طبیعیات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(طبیعیاتی سے رجوع مکرر)
طبیعیات کے مظاہر کی مختلف مثالیں۔

طبیعیات قدرتی سائنس کی وہ شاخ ہے جس میں مادہ، ان کے بنیادی ذرات، زمان و مکاں میں ان کی حرکت اور رویوں اور توانائی اور قوت سے متعلق چیزوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ طبیعیات کو پیمائش کی سائنس بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ہر شے کے فاصلے، کمیت اور وقت کی بنیادی پیمائشوں کے مطالعے کا علم بھی ہے۔ طبیعیات سب سے اہم سائنسی مضامین میں سے ایک ہے، جہاں اس کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ کائنات کام کیسے کرتی ہے۔ ایک سائنس دان جو طبیعیات کے شعبہ میں مہارت رکھتا ہو اسے طبیعیات دان کہتے ہیں۔

طبیعیات ایک قدیم تدریسی مضمون ہے اور اس میں فلکیات کو شامل کرنے سے شاید قدیم ترین۔ پچھلے دو ہزار سالوں سے طبیعیات، کیمیا، حیاتیات اور ریاضی کے کچھ شاخیں قدرتی فلسفے کا حصہ تھی، لیکن سترہویں صدی میں سائنسی انقلاب کے بعد قدرتی علوم اپنے حساب سے انوکھی تحقیقی کاوشوں کی صورت میں ابھرے۔ طبیعیات تحقیق کے بہت سارے بین الاختصاصاتی میدانوں سے ملتی ہے، جیسے کہ حیاتی طبیعیات اور مقداریہ کیمیا اور طبیعیات کے حدود کو سختی سے وضع نہیں کیا گیا۔ طبیعیات میں نئے خیالات عموماً دیگر علوم سے مطالعہ شدہ طریقہ کار کو بیان کرتا ہے اور ان اور دیگر درسی علوم میں تحقیق کے نئے راستے تجویز کرتا ہے، جیسے کہ ریاضی اور فلسفہ۔

طبیعیات میں ترقی عموماً نئی ٹیکنالوجی کو ممکن بناتی ہے۔ مثلاً برقی مقناطیسیت، ٹھوس حالت اور جوہری طبعیات کی سمجھ میں بہتری براہ راست نئے مصنوعات کی تشکیل کا باعث بنی جس سے جدید دور کا معاشرہ تیزی سے بدلا ہے۔ جیسے کہ ٹی وی، کمپیوٹر، گھریلو آلات اور جوہری ہتھیار؛ حرحرکیات میں بہتری صنعت کاری کی ترقی کا باعث بنی؛ اور میکانیات میں بہتری پر احصا کی ترقی نے اثر ڈالا۔

تاریخ[ترمیم]

قدیم فلکیات[ترمیم]

فلکیات قدیم ترین قدرتی سائنسوں میں سے ایک ہے۔ 3000 قبل مسیح سے بھی پہلے کے ابتدائی تہذیبیں، جیسے کہ سمیریوں، قدیم مصریوں، وادیٔ سندھ کی تہذیب، کے پاس سورج، چاند اور ستاروں کی ایک پیشگویانہ علم اور ایک بنیادی آگاہی تھی۔ ستاروں اور سیاروں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ دیوتاؤں کی نمائندگی کرتے ہیں، اکثر پوجی کی جاتی تھی۔ اگرچہ ستاروں کے مشاہدہ شدہ مقامات کی وضاحتیں اکثر غیر سائنسی تھیں اور ان میں شواہد کی کمی تھی، لیکن ان ابتدائی مشاہدات نے بعد میں فلکیات کی بنیاد ڈالی، کیونکہ ستارے کو عظیم دائروں کے موازی آسمان سے گزرتے پائے گئے تھے، جو سیاروں کے مقامات کو واضع نہ کرسکے۔

ایسگر آبوئی کے مطابق، مغریبی فلکیات کا آغاز بین النہرین، بالکل درست سائنسوں میں تمام مغریبی کاوشیں بین النہرین فلکیات کی تاریخ کے آخری دور سے نکلے تھے۔ مصری فلکیات دانوں نے ستاروں کے جھرمٹوں اور آسمانی اجسام کی حرکات کا علم ظاہر کرنے والی یادگاری عمارتیں چھوڑیں ہیں، جب کہ یونانی شاعر ہومر نے اپنی ایلیاڈ اور اوڈیسی میں مختلف آسمانی اشیاء کے بارے میں لکھا ہے۔ بعد میں یونانی فلکیات دانوں نے شمالی نصف کرہ سے نظر آنے والے بیشتر ستاروں کے جھرمٹوں کے لیے نام فراہم کیے، جو آج بھی استعمال ہوتے ہیں۔

قدرتی فلسفہ[ترمیم]

