صارف:Saeedi Engr Hamza

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حقیقت محمدیہﷺ(وحدت الوجود)

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا o وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًاo

صَدَقَ اللّٰہُ مَوْلَانَا الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَبَلَّغَنَا رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ وَنَحْنُ عَلٰی ذَالِکَ لَمِنَ الشَّاہِدِیْنَ وَ الشَّاکِرِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْ عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مَحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ عَلَیْہِ

حمد و صلوٰۃ کے بعد سب سے پہلے حضرت حافظ سراج احمد صاحب کے لئے دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں ہمت و تندرستی عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ آپ کے کل عاطفت کو دراز فرمائے۔ یہ ساری محفلیں، یہ ساری رونقیں، یہ ساری برکتیں حافظ صاحب کے در قدم سے وابستہ ہیں اور یہ مدرسہ سراج العلوم (خانپور) بھی حافظ صاحب کا فیض ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مدرسہ کو مزید ترقی عطا فرمائے اور مولانا مختار احمد صاحب اور حضرت قبلہ مولانا عبد الواحد صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو اور ہمارے سارے علماء اہلسُنَّت کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔

میرے پیارے دوستو اور عزیزو آپ بھی دِل کی گہرائیوں سے دُعا کریں اور میں بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرنیاز جھکا کر یہ دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری ان دُعاؤں کو قبول فرمائے اور تمام حاضرین کے لئے، تمام مخلصین اور اہل صحبت کے لئے اور اہلسنّت کے لئے میں سر نیاز جھکا کر دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کی حفاظت فرمائے اور ان کے جو مقاصد ہیں جائز اور نیک، اے اللہ! تو اپنے فضل و کرم سے پورے فرما دے۔

محترم حضرات!

تقریر سے پہلے آپ حضرات پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ زِندگی کا بھروسہ نہیں ہے اور آج اس فتنے کے دور میں حق باطل نظر آتا ہے اور باطل حق نظر آتا ہے۔ اِن شاء اللہ، میں کوشش کروں گا کہ حق کو حق کر کے دکھاؤں اور باطل کو باطل۔ مجھے نہیں معلوم کہ زِندگی وفا کرتی ہے یا نہیں۔ اپنی طرف سے یہ فرض ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ میں نے ساری زندگی یہی کیا ہے لیکن یہ میری گفتگو اور میری یہ تقریر ساری کارکردگی کا خلاصہ ہو گی۔

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مَحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ عَلَیْہِ

کلمہ طیبہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کے کیا معنی ہیں؟

’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘

یہ کلمہ طیبہ دین کی بنیاد ہے۔ یہ کلمۃ التوحید ہے۔ یہ کلمہ وہ اصل جوہر ہے کہ اگر یہ کلمہ ہم میں ہے تو ہم ہیں۔ اگر یہ کلمہ ہم میں نہیں تو ہم نہیں ہیں۔ گویا ہم ہلاک ہو گئے۔

مجھے کہنا یہ ہے کہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کیا معنی ہوئے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، کوئی پوجا کے لائق نہیں، کیا مطلب؟ کہ اللہ کی ذات مقدسہ وحدت کی صفت سے اور عدم شرکت کی صفت سے متصف ہے۔ اور اس کی صفات میں کوئی شخص شریک ہے۔ کیا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اللہ کی ذات میں تو شریک کوئی نہیں لیکن اس کی صفات میں شریک ہو۔ کیا یہ مطلب اس کا ہو سکتا ہے؟ نہیں ہو سکتا۔ ’’لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کا مطلب ہی یہ ہے، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اگر کوئی اس کی ذات میں شریک ہو تب بھی ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کی نفی ہو گی اور اگر کوئی اس کی صفات میں شریک ہو تب بھی ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کی نفی ہو گی۔

الحمد للّٰہ ہم مؤمن ہیں، ہم موحد ہیں، ہمارا ایمان ہے ’’لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، نہ اُس کی ذات میں کوئی شریک ہے اور نہ اس کی صفات میں کوئی شریک ہے۔ یہ آپ کے سامنے حق بیان کیا۔ اب میں عرض کروں آپ سے کہ خدا کی صفات میں پہلی صفت کیا ہے؟ ایک تو ہے اللہ کی ذات! اور ذات کا تعلق اور تصور وجود صفت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم ذات کو صفت کے سہارے کے بغیر اپنے تصور میں لا ہی نہیں سکتے۔ صفت کے سہارے سے ذات، ہمارے تصور میں آئے گی اور پھر ہم کوئی حکم لگائیں گے کہ اس کا کوئی شریک ہے یا نہیں۔ جب تک ذات کا تصور نہ ہو، حکم لگ نہیں سکتا کہ وہ شرکت سے پاک ہے۔ ذات کا تصور ہو گا تو ہم حکم لگائیں گے کہ اس ذات میں کوئی شریک نہیں ہے۔ ذات کا تصور صفت کے بغیر ہو نہیں سکتا۔ اور

خدا کی پہلی صفت

خدا کی سب سے پہلی صفت ہے وجود، اب لوگ وجود کے معنی نہ سمجھیں تو ہم کیا کریں۔ لوگ سمجھتے ہیں وجود کے معنی ہیں جسم۔ وجود کے معنی ہیں بدن، وجود کے معنی ہیں اعضاء۔ خدا کی قسم یہ وجود نہیں۔ یہ ہمارے ہاتھ، پاؤں، یہ ہماری کھال، یہ ہمارا گوشت پوست، یہ ہماری ہڈیاں، یہ ہمارا خون، جن سے ہمارے بدن کی ترکیب ہے، یہ وجود نہیں ہے۔ خدا کی قسم! لوگوں نے ’’عدم‘‘ کو ’’وجود‘‘ اور ’’وجود‘‘ کو ’’عدم‘‘ سمجھ لیا۔

اصل میں وجود کے معنی ہیں ’’الوجود شدن‘‘ وجود کے معنی ہیں’’ہونا‘‘۔ ہے تو وہی ہے۔ ’’ہست اور نیست‘‘ وجود اور عدم۔ عدم کے معنی ہیں نہ ہونا اور وجود کے معنی ہیں ہونا۔ تو ذات کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ موجود ہے۔ یعنی ذات ہے۔ ذات پائی جاتی ہے۔ ذات کے اوپر ہونے کا جو حکم ہے یہ اس کی صفت وجود سے ہے۔

