صدیق فتح پوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
صدیق فتح پوری
Sadiq-Fatehpuri.jpg

معلومات شخصیت
پیدائش 1 نومبر 1936  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گیا،  بہار،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 19 مئی 2018 (82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی،  پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت British Raj Red Ensign.svg برطانوی ہند
Flag of Pakistan.svg پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
P literature.svg باب ادب

صدیق فتح پوری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کےممتاز شاعر تھے۔ وہ یکم نومبر 1936ء کو فتح پور،گیا ضلع، بہار، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے گاؤں فتح پور کے مدرسہ سے قرآن پاک ناظرہ کیا اور اردو کی پہلی اوور دوسری کتابیں پڑھیں۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ انہوں نے غزل، نظم، حمد، نعت اور دیگر اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی۔ ان کی کتابوں میں اظہارِ عقیدت (نعتیہ مجموعہ، 1987ءلمحوں کی دھوپ (غزلیں، 1993ءسجدہ گاہِ دل (نعتیہ مجموعہ، 1997ءسائے سائے دھوپ (غزلیں، 1999ءصدا کیسی ہے (غزلیں، 2006ءکارِ شیشہ گری (غزلیں و نظمیں، 2010ء) شائع ہو چکی ہیں۔[1] صدیق فتح پوری 19 مئی 2018ء کو کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔

نمونۂ کلام[ترمیم]

نعت

نگاہِ احمدِ مختار ہے تو سب کچھ ہےعنایتِ شہِ ابرار ہے تو سب کچھ ہے
ہے ہیچ سارے زمانے میں قصرِ سلطانینظر میں آپ کا دربار ہے تو سب کچھ ہے
نبی کے اسوۂ طیب پہ گامزن رہیےعمل کا سامنے معیار ہے تو سب کچھ ہے
ہر ایک مرحلۂ زیست پر عمل کے لیےنبی کا سامنے کردار ہے تو سب کچھ ہے
خیالِ کعبہ و بطحا میں زندگی گزرےرہِ وفا کا طلب گار ہے تو سب کچھ ہے
نظر کا چین، دلون کا وقار بھے صدیق!’’اگر عنایتِ سرکار ہے تو سب کچھ ہے“[2]

غزل

طلسم ذات سے باہر نکلیےنظر کے گھات سے باہر نکلیے
اُجالے جانے کب سے منتظر ہیںاندھیری رات سے باہر نکلیے
تصور سے فقط ہوتا نہیں کچھہوائی بات سے باہر نکلیے
ہیں انساں کے لئے یہ سمِ قاتلبری عادات سے باہر نکلیے
ندی نالے سبھی اُمڈے ہوئے ہیںبھری برسات سے باہر نکلیے
کہیں گم ہو نہ جائیں آپ اُس میںہجومِ ذات سے باہر نکلیے
عذابِ جاں ہے ناکردہ گناہیان الزامات سے باہر نکلیے
اصول زندگی بدلا ہوا ہےحسیں لمحات سے باہر نکلیے
بدل جائیں گے روز و شب بھی صدیقحصارِ ذات سے باہر نکلیے[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 334
  2. کراچی کا دبستان نعت، ص 335
  3. صدیق فتح پوری (7 ستمبر 2020ء). "طلسم ذات سے باہر نکلیے". الف یار ڈاٹ کام.