہوں نے 2 نومبر 1974ء بمطابق 16 شوال 1395ھ بروز ہفتہ 56 سال کی عمر میں جھنگ میں وفات پائی۔ ان کا مزار جھنگ کے مرکزی قبرستان میں واقع ہے، جہاں ہر سال ان کا عرس بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ [22]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "روزنامہ دنیا، 4 فروری 2022ء" 
  2. "متعدد اخباری تراشے" 
  3. "ویب سائٹ منہاج القرآن انٹرنیشنل" 
  4. "ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ تحریک پاکستان کا ایک عظیم نام" 
  5. "فرید ملت حضرت فرید الدین قادری کے آباؤ و اجداد اور مختصر سوانح" 
  6. "ڈاکٹر فرید الدین قادری فن طب کے عظیم محقق" 
  7. "فرید ملت کی تعلیم (جھنگ، سیالکوٹ، لکھنؤ)" 
  8. "تذکرہ فرید ملت: خانوادہ غوث الثقلین کے ساتھ نسبت و تعلق" 
  9. "ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کا علمی مقام" 
  10. "حضرت فرید ملتؒ کی اجازات و اسانید" 
  11. "سفرنامہ فرید ملتؒ" 
  12. "فرید ملتؒ کا شعری ذوق" 
  13. "ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ تحریک پاکستان کا ایک عظیم نام" 
  14. "ڈاکٹر احسان صابری قریشی کے ایمان افروز انکشافات" 
  15. "روزنامہ دنیا، 4 فروری 2022ء" 
  16. "متعدد اخباری تراشے" 
  17. "ویب سائٹ منہاج القرآن انٹرنیشنل" 
  18. "ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ تحریک پاکستان کا ایک عظیم نام" 
  19. "نظریہ پاکستان ٹرسٹ: کارکنانِ تحریک پاکستان کو طلائی تمغات بدست صدر پاکستان" 
  20. "فرید ملتؒ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ" 
  21. "فرید ملتؒ کے آخری ایام" 
  22. "حضرت فرید ملتؒ کا سفر آخرت" 

زمرہ:سلسلہ قادریہ زمرہ:پاکستانی صوفیا زمرہ:سلاسل تصوف زمرہ:ضلع جھنگ کی شخصیات زمرہ:1974ء کی وفیات زمرہ:1918ء کی پیدائشیں زمرہ:فرنگی محل زمرہ:مسلم فلاسفہ زمرہ:مسلم مصنفین زمرہ:مسلمان مصلحین زمرہ:مسلم طبیب و حکما‏ زمرہ:منہاج القرآن