خدا کی پہلی صفت کیا ہے؟ وجود۔ یعنی ’’ہونا‘‘۔ وہ ہے۔ یہ اس کی پہلی صفت ہے۔

دیکھئے ہم کس پر حکم لگائیں گے کہ زید ’’ہے‘‘ یا زید ’’نہیں ہے‘‘ تو پتہ چلا ’’ہونا‘‘ بھی زید سے الگ صفت ہے اور ’’نہ ہونا‘‘ بھی زید سے الگ صفت ہے کیونکہ ہم نے زید پر ’’ہونے‘‘ اور ’’نہ ہونے‘‘ کا جو حکم لگایا، وہ زید پر لگایا۔ معلوم ہوا کہ ’’ہونا‘‘ زید کی ذات نہیں ہے بلکہ وہ زید کی صفت ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ صفت ’’عین ذات‘‘ ہے یا ’’غیر ذات‘‘ ہے۔

صفات الہیہ

میں خدا کی ’’ذات‘‘ اور خدا کی صفت ’’وجود‘‘، دونوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ اگر صفت وجود پر ایمان نہ ہو تو نہ میں خدا کو ’’سمیع‘‘ مان سکتا ہوں اور نہ ’’بصیر‘‘ نہ ’’قدیر‘‘ مان سکتا ہوں، نہ ’’علیم‘‘ نہ ’’حیی‘‘ مان سکتا ہوں نہ ’’متکلم ‘‘۔ میں خدا کی کسی صفت پر ایمان نہیں لا سکتا، جب تک کہ میں خدا کی ذات کو اس کی صفت ’’وجود‘‘ کے ساتھ نہ مان لوں۔

وجود صف عین ذات ہے

اب رہا ’’وجود‘‘ کہ وہ عین ذات ہے یا غیر ذات۔ بس ذات کا ’’ہونا‘‘ ہی یہی اس کا ہونا ہے۔ ہم صفت ’’وجود‘‘ کو ’’غیر ذات‘‘ نہیں مانتے بلکہ ’’صفت وجود‘‘ کو ’’عین ذات‘‘ مانتے ہیں۔ گویا ’’ہونا‘‘ تو عین ذات ہے۔ تو پتہ چلا کہ وجود کے معنی ہیں ’’ہونا‘‘، اور ’’ہونا‘‘ عین ذات ہے۔

شبہ

اب اگر آپ یہ کہیں کہ ہونا اللہ کا بھی ہے اور غیر اللہ کا بھی۔ تو آپ نے ہونے میں دوسروں کو شریک کر لیا۔ کیونکہ وجود اللہ کا بھی ہے اور غیر اللہ کا بھی وجود ہے۔ اور وجود ایک صفت تھی اور وہ صفت عین ذات تھی۔ لہٰذا آپ نے غیر اللہ کے لئے بھی صفت وجود مان لی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے خدا کے ساتھ شریک مان لیا۔ کیونکہ وہ اپنی ذات و صفات دونوں میں لاشریک ہے۔ گویا نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے، نہ اس کے صفات میں اس کا کوئی شریک ہے اور وہ صفت وجود وہ عین ذات ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر ہم غیر اللہ کے وجود کا قول کرتے ہیں تو ہم خدا کی صفات میں بھی غیر خدا کو شریک مانتے ہیں اور پھر وہ وجود جو خدا کی صفت ہے وہ کیونکہ عین ذات ہے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم نے خدا کی صفت میں بھی شریک مانا اور خدا کی ذات میں بھی خدا کا شریک مانا۔

توحید کا پہلا نکتہ

توحید کا پہلا مرتبہ، مقام اور پہلا نکتہ یہ ہے کہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ اللہ کی ذات کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ جب تک کہ ہم یہ تسلیم نہ کریں کہ خدا کی صفتِ وجود میں کوئی دوسرا شریک نہیں، اس وقت تک خدا کی توحید کا اعتقاد ہمارے اندر پیدا نہیں ہو سکتا۔

اب آپ یہ کہیں گے کہ اگر خدا کے سوا کوئی وجود نہیں ہے تو یہ ساری کائنات کا وجود، یہ کیا ہے؟ یہ زمین ہے، یہ آسمان، یہ سورج اور چاند، یہ چرند ہیں اور پرندے، یہ خیر کا وجود ہے اور یہ شر کا۔ یہ نور کا وجود ہے اور یہ ضلالت کا وجود ان سب اشیاء کا وجود کیسے نہ مانیں۔

شبہ کا ازالہ

جواب: میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ خدا کی قسم! وجود سوائے خدا کے کسی کا نہیں ہے۔ ہاں یوں کہیئے کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہٗ وعم نوالہٗ نے تمام حقائق کائنات کو اپنے وجود کا آئینہ بنا دیا۔ صفت وجود کے بعد خیر و شر کا وجود۔

اللہ تعالیٰ جل مجدہٗ کی صفت وجود اور وجود کے بعد اس کی بے شمار جو صفات ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات ہیں۔ وہ ہادی ہے۔ ہادی اللہ ہے کہ نہیں ہے۔ وہ مضل ہے ’’وَمَا یُضِلُّ بِہٖ اِلاَّ الْفٰسِقِیْنَ‘‘۔

ہدایت کرنا اس کی صفت ہے۔ جلال بھی اس کی صفت ہے، جمال بھی اس کی صفت ہے۔ تو میں کہوں گا جس قدر خیر آپ کو نظر آئے گی، وہ اس کی صفت جمال کا ظہور ہو گی اور جس قدر آپ کو شر نظر آئے گا، شر کا یہ کوئی وجود نہیں ہے۔ وہ اس کی صفت جلال کا ظہور ہو گا۔ وہ خدا کی صفت جلال کا ظہور ہو گا۔

لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ

محترم حضرات!

حضراتِ اولیاء کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے فلسفے کو ہم نہیں سمجھ سکے۔ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کے معنی و مفہوم کو انہوں نے سمجھا اور انہوں نے بتایا کہ نہ کوئی خدا کی ذات میں شریک ہے اور نہ خدا کی صفات میں کوئی شریک ہے اور خدا کی پہلی صفت کیا ہے؟ وہ وجود ہے اور وہ ’’وجود‘‘ عین ذات ہے ۔ تو ہم کسی کو ’’وجود‘‘ میں شریک نہیں مانتے۔ گویا ہم کسی کی ’’صفت وجود‘‘ کے قائل ہی نہیں اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘

اب ان تمام حقائق کائنات کا وجود کیا ہے؟ یہ وجود، حقیقی وجود نہیں ہے بلکہ یہ ’’وجود‘‘ مجازی ہے۔ بلکہ اگر حقیقی وجود کو دیکھیں تو کائنات میں جہاں وجود نظر آئے گا ’’حقیقت وجود‘‘ تو سوائے وجود واحد کے ہے ہی نہیں۔ باقی آپ کو جس قدر تعدد نظر آرہا ہے، خدا کی قسم! یہ حقیقت وجود نہیں ہے بلکہ یہ ’’حقیقت واحدہ‘‘ کی تجلیات کا ظہور ہے۔ کہیں اس کے جلال کا ظہور ہے، کہیں اس کے جمال کا ظہور ہے، اس کے سوا کسی چیز کا وجود ہی نہیں۔

