صارف:Mahmood mandhrani/ہم مسلم چپ کیوں ہیں؟

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

آج دنیا کی مظلوم قوم مسلم قوم ہے۔وہ قوم جو وقت میں طاقتور قوم ہوا کرتی تھی۔وہ قوم جو کسی بھی طاقت کے غرور کو خاک میں مٹانے کی طاقت رکھتی تھی۔آج جس دور سے مسلم قوم گزر رہی ہے اس کے ذمے دار بھی ہم مسلمان ہیں۔کشمیر،فلسطين،برما،شام اور افغانستان کی حالت سب کے سامنے ہے۔پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ مظلوم ہیں لیکن ہم مسلمان چپ کیوں ہیں؟ ہم صرف اتنا کہہ دیتے ہیں ہمیں افسوس ہے۔افسوس تو مجھے افسوس کہنے والوں پر ہے۔وہ کون سی قوم ہے جو مسلم قوم کو نقصان نہیں پہنچا رہی۔مسلم قوم کے خلاف سب اتحاد میں ہیں یہودی عیسائی ہندو بدھ مت سب ایک ہو چکے ہیں کیا ہم ایک نہیں ہو سکتے؟کیا ہم اس حدیث کو نہیں مانتے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔جب مانتے ہیں تو اپنے بھائیوں کی مدد کیوں نہیں کرتے؟اپنی بہنوں کی عزت کی حفاظت کیوں نہیں کرتے؟ اس لحاظ سے کفار ہم سے بہتر ہیں مسلمانوں پر ظلم کرنے پر سب اتحاد میں ہیں۔ کشمیر پر ہندو ظلم کر رہے ہیں۔برما میں بدھ مت فلسطین پر یہودی اور افغانستان پر عیسائی ظلم کر رہے ہیں۔اور ہم مسلم قوم اپنے آپ پر یہ مت سمجھو کہ ظلم وہاں ہو رہے ہیں اور ہمیں افسوس ہے۔کل آپ پر ہوسکتا ہے۔اگر ان کو نہیں روکا گیا تو کل ہماری حالت بھی فلسطین اور کشمیر جیسی ہو سکتی ہے۔ مجھے ان شیروں پر فخر ہے جو اپنے حق کے لیے اپنی جانوں کا نزرانا پیش کرتے ہیں۔ابھی بھی وقت ہے اتحاد میں آکر دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔ہم اس قوم سے ہیں جو اپنے دشمن سے کئی گناہ کم ہو کر شکست دیا کرتے تھی۔ہم بھول گئے ہیں کہ ہم خالد بن ولید عمر فاروق ابوبکر صدیق علی حیدر کی قوم سے ہیں جو اللہ کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکتے تھے۔یہیں نہیں اور بھی شیر پیدا ہوئے اسی قوم سے جنہوں نے دشمن کو دیکھایا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔طارق بن زیاد جس نے اپنے دشمن کی تعداد کو بھی دیکھا پھر بھی کشتیاں جلادیں۔اور فاتح رہا۔محمد بن قاسم جو اپنی قوم کی بیٹی پر ظلم کرنے والے سے بدلہ لینے کے لیے ستراہ سال کی کم عمر کے باوجود دیکھا دیا کہ ہم مسلم ہیں۔آج ہم تو غور ہی نہیں کرتے ان جوانوں کی طرف۔ٹیپو سلطان اس ہستی کا نام ہے جس کی لاش بھی دشمن پر ہیبت ڈالے ہوئے تھی کفار تین دن تک ڈر کی وجہ سے آپ کی لاش کے قریب بھی نہیں گئے تھے۔کہاں گئی وہ مائیں جو ایسے جوان پیدا کرتی تھیں۔کہاں گئی وہ غیرت جو اپنی قوم کی بیٹی کے ظلم کا بدلہ لینے ستراہ سال کا شیر کھڑا ہوا تھا اور دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔کہاں گئے ایسے شیر جن کے قدموں کی آواز سے دشمن ڈرا کرتے تھے۔محمود غزنوی اور صلاح الدین بھی ہماری قوم کے شیر تھے جو زندگی میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے تھے۔ اٹھو ابھی بھی وقت ہے ایک دوسرے کا ساتھ دو وہ بھی وقت تھا جب کسی مسلمان پر برےصغیر میں ظلم ہو تا تھا اور آنکھوں سے پانی عرب میں بہتا تھا۔بدلے کی آگ لے کر لشکر عرب سے نکلا کرتے تھے۔وہ بھی کہہ سکتے تھے ہمیں افسوس ہے۔لیکن نہیں وہ ایمان جو ان کے اندر تھا انہیں جہاد کا جزبہ دیتا تھا۔ان کی مائیں غازی سے زیادہ شھید دیکھنا پسند کرتی تھیں۔ میں بار بار کہہ رہا ہوں اتحاد میں آجاؤ اپنے حق کے لیے لڑتے فلسطینیوں کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھاؤ تاکہ وہ اپنے آپ کو اکیلا نا سمجھیں۔مسلمانوں پر ظلم ہو رہے ہیں اور ہم چپ ہیں دشمن ہمیں للکار رہا ہے اور ہم سر جھکائے کھڑے ہیں۔کچھ تو غیرت کرو ۔آپ کی بہنوں کی عزت کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے اور ہم ہنس رہے ہیں لعنت ہے ہم پر۔اور ہماری اس سوچ پر ہم کیا کر سکتے ہیں۔یہ بتاؤ ہم کیا نہیں کر سکتے۔انسان کچھ بھی کر سکتا ہے آگر کرنے کی لگن سچی ہو تو۔اس موضع کا اختتام اس دعا سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہماری مظلوم قوم کی مدد کرے اور ہمیں جہاد کا جزبہ عطا کرے۔اٰمین