قدرتی فلسفے کی ابتدا یونان میں قدیم دور (650 قبل مسیح - 480 قبل مسیح) کے دوران میں ہوئی، جب تھیلز جیسے سقراط سے پہلے کے فلسفیوں نے قدرتی مظاہر کے لیے غیر قدرتی وضاحتوں کو مسترد کر دیا اور اعلان کیا کہ ہر واقعے کی ایک فطری وجہ ہوتی ہے۔ انھوں نے دلیل اور مشاہدے سے تصدیق شدہ نظریات تجویز کیے اور ان کے بہت سے مفروضے تجربے میں کامیاب ثابت ہوئے۔ مثال کے طور پر جوہریت کو لیوسیپس اور اس کے شاگرد دیموقراطیس کے تجاویز کردہ نظریہ تقریباً 2000 سال بعد درست پایا گیا۔

قرون وسطی میں یورپی اور اسلامی سائنس[ترمیم]

قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں میں سے ابن سینا، الکندی، نصیر الدین طوسی اور ملا صدرا کی خدمات طبیعیات، میکانیات اور حرکیات کے فروغ میں اِبتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد اَزاں محمد ابن زکریا الرازی، البیرونی او ر ابو البرکات البغدادی نے اُسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے علمِ کائنات کو خاصا فروغ دیا۔ البیرونی نے ارسطو کے کئی طبیعیاتی نظریات کو ردّ کیا۔ البغدادی کی کتاب ’کتاب المعتبر‘ قدیم فزکس میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ حرکت اور سمتی رفتار کی نسبت البغدادی اور ملاصدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لیے بھی باعثِ حیرت ہیں۔ پھر ابن الہیثم نے علم پیمائش، کرہ ہوائی، کثافت، اوزان، سمتی رفتار، کشش ثقل اور زمان و مکاں جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت بنیادی مواد فراہم کر کے علمِ طبیعیات کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ اِسی طرح میکانیات اور حرکیات کے باب میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سراَنجام دیں۔ ابنُ الہیثم کی کتاب کتابُ المناظر نے اِس میدان میں گرانقدر علم کا اِضافہ کیا۔ ابنِ باجّہ نے بھی حرکیات میں نمایاں علمی خدمات اِنجام دیں۔ انھوں نے ارسطو کے نظریۂ رفتار کو ردّ کیا۔ اِسی طرح ابنِ رشد نے بھی اِس علم کو ترقی دی۔ اِن مسلم سائنسدانوں نے گلیلیو سے بھی پہلے قوتِ ثقل کی خبر دِی مگر اُن کا تصوّر دورِ حاضر کے تصوّر سے قدرے مختلف تھا۔ اِسی طرح معیار حرکت کا تصوّر بھی اِسلامی سائنس کے زرِیعے مغربی دُنیا میں متعارف ہوا۔ ثابت بن قرہ نے لیور/بیرم پر پوری کتاب لکھی، جسے مغربی تاریخ میں لبر کراٹونس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بغداد کے دِیگر مسلم سائنسدانوں نے تاریخ کے کئی میکانکی آلات اور پرزہ جات وغیرہ پر بہت زیادہ سائنسی مواد فراہم کیا۔ علم بصریات کے میدان میں تو اِسلامی سائنسی تاریخ کو غیر معمولی عظمت حاصل ہے۔ بقول پروفیسر آرنلڈ اِس میدان میں چوتھی صدی ہجری کے ابنُ الہیثم اور کمال الدین محمد الفارسی کی سائنسی خدمات نے پچھلے نامور سائنسدانوں کے علم کے چراغ بجھادیئے۔ ابنُ الہیثم کی معرکۃُ الآراء کتاب آن آپٹکس آج اپنے لاطینی ترجمہ کے زرِیعے زندہ ہے۔ انھوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ عدسہ کی مکبر طاقت (Magnifying Power) کو دریافت کیا اور اِس تحقیق نے مکبر عدسہ کے نظریہ کو اِنسان کے قریب تر کر دیا۔ ابنُ الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ بصارت کو ردّ کر کے دُنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے رُوشناس کرایا اور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اَجسام کی طرف سے آتی ہیں۔ انھوں نے پردۂ بصارت کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث کی اور اُس کا عصبِ بصری اور دِماغ کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔ الغرض ابنُ الہیثم نے بصریات کی دُنیا میں اِس قدر تحقیقی پیش رفت کی کہ اقلیدس اور کیپلر کے درمیان میں اُس جیسا کوئی اور شخص تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وُہی جدید بصریات کے بانی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کام نے نہ صرف وٹیلو روجر بیکون اور پیکہام جیسے قدیم سائنسدانوں کو ہی متاثر کیا بلکہ دورِ جدید میں کیپلر اور نیوٹن کے کام بھی اُن سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ مزید برآں اُن کا نام روشنی، سمتی رفتار، عدسہ، فلکیاتی مشاہدات، موسمیات اور تاریک عکسالہ/کیمرا وغیرہ پر تاسیسی شان کا حامل ہے۔ اِسی طرح قطب الدین شیرازی اور القزوِینی نے بھی اِس میدان میں گرانقدر خدمات اِنجام دی ہیں۔[1]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "آرکائیو کاپی"۔ 20 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2018