اس کے لئے میں ایک حدیث قدسی کا حوالہ دیتا ہوں۔ یہ حدیث وہ ہے جس کو ہم بھی مانتے ہیں اور ہم سے الجھنے والے بھی مانتے ہیں کیونکہ یہ تمام کتب احادیث میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان اقدس پر فرماتا ہے۔

آئینہ حق نما

کنت کنزًا مخفیًا فاحببت ان اعرف (۱)

’’میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے اس بات کو محبوب رکھا اور میں نے چاہا پہچانا جاؤں‘‘

تو فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ

’’تو میں نے مخلوق کو پیدا کر دیا‘‘

تو پتہ چلا اور معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہٗ و عم نوالہٗ کی ذات جو ’’کنزًا مخفیًا‘‘ کا مصداق ہے، وہ کون سا مقام ہے (ان کو سمجھنے کے لئے) مراتب وجود کو سامنے لایئے۔ مراتب وجود چھ ہیں۔

۱: وجود کے معنی کیا ہیں؟ وجود کے معنی ہیں ہونا۔ وجود جسم کو نہیں کہتے۔ وجود بدن کو نہیں کہتے۔ وجود اعضاء کو نہیں کہتے اور ’’وجود‘‘ کا پہلا مرتبہ ہے’’احدیت‘‘ اور یہ وہ مقام ہے، جہاں ’’کنت کنزًا مخفیًا‘‘ صادق آ رہا ہے۔ یہاں خفا ہی خفا ہے، پوشیدگی ہی پوشیدگی ہے۔ یہاں کسی چیز کے ظہور کا نام و نشان نہیں۔ ظہور کا تصور بھی ہے اور وہ ہے وجود کا مقام احدیت اور احدیت کے مرتبے ذات کا ہی تعین نہیں ہے۔ صفات تو درکنار ’’کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا‘‘ میں کنز مخفی تھا۔ میری ذات، میرا وجود، میرا ہونا مرتبۂ احدیت میں تھا۔ جس میں ذات بھی مخفی تھی۔ صفات کا تصور ہی کیا۔ صفات تو درکنار، ذات بھی مخفی تھی۔ میرا ہونا مرتبہ احدیت میں تھا۔ پھر میرے مرتبۂ ذات نے احدیت کے مرتبہ سے تنزل فرمایا تو دوسرا مرتبہ آیا جس کا نام ہے وحدت! تو

۲: احدیت سے وحدت میں ظہور ہوا اور ’’کنت کنزًا مخفیًا‘‘ کا پہلا خفا دور ہوا۔ پہلا خفا! کیا مطلب؟ ذات کا تعین ہوا۔ ابھی صفات کا وہاں بھی پتہ نہیں احدیت کے بعد وجود کا دوسرا مرتبہ وحدت ہے اور وحدت میں ذات کا تعین ہے۔ صفات یہاں بھی معرض خفا میں ہیں۔ صفات کا یہاں بھی تصور نہیں ہے اور مقامِ وحدت کا نام ہے تعین اطہر اور اس مقام ’’وحدت‘‘ کا نام تعین اول ہے اور صوفیاء کرام نے اسی مقام ’’وحدت‘‘ کو تعبیر کیا حقیقت محمدیہ سے۔ یہاں ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ ایسا نہ ہو کہ ہم پل صراط سے بھی باریک تر مقام پر چل رہے ہیں۔ ذرا اگر ہمارے قدم پھسلے تو ہمیں ہلاک ہونے کا خطرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہلاکت سے چبائے۔ اس دور میں حق کو چھپایا جا رہا ہے اور باطل کو حق کہہ کر ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس لئے میں نے مجبوراً یہ وضاحت کی ہے۔ پھر وہ مرتبہ وجود تیسرے مرتبے میں ظاہر ہوا، وہی وجود جو احدیت سے چلا اور وحدت میں چمکا اور پھر جب وحدت سے واحدیت کی طرف نزول ہوا اس مرتبہ وجود کا تو واحدیت کے مرتبہ میں ذات کے ساتھ صفات کا بھی تعین ہو گیا۔ مگر یاد رکھو، نہ خدا کی ذات مخلوق ہے اور نہ خدا کی صفات مخلوق ہیں۔ (۱) احدیت بھی مخلوق نہیں (۲) مقام وحدت بھی نہیں (۳) اور اسی طرح اس کے بعد فرمایا مقام واحدیت بھی مخلوق نہیں۔ یہ تینوں مرتبے وجود کے غیر مخلوق ہیں۔

’’کنت کنزًا مخفیًا‘‘ میں کنز مخفی تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں۔ ’’فاحببت‘‘ میں نے محبت کی، پتہ چلا کہ خدا کی ذات اور اس کی صفات کے ظہور کی جو بنیاد ہے وہ محبت ہے۔ کس نے محبت کی، ذات نے محبت کی۔ کس سے محبت کی، ذات سے؟ کہ میں پہچانا جاؤں۔ جب اس محبت کا مرتبہ آیا تو اس مرتبہ میں احدیت سے وحدت میں ظہور ہوا اور وحدت سے وحدانیت میں ظہور ہوا اور یہ تقاضا تھا محبت کا۔ معلوم ہوا مراتب وجود کے تعینات کی بنیاد محبت ٹھہری، پھر اب کیا ہوا ’’فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ‘‘ میں نے مخلوق کو پیدا کر دیا۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وجود کا مرتبہ اول احدیت، جس میں ذات کا بھی تعین نہ تھا۔ یہ مقام (احدیت) تعین اول نہیں۔ (۱) مقام احدیت، جس میں ذات کا بھی پتہ نہ تھا۔

تعین اول(حقیقت محمدی)

