ضمیر نیازی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ضمیر نیازی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1932ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 2004ء (71–72 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ صحافی،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ضمیر نیازی

ولادت[ترمیم]

ضمیر نیازی کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا اور وہ 8 مارچ 1927ء کو بمبئی میں پیدا ہوئے تھے۔

عملی زندگی[ترمیم]

وہ تحریک آزادی کے ایک پرجوش کارکن تھے اور انھوں نے 1942ء میں ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور صحافت کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے جہاں انھوں نے روزنامہ ڈان سے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ 1965ء میں وہ روزنامہ بزنس ریکارڈر سے منسلک ہوئے اور پھر اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی اخبار سے وابستہ رہے۔

ضمیر نیازی نے 1986ء میں پریس ان چینز کے نام سے پاکستانی صحافت پر گزرنے والی پابندیوں کی داستان تحریر کی۔ یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور اس کے متعدد ایڈیشن اور تراجم شائع ہوئے۔ اس کے بعد جناب ضمیر نیازی نے 1992ء میں پریس انڈر سیج اور 1994ء میں ویب آف سینسر شپ کے نام سے مزید دو کتابیں تحریر کیں جن میں صحافت پر حکومتی اور مختلف تنظیموں کے دباﺅ اور پاکستان میں سنسر شپ کی تاریخ رقم کی گئی تھی۔ ان کی دیگر تصانیف میں باغبان صحرا ، انگلیاں فگار اپنی، حکایات خونچکاں اور پاکستان کے ایٹمی دھماکے کے رد عمل میں لکھی گئی

تحریروں کا انتخاب زمین کا نوحہ شامل یں۔1994ء میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا جسے اگلے برس کراچی کے چھ اخبارات پر پابندی عائد ہونے کے بعد انھوں نے احتجاجاً واپس کر دیا تھا۔ انھیں جامعہ کراچی نے بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کرنے کا اعلان کیا تھا مگر انھوں نے اسے قبول کرنے کے لیے گورنر ہاﺅس جانے سے انکار کر دیا تھا۔

انھوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز ممبئی سے نکلنے والے اخبار انقلاب سے کیا۔ انیس سو تریپن میں ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ پاکستان میں انھوں نے کراچی سے نکلنے والے شام کے اخبار ’نئی روشنی‘ سے آغاز کیا مگر جلد ہی پاکستان پریس انٹرنیشنل میں چلے گئے۔

ضمیر صاحب بعد میں ڈان اخبار سے منسلک ہو گئے۔ 1990ء میں اخبار بزنس ریکارڈر سے انھوں نے اپنی عملی صحافتی زندگی کو خیر آباد کہا اور کتابیں لکھنے اور تحقیقی کاموں میں مصروف ہو گئے۔

ضمیر نیازی پاکستانی میڈیا کی تاریخ لکھنے والے پہلے صحافی ہیں۔ انھوں نے پاکستانی صحافت کی تاریخ مرتب کی اور اس حوالے سے کئی کتابیں لکھی۔ ان کی مشہور کتابوں میں ’پریس ان چینز‘، ’پریس انڈر سیج‘ اور ’ویب آف سنسر شپ‘ شامل ہیں۔

یہ کتابیں پاکستانی صحافت میں دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ صحافت کے طالب علموں میں بھی بہت اہم سمجھی جاتی ہیں۔

جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ان کی کتاب ’پریس ان چینز‘ پر پابندی لگا دی گئی۔

بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں جب شام کے چھ اخبارات پر پابندی لگائی گئی تو ضمیر صاحب نے احتجاجاً صدر فاروق لغاری کی جانب سے دیا جانے والا ایوارڈ برائے حسن کارکردگی واپس کر دیا ۔

وفات[ترمیم]

ضمیر نیازی 11 جون 2004ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور ابو الحسن اصفہانی روڈ پر واقع قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

حوالہ جات[ترمیم]

حوالہ جات

  1. Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 4 مئی 2020