صالحہ عابد حسین
صالحہ عابد حسین | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 18 اگست 1913 پانی پت، برطانوی ہند |
وفات | 8 جنوری 1988 (75 سال) نئی دہلی، دہلی |
شہریت | ![]() ![]() ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | بچوں کی ادیبہ، ناول نگار، افسانہ نگار، سفرنامہ نگار |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
اعزازات | |
![]() | |
درستی - ترمیم ![]() |
صالحہ عابدہ حسین (پیدائش: 18 اگست، 1913ء - وفات: 8 جنوری، 1988ء) اردو زبان کی مشہور و معروف بھارتی مصنفہ، ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈراما نویس تھیں۔ وہ خواجہ غلام الثقلین کی بیٹی اور نامور شاعر خواجہ الطاف حسین حالی کی نواسی تھیں۔ ان کی شہرت ناول نگار کی ہے، انہوں نے آٹھ ناول لکھے۔ دو جلدوں میں انیس کے مرثیے ترتیب دینے کے علاوہ بچوں کے لیے بھی بہت سی کتابیں تحریر کیں۔ انہوں نے سفرنامہ، ڈراما اور افسانے نگاری کی صنف پر بھی طبع آزمائی کی۔ انہیں ادب اور تعلیم کے شعبے میں پدم شری اعزازدیا گیا۔
حالات زندگی[ترمیم]
صالحہ عابدہ حسین 18 اگست 1913ء کو پانی پت، ہریانہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔[2][3] کا اصلی نام مصداق فاطمہ اور قلمی نام صالحہ تھا۔ والد کے انتقال کے بعد پرورش اور تعلیم کا بوجھ والدہ مشتاق فاطمہ اور چچا غلام الحسنین نے اٹھایا۔ انہوں نے علی گڑھ، پانی پت اور پنجاب میں تعلیم حاصل کی۔ ادیب فاضل اور میٹرک کا امتحان کامیابی سے پاس کیا۔ چونکہ انہیں گھر میں علمی ماحول ملا تھا، اس لیے بچپن سے ہی لکھنا شروع کیا تھا۔ دس سال کی عمر سے انہوں نے لکھنا شروع کیا۔ 17 اپریل 1933ء کو ان کی شادی ڈاکٹر سید عابد حسین سے ہوئی۔ صالحہ عابد حسین نے آٹھ ناول ناول لکھے، جن میں عذرا (1941ء)، آتش خاموش (1953ء)، راہ عمل (1963ء)، قطرہ سے گہر ہونے تک (1957ء)، یادوں کے چراغ (1966ء)، اپنی اپنی صلیب (1972ء)، الجھی ڈور (1972ء)، گوری سوئے سیج پر (1978ء) اور ساتواں آنگن (1984ء) شامل ہیں۔ ان کے افسانوں کے مجموعوں میں نراس میں آس (1968ء)، درد و درماں (1977ء)، تین چہرے تین آوازیں اور (1986ء)، ساز ہستی، نونگے (1959ء)، ڈراموں کے مجموعوں میں ساز ہستی (1940ء، عفت (1946ء)، زندگی کے کھیل (1963ء، ناشر آئینۂ ادب لاہور) شامل ہیں۔ نقشِ اول (1939ء) کے نام سے کہانیوں اور ڈراموں کا مجموعہ شامل ہے۔ صالحہ عبد حسین نے انیس کے مرثیے (جلد اول 1977ء، جلد سدوم 1980ء) دو جلدوں میں مرتب کیے۔ ان کے علاوہ سلک گوہر مذہبی مضامین کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے بچوں کے لیے بھی بہت ی کتابیں لکھیں، جن میں حالی (1983ء)، بڑا مزا اس ملاپ میں ہے، امتحان (1952ء)، بنیادی حق (ڈرامے) وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے بہت سی کتابوں کے تراجم بھی کیے۔ ان کے کیے گئے تراجم میں کثرت میں وحدت (از گاندھی)، باپو (بچوں کے لیے، 1968ء)، مجمدار: بڑا پاپی (بچوں کے لیے، 1971ء) شامل ہیں۔ رہِ نوردِ شوق (1979ء، ناشر: لبرٹی آرٹ پریس دہلی) اور سفر زندگی کے ییے سوز و ساز (1982ء) بھی تحریر کیا۔[2] سلسلہ روز و شب کے نام سے آپ بیتی بھی لکھی جسے اردو کی بہترین آپ بیتیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ آپ بیتی ان کی وفات سے چار سال قبل شائع ہوئی۔
اعزازات[ترمیم]
صالحہ عابدہ حسین کی ادبی خدمات کے صلے میں حکومت بھارت نے 1983ء میں پدم شری اعزاز سے نوازا۔ 1987ء میں غالب اکیڈمی دہلی نے انہیں غالب ایوارڈ دیا۔
وفات[ترمیم]
صالحہ عابدہ حسین 8 جنوری 1988ء کو نئی دہلی، بھارت میں انتقال کر گئیں۔[2][3]
بیرونی روابط[ترمیم]
حوالہ جات[ترمیم]
- ↑ BnF catalogue général — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2017 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — ناشر: فرانس کا قومی کتب خانہ
- ^ ا ب پ جامع اردو انسائیکلوپیڈیا (جلد اول) ادبیات، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، 2003ء، صفحہ 357
- ^ ا ب صالحہ عابدہ حسین، بائیو ببلوگرافی ڈاٹ کام، پاکستان
- 1913ء کی پیدائشیں
- 18 اگست کی پیدائشیں
- 1988ء کی وفیات
- 8 جنوری کی وفیات
- نئی دہلی میں وفات پانے والی شخصیات
- دہلی میں وفات پانے والی شخصیات
- ادب اور تعلیم کے شعبے میں پدم شری وصول کنندگان
- پانی پت کی شخصیات
- بیسویں صدی کے ہندوستانی ناول نگار
- بیسویں صدی کی بھارتی مصنفات
- بھارت کے اردو مصنفین
- بھارتی بچوں کے مصنفین
- بھارتی خواتین ناول نگار
- بھارتی مسلم شخصیات
- دہلی کی مصنفات
- دہلی کے ناول نگار
- بھارتی مصنفین کے نامکمل مضامین
- بیسویں صدی کے بھارتی مصنفین