جب وہ (وجود) (۲) مرتبہ وحدت میں آیا تو ذات کا تعین ہوا۔ اس کو ہم نے تعین اول کہا اور اسی تعین اول کا نام حقیقت محمدی رکھا گیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ خلق کی ابتدا نور محمدی سے ہوئی تھی۔ حقیقت محمدیہ کے دو مرتبے ہیں۔ ایک مرتبہ ہے مقام وحدت کا، جو غیر مخلوق ہے۔ مگر یاد رکھیئے، اس مرتبہ میں ہم حضرت محمد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ کی اس ذات پاک جس کو قرآن نے ’’یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا‘‘ کہا ہم حضور کی ذات مقدسہ کو النبی کو، الرسول کو، ہم جو کہتے ہیں مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ، ہم جو کہتے ہیں ’’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘ اور ’’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ‘‘ اور جس مرتبے میں ہم حضور کی نبوت اور حضور کی رسالت کی شہادت دیتے ہیں، وہ تعین اول نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ’’فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ‘‘ سے ہے کیونکہ تعین اول تو غیر مخلوق ہے اور عبدیت کا تعلق خلق سے ہے اور نبی و رسول ہونے کا تعلق بھی خلق سے ہے اور خلق کے کیا معنی ہیں؟ خلق کے معنیٰ ہیں ایجاد یعنی عدم سے وجود میں لانا۔ کیا مطلب؟ وجود کب تھا؟ وجود حقیقی تو نہیں ہے جس کو ہم احدیت، وحدیت اور وحدانیت کہتے ہیں۔ عدم سے وجود کے معنیٰ میں لانا تو اس وقت ہوئے جب اس وجود حقیقی کو تعینات کے رنگ میں ظاہر فرمایا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھیئے کہ ہم جو مقام وحدت کو حقیقت محمدیہ کہتے ہیں وہ تعینات کی انتہا ہے اور ہم حضور کی حقیقت کو جو ’’النبی، الرسول‘‘ لفظ بولنے سے سمجھ میں آتی ہے جیسے ’’النبی، الرسول، اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ‘‘ حضور کی شان عبدیت حضور سید عالم ﷺ کی نبوت و رسوالت، حضور ﷺ کا نبی اور رسول اور عبد ہونے کی حیثیت سے مرسل ہونا، بھیجا جانا، جلوہ گر ہونا، تشریف لانا، اس وجود سے اور اس ذات مقدسہ سے آپ وحدت کے مقام کو لی لیں جو کہ وہ غیر مخلوق ہے۔ یہ حقیقت محمدیہ جس کو میں عبد، رسالت اور نبوت کے رنگ میں پیش کر رہا ہوں اس کا مبداء ’’فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ‘‘ ہے کیونکہ تعین اول محمد مصطفی ﷺ کے عنوان سے مقرر ہو چکا تھا۔ لہٰذا خلق کی ابتداء حقیقت محمدی سے ہوئی۔ وہ حقیقت محمدی جس سے خلق کی ابتداء ہوئی وہ نور ہے، جس کے لئے حدیث میں آیا

اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ

’’سب سے پہلے اللہ نے میرے نور کو پیدا کیا۔‘‘ (۲)

تو وہ نور واجب نہیں ہے۔ وہ نور غیر مخلوق نہیں۔ وہ نور ازلی اور ابدی نہیں۔ بلکہ اس نور کی ابتدا ہے۔ اس نور سے پہلے وجود ہے۔ اس نور سے پہلے عدم ہے۔ وہ نور عدم سے وجود میں لایا گیا مگر یہ وجود وہ وجود نہیں ہے جس کو میں وجود حقیقی سے تعبیر کر رہا ہوں کیونکہ وہ تو خدا کی صفت ہے اور ہم نہ خدا کی ذات میں کوئی شریک مانتے ہیں نہ خدا کی صفات میں شریک مانتے ہیں۔ اگر آپ نے یہ سبق لیا کہ وہ جو مقام وحدت ہے جناب محمد رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ کی وہ حقیقت جو یہاں جلوہ گر ہوئی، میرے آقا یہاں تشریف لائے، یہ آقائے نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ کی وہ حقیقت اور وہ نور ہے جو ’’فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ‘‘ کامصداق ہے اور جس کو صوفیا نے حقیقت محمدیہ کے لفظوں سے تعبیر کیا۔ یہ صوفیا کی اصطلاح ہے۔ اس مرتبہ وحدت کو جو حقیقت محمدیہ کے لفظوں سے تعبیر کیا، یہ اس وجہ سے ہے کہ تعین کی ابتداء نور کے مقام وحدت سے ہے اور خلق کی ابتداء حضور کی ذات پاک سے ہے۔ جو نام (حقیقت محمدیہ) خلق کی ابتداء کا تھا وہی نام تعین (اول حقیقت محمدیہ) کی ابتداء کا ہے۔

مبداء خلق کون؟

مبداء خلق جناب محمد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ کی ذات ہے۔ حضور سے پہلے کوئی پیدا ہوا؟ کی ذات ہے۔ حضور سے پہلے کوئی پیدا نہیں ہوا۔ جو نام خلق کے مبداء (حقیقت محمدیہ) کا ہے، وہی نام تعین اول (حقیقت محمدیہ) کا ہے۔ پہلا تعین مقام وحدت کا ہے۔ یہ مت کہو کہ مقام وحدت میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ کی ذات مقدسہ ’’النبی‘‘، ’’الرسول‘‘ اور ’’عبدہٗ ورسولہٗ‘‘ کا مصداق ہے کیونکہ ’’عبدہٗ‘‘ مخلوق ہے۔ ’’ورسولہٗ‘‘ بھی مخلوق ہے اور ’’النبی‘‘ بھی مخلوق ہے اور حضور سید عالم مخلوق ہیں۔ مخلوق ہیں۔ مخلوق ہیں۔

اور وحدت جس کو ہم نے تعین اول کہا، اس کا نام حقیقت محمدیہ اس جہت سے رکھا گیا کہ مبداء خلق حضرت سیدنا محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ لہٰذا مبداء تعین کا نام بھی حقیقت محمدیہ ہونا چاہئے اور تعین اول غیر مخلوق ہے احدیت غیر مخلوق ہے۔ احدیت میں نہ ذات کا تعین ہے اور نہ صفات کا، مقام وحدت میں ذات کا تعین ہے۔ مگر صفات کا نہیں۔ مقام وحدانیت میں ذات کا بھی ظہور ہے اور صفات کا بھی۔ اور پھر مراتب وجود جب آگے چلے تو مقام خلق آیا۔ اس کو صوفیا علماء نے حدوث سے تعبیر کیا، جس کو ارواح کہا جاتا ہے۔ اور یہ تینوں مرتبے غیر مخلوق ہیں احدیت، وحدت، وحدانیت اور ’’فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ‘‘ کی ابتداء جس کا مبداء روح الارواح حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ اس لئے جب وجود کا تنزل اور اس کا تعین تیسرے تعین سے آگے بڑھا تو اس کا نام رکھا ارواح۔ اور ارواح کے بعد اور آگے بڑھا یعنی احدیت ۱، وحدت ۲، واحدیت ۳ اور ارواح ۴۔ میں نے آپ کو بتا دیا حقیقت واحدہ ایک ہے یعنی حقیقت واحدہ کا ظہور عالم ارواح سے جب آگے بڑھا تو پھر وہ (وجود عالم) اجسام میں آیا اور پھر جب اجسام سے آگے بڑھا تو پھر انسان میں آیا۔ یہ مراتب ستہ ہیں، یہ چھ مراتب ہیں (۱)احدیت (۲) وحدت (۳) وحدانیت (۴) ارواح (۵) اجسام (۶)انسان۔ انسان آخری مرتبہ ہے تعین کا۔ مگر یاد رکھو، ان تمام مراتب میں اگر وجود حقیقی کو تلاش کروگے تو وہ حقیقت واحدہ بھی ایک ہے۔

