طفیل فاروقی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

فلمی صنعت کے نامور موسیقار

پیدائش[ترمیم]

ان کا پورا نام محمد طفیل فاروقی تھا۔ 1918ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

ابتدائی تعلیم رنگ پورہ میں واقع ایک ہائی اسکول سے حاصل کی۔ ان کے والد اپنے دور کے معروف سرودنواز تھے، جن کا تعلق موسیقی کے ایک نامور گھرانے سے تھا۔

فنی زندگی[ترمیم]

طفیل فاروقی نے فنی کیریئر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو لاہور سے کیا۔ ریڈیو پر صدا کاری کے ساتھ وہ نغمات کی موسیقی بھی دیتے تھے۔ 1945ء میں وہ ریڈیو کو خیرباد کہہ کر فلمی دنیا سے منسلک ہو گئے۔ شکل و صورت سے بے حد وجیہہ شکل تھے۔ وہ بالکل فلم کے ہیرو معلوم ہوتے تھے۔ ان کے کئی نغمات سپر ہٹ ہوئے. ان میں "چن چن دے سامنے آگیا "بھی شامل ہے اور طفیل فاروقی کو اعزاز حاصل تھا کہ انھوں نے گلوکار محمد رفیع کو صرف ایک روپیہ معاوضہ دے کر گانا ریکارڈ کرایا تھا۔ عمران فاروقی نے زیادہ تر ریڈیو پاکستان میں اپنی خدمات پیش کیں

فلمی دنیا میں[ترمیم]

۔فلمی موسیقی کے لیے وہ بمبئی چلے گئے۔ جہاں انھیں دو فلمیں سونا چاندی اور دیکھو جی کی موسیقی مرتب کرنے کو ملیں۔ فلم ’’دیکھو جی‘‘ میں انھوں نے شمشاد بیگم کی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کروایا، جو اس زمانے میں بے حد مقبول ہوا جس کے بول تھے ’’جھمکا گرا رے بریلی کے باجار میں‘‘ یہ فلم 1947ء میں ریلیز ہوئی تھی۔اس مقبول گیت کو موسیقار مدھن موہن نے فلم ’’میرا سایہ‘‘ میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے لتا جی کی آواز میں ریکارڈ کروایا، جس کے بول یہی تھے ’’جھمکا گرا رے بریلی کے باجار میں‘‘ موسیقار منظور اشرف نے شباب کیرانوی کی فلم ماں کے آنسو میں اس دھن کو کاپی کر کے بریلی کی جگہ لفظ کراچی استعمال کیا۔قیامِ پاکستان کے بعد وہ اپنے آبائی شہر لاہور آگئے اور 1953ء تک انھوں نے کسی فلم کے لیے میوزک نہیں دیا۔ اس دوران وہ صرف لاہور ریڈیو اسٹیشن پر بہ طور موسیقار کام کرتے رہے۔ 1953ء میں انھوں نے پہلی بار پاکستانی فلم برکھا کی موسیقی سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔اس کے بعد انھوں نے جن اردو فلموں کا میوزک دیا، ان میں مجرم، نذرانہ، وحشی، کھل جا سِم سِم، مظلوم، اونچے محل، میں نے کیا جرم کیا، کون اپنا کون پرایا کے نام شامل ہیں۔ بہ طور موسیقار پہلی پنجابی فلم بودی شاہ تھی، جو 1959ء میں ریلیز ہوئی تھی۔بہروپیا، مفت بر، چوہدری، چوڑیاں، من موجی نامی پنجابی فلموں میں ان کے میوزک کو پسند کیا گیا۔ اور پھر انھوں نے پنجابی فلموں میں ہی موسیقی دی۔ ان کی موسیقی سے آراستہ دیگر پنجابی فلموں میں ماجھے دی جٹی، سورما، مقابلہ، پگڑی سنبھال جٹا، چن چودھویں دا، اوکھا جٹ، پنجھی تے پردیسی، شیراں دے پتر شیر، ویر پیارا، پتھر تے لیک، جگو، حد بندی، بہادر کسان، جوڑ جواناں دا،پٹولا، بھائی بھائی، ظلم کدی نئیں پھلتا، پیشہ ور بدمعاش، زندہ باد، امیر تے غریب اور آخری فلم کمانڈر شامل ہیں، جو 1984ء میں ریلیز ہوئی۔

علامہ اقبال کی لکھی دعا ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری‘‘ کی دھن ترتیب دی،

شادی[ترمیم]

انھوں نے اپنے دور کی مشہور گلوکارہ پکھراج پپو سے شادی کرلی۔ مگر یہ شادی زیادہ عرصے نہ چلی۔

وفات[ترمیم]

25 مارچ 1988ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے،

مزید دیکھیے[ترمیم]