حقیقت واحدہ

یہ مت کہوکہ وہ رسول ہیں۔ یہ مت کہو کہ وہ زمین ہے اور یہ مت کہو کہ وہ آسمان، چاند ہے اور سورج، پہاڑ ہیں اور سمندر ہے، یہ آگ ہے، وہ پانی ہے۔ کیونکہ وہ تو تمام تعینات ہیں، تعین تو حقیقت وجود نہیں، تعین تو جلوہ ہ وجود کا۔ یہ سبب علمیہ ہیں، سبب علمیہ کے اندر اس جلوہ وجود حقیقی کا اظہار ہوا، جس کی ابتداء احدیت سے ہوئی دوسرا مقام وحدت اور تیسرا مقام وحدانیت کا آیا۔ اور پھر ارواح کا مرتبہ آیا اور پھر انسان کا مقام آیا۔ ان تمام مقامات کا آخری مرتبہ انسان ہے۔ یاد رکھو، اب یہ انسان ان تمام مراتب وجود کا نام ہے۔ انسان سے پہلے اجسام، اجسام سے پہلے ارواح، ارواح سے پہلے وحدانیت، وحدانیت سے پہلے وحدت، وحدت سے پہلے احدیت اب یہ اس کے آنے کا راستہ ہوا کہ کس راستے سے آیا، کس سے چلا۔ احدیت سے چلا وحدت میں پہنچا۔ وحدت سے چلا وحدانیت میں پہنچا، وحدانیت سے چلا ارواح میں پہنچا۔ ارواح سے اجسام میں پہنچا اور اجسام سے چلا تو انسان میں آ کر ظاہر ہوا۔ اب اگر یہ اپنے وطن واپس جانا چاہتا ہے تو اسے اجسام میں آنا ہو گا۔ اجسام سے ارواح میں جانا ہوگا ارواح سے واحدیت کے مرتبے میں پہنچنا ہو گا۔ واحدیت سے وحدت میں جائے گا اور وحدت سے احدیت میں پہنچے گا اور ’’کنت کنزًا مخفیًا‘‘ کا مصداق بن جائے گا۔

اقسام صفات باری تعالیٰ

وجود کے معنیٰ ذات کے بھی ہیں۔ یعنی ذات کا ہونا۔ تو ’’ہونا‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جو عین ذات ہے۔ اگر کوئی چاہے کہ ذات کو الگ کر دے اور ہونے کو الگ کر دے، یہ ممکن نہیں ہے۔ ’’ہونا‘‘ عین ذات ہے۔ یہی عقیدئہ اہلسنّت ہے۔ اسی لئے ہمارے علماء نے خدا کی صفات پر جب کلام کیا تو انہوں نے کہا کہ خدا کی صفات کی کئی قسمیں ہیں۔

(۱) بعض صفات وہ ہیں جو عین ذات ہیں جیسے ہونا یعنی وہ ذات ’’ہے‘‘۔

(۲) بعض صفات وہ ہیں جو لاعین اور لاغیر ہیں کیا مطلب؟ وہ صفات اپنے مفہوم کے اعتبار سے غیر ہیں اور ذات کے اعتبار سے عین ہیں یعنی نہ وہ عین ہیں نہ غیر ہیں۔ جیسے حیات، سماع، بصر، قدرت، کلام

(۳) بعض صفات غیر ذات ہیں، جیسے احیاء، اماتت، یعنی جلانا، مارنا۔ تو پتہ چلا کہ خدا کی صفات عین ذات بھی ہیں اور خدا کی صفات غیر ذات بھی ہیں۔ خدا کی صفات لا عین بھی ہیں اور لا غیر بھی۔

بات یہ ہے کہ میں خدا کی ذات میں بھی کسی کو شریک نہیں مانتا اور خدا کی صفات میں بھی کسی کو شریک نہیں مانتا اور وجود اللہ کی صفت ہے جو عین ذات ہے۔ ذات سے ہر گز الگ نہیں ہو سکتی، لہٰذا میں کہتا ہوں ’’لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہ‘‘ کا مطلب ہے ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ (تو آپ نے بار بار دہرایا) اب آپ جن چیزوں کو موجود پا رہے ہیں، وہ وجود، وجودِ حقیقی نہیں ہیں، وہ وجود نہیں جس کو وجودِ حقیقی سے تعبیر کیا جا سکے، وہ تو تعینات ہیں۔ ایک ہے ذات کا ہونا، ایک ہے تعین کا ہونا۔ تعین کے ہونے کو تم نے ذات کا ہونا سمجھ لیا


ایک شبہ کا ازالہ

اب بعض لوگ صوفیا کرام پر الزام لگاتے ہیں کہ صوفیا کہتے ہیں کہ یہ بھی خدا ہے، وہ بھی خدا ہے، چاند بھی خدا ہے، سورج بھی خدا ہے، زمین، آسمان، پہاڑ، درخت، سمندر سب خدا ہیں۔ واللّٰہ باللّٰہ ثم تا اللّٰہ۔ یہ ہمارے اولیاء پر الزام ہے۔ ہمارے صوفیاء پر الزام ہے۔ ہم ہرگز نہیں کہتے کہ چاند خدا ہے، زمین خدا ہے، سورج خدا ہے۔ حتیٰ کہ حضرت محمد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ کے وجود اقدس کو بھی خدا نہیں کہتے، ہاں! میں نے آپ کو بتا دیا کہ جناب محمد مصطفی ﷺ کے وجود اقدس کو جب ہم وجود حقیقی کے تصور سے الگ دیکھیں گے تو ’’فَخَلَقْتُ الْخَلْقََ‘‘ کے مقام پر اول ظہور دیکھیں گے اور حقیقت محمدیہ کے ساتھ جو مقام وحدت سے تعبیر کیا گیا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ حضور جو اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے، جن کو ہم ’’عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ‘‘ کہتے ہیں جنہیں قرآن کہتا ہے ’’یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضور کی حقیقت کو غیر مخلوق بنایا یا حضور غیر مخلوق ہیں۔ حضور کی ذات ازلی ہے۔ حضور کی ذات ابدی ہے۔ حضور قدیم ہیں۔ ہرگز قرآن کا یہ مطلب نہیں۔ یہ نہ ہمارا ایمان ہے اور نہ عقیدہ۔

وحدت الوجود کا ظہور

ہم صاف کہتے ہیں کہ مرتبہ وجود میں جو تمام حقائق کائنات کا وجود ہے، وجود حقیقی کے مقام پر کسی کا وجود نہیں سوائے ذات واجب الوجود کے۔ ہاں! حقیقت واحدہ کے سوا کوئی وجود نہیں ہے اور اس حقیقت واحدہ کا ظہور تعینات کی صورت میں کہیں جلال ظاہر ہوا، کہیں جمال، میں دیکھتا ہوں سورج میں حرارت ہے، چاند میں برودت ہے۔ آگ میں گرمی ہے۔ پانی میں ٹھنڈک ہے۔ یہ تمام جس قدر تعینات اور جواہر اور اعراض کا ظہور ہمارے سامنے ہے۔ خوب سمجھ لو اگر تم انہیں وجود حقیقی کے انداز سے دیکھو، خدا کی قسم! کائنات میں وہ ایک ہی ہے، اس کے سوا کوئی نہیں اور اگر تم ان کو تعینات کے مرتبے میں دیکھو تو پھر یہ کہو کہ یہ پانی تعین ہے، یہ حرارت کا تعین ہے، یہ برودت کا تعین ہے۔ یہ محض تعینات ہیں۔ یہ وجود حقیقی نہیں ہیں۔ ہم ان تعینات کے مرتبے میں مراتب وجود کا فرق ملحوظ رکھتے ہیں۔ اس لئے کسی نے کہا۔

ہر مرتبہ وجود حکم دارد

گر فرق مراتب نکنی زندیقی

ارے ایک مرتبہ وجود احدیت ہے، ایک مرتبہ وجود وحدت ہے۔ ایک مرتبہ وجود وحدانیت ہے۔ ایک مرتبہ وجود ارواح ہے۔ ایک مرتبہ وجود اجسام ہے اور ایک مرتبہ وجود انسان ہے۔ ہر مرتبۂ وجود حکم دارد ۔’’وجود کا ہر مرتبہ ایک حکم رکھتا ہے‘‘ اگر تو فرق مراتب نہیں کرے گا تو توُ زندیق اور گمراہ ہو جائے گا۔‘‘ اسی لئے ہم کہتے ہیں عبد، عبد ہے۔ معبود، معبود۔ اللہ، اللہ ہے۔ رسول، رسول۔ خالق، خالق ہے۔ مخلوق، مخلوق۔ اور اسی لئے ہم کہتے ہیں یہ مومن ہے، وہ کافر۔ یہ صالح ہے، وہ فاسق۔ یہ نبی ہے، یہ ولی ہے، یہ رسول ہے۔ تو ہم یہ کیوں کہتے ہیں۔ اگر ہم حقیقت واحدہ پر نظر ڈالیں تو میں کہوں گا، حقیقت واحدہ (وجودِ حقیقی کے ساتھ وہ) ایک ہے (بتکرار الفاظ) مشرک کون؟ کیونکہ اگر ہم کسی کے وجود کو اس کا شریک مانتے ہیں تو ہم مشرک ہو جاتے ہیں۔ معترض لوگ ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈالیں کہ جو خدا کے لئے بھی وجود کی صفت مانتے ہیں اور اپنے لئے بھی کہ خدا بھی ہے ہم بھی ہیں، ارے ہونا تو خدا کی صفت ہے۔ تو ہونا تمہاری صفت نہیں ہو سکتا۔ یا تو یہ کہو کہ ہونا خدا کی صفت نہیں ہے۔ تو خدا نہیں ہے اور اگر خدا کی صفت ’’ہونا‘‘ ہے توپھر کیسے کہتے ہو کہ ’’ہونا‘‘ ہماری صفت بھی ہے۔ پھر تو تم بھی واجب ہو گئے کیونکہ خدا کی صفت تم نے اپنے لئے مان لی۔ تو تم مشرک ہوئے یا ہم۔ ارے خدا ہے کہ نہیں ہے؟ خدا ہے تو ہونا تو خدا کی صفت ہو گیا اور جو کہے میں ہوں تو اس نے خدا کی صفت اپنائی اور جو خدا کی صفت اپنائے وہ مشرک ہو گیا۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ کوئی نہیں ہے صرف خدا ہے۔

شبہ کا ازالہ

اب اگر کوئی کہے کہ وہ زمین ہے، آسمان ہے تو میں کہوں گا، زمین بھی ایک تعین ہے اور آسمان بھی ایک تعین ہے۔ تعین تو عدم کا نام ہے۔ تم نے عدم کو وجود کہہ دیا تو تمہاری عقل کہاں گئی۔ کسی نے کہا

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

ارے تعین تو عدم ہے، وجود نہیں تو سمجھ لیجئے کہ تعینات تو عدم ہے اور وجود ’’حقیقت واحدہ‘‘ ہے تو تم تعین کو وجود کہتے ہو حالانکہ شر ایک تعین ہے۔ شیطان ایک تعین ہے۔ برائی ایک تعین ہے۔ رسول ایک تعین ہے۔ انسان ایک تعین ہے تو تعین حقیقت وجود نہیں ہے۔ حقیقت وجود تو وہ ہے جس کے بارے میں مَیں بتا چکاکہ ذات ہے اور جو صرف اسی کی صفت ہے۔ لہٰذا جب میں کہوں گا کہ ’’ہے‘‘ تو اس (اللہ) کے سوا کچھ نہیں۔ جب میں کہوں گا کہ یہ سورج ہے، یہ چاند ہے تو ان کا ’’ہونا‘‘ دراصل صرف اسی (اللہ) کا ہونا ہے۔ بتاؤ، اگر خدا نہ ہوتا تو کچھ ہوتا؟ کچھ بھی نہ ہوتا۔ معلوم ہوا ہونا تو صرف اسی کا ہے۔ اگر وہ نہ ہوتا تو نہ چاند ہوتا نہ سورج ہوتا، اگر وہ نہ ہوتا تو کچھ نہ ہوتا۔ ان (تعینات) کا ہونا دلیل ہے اس (اللہ) کے ہونے کی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ جل مجدہٗ اپنی ہستی کی دلیل میں زمینوں کو پیش کرتا ہے۔ زمین کی مخلوقات کو پیش کرتا ہے۔ چاند کو پیش کرتا ہے، سورج کو پیش کرتا ہے۔ کبھی فرماتا ہے

ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّافِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا (البقرہ)

’’اللہ وہ ہے جس نے زمین کی ہر چیز کو تمہارے لئے پیدا کیا‘‘

’’اب تم نے زمین کی ہر چیز کو دیکھا، یہ تعینات ہیں۔ تم نے دیکھا کہ زمین کی ہر چیز تمہارے لئے ہے۔ تو یہ محض میرے ہونے کی دلیل ہیں۔ اگر میں نہ ہوتا تو یہ نہ ہوتے۔‘‘

اب میں بات سمجھانے کے لئے مثال دیتا ہوں۔ بتاؤ اگر تمہیں سایہ نظر آئے تو سایہ سائے والے کی دلیل ہے یا سائے کا کوئی اپنا وجود ہے؟ سائے کا کوئی وجود نہیں۔ اسی طرح شیشہ میں جو شکل نظر آئے، واقع میں شکل کا کوئی وجود نہیں۔ وجود شکل والے کا ہے۔ لیکن خدا اس شکل سے پاک ہے جو میرے اور تمہارے ذہن میں ہے۔

میں نے یہ بات سمجھانے کے لئے کہی کہ شیشے میں جب کوئی شکل کسی کی نظر آئے گی تو تم سمجھ جاؤ گے۔ یہ کچھ نہیں۔ ہاں! اس شکل والا کوئی نہ کوئی ضرور موجود ہے۔ اب اگر شیشے میں کوئی حسین شکل نظر آئے، اس کے لئے دِل میں محبت پیدا ہو گی یا نہیں؟ وہ محبت جو دل میں پیدا ہو گی تو محبت شیشے کی طرف بڑھے گی یا شکل والے کی طرف؟ وہ محبت جو آگے بڑھے گی تو محبت شکل والے کی طرف بڑھے گی۔ صوفیاء کرام نے یہی بتایا کہ سارے شیشے میں، میں ہی (اللہ) چمک رہا ہوں۔ اپنی محبت کا رخ میری طرف کرو۔ یہ کچھ نہیں ہیں۔ اگر ہوں تو صرف میں ہی ہوں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے کبھی زمین کو پیش کیا اور کبھی زمین کی مخلوقات کو۔ فرمایا

وَہُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ

’’ارے، میں نے چاند کو تمہارے لئے مسخر کیا، سورج کو تمہارے لئے مسخر کیا اور پانی کو پیدا کیا، زمین کو پیدا کیا۔ ارے، یہ تو شیشے ہیں، ان شیشوں میں اس کی تجلیاں نظر آ رہی ہیں۔‘‘

صوفیاء کرام نے یہی پردہ اٹھایا ہے کہ ہونا ہے تو صرف اس کا ہے۔ وہ نہ ہوتا تو نہ چاند ہوتا نہ سورج ہوتا، نہ کچھ ہوتا۔ شیشے مںی شکل کا نظر آنا، شکل والے کے وجود کی دلیل ہے۔

لوگوں نے ہست کا نام نیست رکھ دیا اور نیست کا نام ہست اور کہا امریکہ والوں نے بڑی ترقی کی کہ چاند پر پہنچ گئے۔ اب بتاؤ، عقل مند کون ہے؟ جو سائے کو اپنا مقصود بنائے یا سائے والے کو۔ تو پتہ چلا جو سائے والے کو اپنا مقصود بنائے وہ عقل مند ہے۔ اسی طرح جو شیشے میں شکل والے کو اپنا مقصود بنائے وہ عقل مند ہے تو چاند پر پہنچنا کمال نہیں ہے، چاند والے تک پہنچنا کمال ہے۔ آسمان پر پہنچنا کمال نہیں، آسمان والے تک پہنچنا کمال ہے۔ عرش تک پہنچنا کمال نہیں، عرش والے تک پہنچنا کمال ہے۔ جو عرش والے معبود تک پہنچنے والے ہیں، وہ فرش پر ہوں تو عرش سے بھی اونچے ہیں۔ خدا کی قسم! عر ش تو ان کی عظمتوں کو جھک جھک کر سلام کرتا ہے۔

آئینہ جمال حق

اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ ہزار مخلوق کو اپنے ہونے کا آئینہ بنایا اور پھر ان سارے آئینوں کا رخ ایک آئینہ کی طرف کر دیا اور وہ ایک آئینہ کون ہے؟

اَنَا مِرْأَۃُ جَمَالِ الْحَقِّ

میرے آقا تاجدارِ مدنی ﷺ نے فرمایا، ’’سب سے پہلا آئینہ میں ہوں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’میری عظمتوں کے جلوے اس آئینے میں نظر آ رہے ہیں۔‘‘خدا نے اپنے حسن کامل کا آئینہ اپنے محبوب کو بنایا اور فرمایا ’’فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ‘‘ اور پھر اٹھارہ ہزار کائنات کے اربوں، کھربوں، آئینے بنائے اور ہر ایک آئینے کا رخ ایک آئینہ کی طرف کر دیا اور اگر کسی میں علم کا جلوہ نظر آ رہا ہے تو اسی سے نظر آ رہا ہے۔ اگر کسی میں حیات نظر آ رہی ہے تو وہ وہیں سے نظر آ رہی ہے۔ اگر کسی میں عمل نظر آ رہا ہے تو وہ وہیں سے نظر آرہا ہے اور اگر کسی میں نبوت کی جھلک نظر آ رہی ہے تو وہیں سے آ رہی ہے۔ صدیقیت ہے تو ہیں سے نظر آ رہی ہے۔ شہادت ہے تو وہیں سے ہے، صالحیت ہے تو وہیں سے ہے۔ اسلام ہے تو وہیں سے آ رہا ہے۔ عرفان ہے تو وہیں سے آر ہا ہے۔ ارے، قرآن ہے تو وہیں سے آ رہا ہے۔

زمین بھی ایک آئینہ ہے۔ اس کا رخ بھی حقیقت محمدی کی طرف ہے جو اوّل خلق کا مصداق ہے۔ زمین کا سارا حسن، آسمان کا سارا حسن، عناصر کا حسن، جواہر کا حسن، اعراض کا حسن، معانی کا حسن، علم کا حسن، عمل کا حسن، عالم بیداری کا حسن، خواب کا حسن، عالم برزخ، عالم آخرت، جنت اور حورانِ جنت کا حسن، وَاللّٰہ بِاللّٰہ ثُمَّ تَاللّٰہ ہر حسن کا مرکز ایک آئینے کو بنایا ہے جو ’’اَنَا مِرْأَۃُ جَمَالِ الْحَقِّ‘‘ کا مصداق ہے اور ہر ایک آئینہ میں وہ تجلیات ہیں، جس کی صلاحیتیں اس میں تھیں۔ تو پتہ چلا وجود تو اس ایک کا ہے۔ یہ سب اس کے آئینے ہیں۔ ان کا ہونا دلیل ہے کہ وہ ہے۔ اگر وہ (اللہ تعالیٰ) نہ ہوتا تو کوئی آئینہ نہ ہوتا، تو نہ چھوٹے آئینے ہوتے، نہ بڑا آئینہ۔ اسی لئے خدا نے اپنے تخلیق کے دلائل کو قرآن میں بار بار پیش کیا اور قرآن نے کہا

ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا

’’ارے، اگر تم نے مجھے نہیں دیکھا تو آؤ، زمین کی ہر چیز کے آئینے میں میرے ہونے کو دیکھ لو۔ سورج میں میرے ہونے کو دیکھ لو۔ چاند میں میرے ہونے کو دیکھ لو۔ ‘‘

مگر لوگوں نے کیا کیا؟ جنہوں نے چاند کو پوجا، سورج کو پوجا تو بے سمجھوں نے جب چاند کو دیکھا، سورج کو دیکھا تو ان کو خدا کے ہونے کا آئینہ نہیں سمجھا بلکہ انہیں خدا سمجھ لیا۔ اسی طرح جب آگ کو دیکھا تو آگ کو خدا کے ہونے کا آئینہ نہیں سمجھا بلکہ انہوں نے آگ کو عین وجود سمجھ لیا کہ آگ ہی ہے تو جب آگ ہی ہے تو اس کی پوجا شروع کر دی۔

جن لوگوں نے ان چیزوں کو خدا کے ہونے کا آئینہ سمجھا وہ تو اس آئینے میں اصل شکل والے کو تلاش کرنے لگے اور جنہوں نے ان پتھروں کو وجود سمجھا، وہ ان کی پوجا کرنے لگے۔ بعض ’’لاۃ‘‘ کے پجاری ہو گئے۔ ’’مناۃ‘‘ کے پجاری ہو گئے۔ ’’ہبل‘‘ کے پجاری ہو گئے۔ یہ تمام بتوں کے پجاری کون تھے؟ یہ سب کے سب وہ تھے جنہوں نے ان آئینوں کو اصل وجود سمجھا اور جنہوں نے ان آئینوں میں کسی وجود کے جلوے کو مانا اور سمجھا کہ کسی کے ہونے کا ظہور ان میں ہو رہا ہے کیونکہ آئینے کی شکل کو تو کئی اپنا مطمح نظر نہیں بناتا مطمح نظر تو اس کو بناتا ہے جس کی شکل نظر آ رہی ہے۔ تو فرمایا

ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی

حقائق کائنات میں ان تمام آئینوں میں میرے حسن کے جلوے ہیں اور ہر آئینے کا رخ اس ایک آئینہ کی طرف ہے، جسے ’’مرأۃ جمال الحق‘‘ کہتے ہیں۔

امکان و جوب!

اب امکان وجوب کو سمجھئے۔ اس کو سمجھنے کے لئے مجھے مجدد الف ثانی کی بات یا د آ گئی۔ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

نظیر آں سرور بر نظر نمی آید

فرماتے ہیں، ’’عالم ممکنات کو جتنا غور سے دیکھو، آں سرور کے وجود کی مثل نظر نہیں آئے گی۔‘‘

ایک شبہ کا ازالہ

اب سوال پیدا ہوا کہ یہ کیسے مان لیں کہ عالم ممکنات میں آں سرور کے وجود کے مثل ہی نظر نہیں آئے گی۔ کم از کم اتنا تو کہنا ہی پڑے گا کہ ممکنات بھی ممکن ہیں اور حضور بھی ممکن ہیں اور انسان کے بغیر کوئی ممکن نہیں ہوتا تو ممکن امکان کے اعتبار سے تو ممکن اور عالم ممکنات میں بھی امکان ہے۔ مجدد صاحب نے بڑا علمی جواب دیا اور وضاحت اعلیٰ حضرت فاصل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شعر میں کی۔ اس سے پہلے کہ میں اعلیٰ حضرت کا شعر بیان کروں۔ لفظ امکان اور وجوب کی وضاحت کر دوں۔ اصل میں امکان سے مراد یہ ہے کہ جس کا ہونا نہ ہونا برابر ہو۔ اگر واجب چاہے تو اس کے ہونے کو راجح کر دے اور اگر واجب چاہے تو اس کے نہ ہونے کو راجح کر دے۔ اس کے اندر ہونے کی قدرت ہے اور نہ، نہ ہونے کی قدرت ہے۔ یا یوں سمجھو کہ آئینہ آئینے والے کے ہاتھ میں ہے۔ آئینے والا چاہے تو اس شکل کو ظاہر کر دے۔

اور آئینے والا نہ چاہے، آئینہ کا رُخ پھیر دے تو وہ آئینہ شکل سے بالکل خالی ہو گیا۔ تو جو شکل آئینے میں نظر آتی ہے۔ وہ ممکن ہے اور جس کے ہاتھ میں آئینہ ہے وہ واجب ہے۔ کیونکہ وہ اپنی شکلیں تو دکھا رہا ہے۔ کہیں اپنے جلال کے جلوے دکھا رہا ہے، کہیں اپنے جمال کے جلوے دکھا رہا ہے۔ تو پتہ چلا قدرت واجب میں ہے اور عدم قدرت اور عاجزی یہ ممکن میں ہے اور واجب کی صفت عبدیت نہیں ہو سکتی۔ ممکن کے اندر قدرت نہیں، واجب میں عبدیت نہیں۔ ہم ممکن ہیں۔ ہم بالکل عاجز، بے بس ہیں اور بے قدرت ہیں۔ کیونکہ ممکن میں قدرت نہیں ہوتی اور ہمارے مجدد صاحب نے مکتوبات شریف میں فرمایا کہ بے شک حضور بھی ممکن ہیں لیکن جس امکان کے ساتھ حضور ممکن ہیں، اس امکان کی نظیر عالم امکان میں نہیں ہے یعنی جس امکان کے ساتھ مصطفی کریم ﷺ ممکن ہیں، اس امکان کے ساتھ کوئی بھی ممکن نہیں۔ آئیے! اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی بارگاہ میں۔ آپ فرماتے ہیں ’’ممکن میں یہ قدرت کہاں جو مصطفی میں قدرت ہے۔

ممکن میں یہ قدرت کہاں، واجب میں عبدیت کہاں

حیرت نے جھنجھلا کر کہا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

ارے، حضور کی قدرتوں کا کون انکار کر سکتا ہے۔ اگر مدینہ میں بیٹھے ہوئے جنت کے انگوروں کے خوشے چاہیں تو ہاتھ بڑھا کر لے لیں۔ ممکن میں یہ قدرت کہاں جو مصطفی میں قدرت ہے۔

ممکن محض بھی نہیں واجب محض بھی نہیں۔ ممکن ہے مگر واجب محال ہے۔ یہ بھی نہیں، وہ بھی نہیں