عالم بی بی ٹرسٹ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

عالم بی‌بی ٹرسٹ ایک خود مختار غیر سیاسی سرکاری تنظیم ہے۔ جو افلاس کا شکار علاقوں میں مفت تعلیم، کھانا اور صحت سہولیات فراہم کرنے کا رفاہی کام کرتی ہے۔ تنظیم کا کام پنجاب (پاکستان) کے دو مختلف علاقوں چونگی امرسدھو، کوٹ لکھپت (لاہور) اور مریدکے (ضلع گوجرانوالہ) کی پسماندہ آبادیوں پر مبنی ہے۔ تنظیم کے زیر انتظام مختلف تعلیمی امدادی پروگراموں کے حامل 3 اسکول کیمپس اپنا کام کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک رعایت دادہ فوڈ شاپ غربت کا شکار لوگوں میں کھانا تقسیم کرتی ہے، جبکہ ایک کلینک صحت سہولیات فراہم کرتی ہے۔

پس منظر اور تاریخ[ترمیم]

تنظیم کی بنیاد 2005ء میں ڈاکٹر فرح دیبا اکرم نے رکھی۔ تنظیم کی تاسیس کی کہانی یوں ہے کہ اس کی بنیادگزار، ایک ابھرتی ہوئی نوجوان مصنفہ لاہور کے افلاس زدہ نواحات میں اپنے مشاہدات کے سفر میں گھوم پھر رہی ہے۔ جس کے پاس بستے میں کچھ شیرینی ہے، جسے وہ چلتے چلتے گلی کے آوارہ بچوں میں بانٹ رہی ہے۔ انہی میں سے ایک بوسیدہ اور ناکافی سے کپڑوں میں ملبوس ایک بچہ اس سے کینڈی قبول کرنے کی بجائے اس کے ہاتھ میں کاپی قلم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ بچے کے اس مطالبے کو گلی کے آوارہ بچوں میں تعلیم کی خواہش پر محمول کرتی ہے اور یہ تاویل اس کی اور اہل علاقہ کی زندگیوں کا ایک یادگار موڑ بن جاتی ہے۔ فرح اس واقعہ سے متاثر ہو کر ان بچوں کو ایک درخت کے نیچے اکٹھا کر کے انھیں لکھنے پڑھنے کی مبادیات بتانے لگتی ہیں۔ وہ طلبہ کو ٹیوشن پڑھانے اور اپنے والد سے ملے جیب خرچ کو جمع کر کے علاقہ میں ایک مکان کرائے پر لے کر ساٹھ بچوں کو مکان میں باقاعدہ تعلیم دینے لگتی ہیں۔ بچوں کی اس تعداد کو جمع کرنے کے لیے فرح نے گھر گھر جا کر مہم چلائی، جسے ان پڑھ والدین کی طرف سے مزاحمت کا سامنا بھی رہا۔ لیکن فرح کے دوستوں کی حمایت کےذریعے اس نئے اسکول نے اپنی سرگرمی جاری رکھی۔ 2008ء میں ملک کے معروف شاعر، کالم نگار اور سماجی کارکن منو بھائی اس اسکول کا ذکر سن کر وہاں آ پہنچے اور اسکول کی سرگرمیوں کو دیکھ کر اس کے متعلق ایک کالم 'نِکی جئی کُڑی' (چھوٹی سی لڑکی) لکھ کر شائع کیا، جس سے یہ کاوش ملکی سطح پر لوگوں کی توجہ میں آ گئی۔ اس سے اسکول کواس قدر عطیات ملنے لگے کہ وہ اسکول کی مہتمم واحد استانی کے اپنے جیب خرچ کے انحصار سے نکل آیا۔ اسکول کا نام اس کی بنیاد گزار نے اپنی دادی کے نام پر 'عالم بی‌بی تعلیم و تربیت' اسکول رکھا، تاکہ گذشتہ نسل سے ملنے والے قیمتی اسباق و تجربات کی یاد کو زندہ رکھا جا سکے۔ اس آبادی میں تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات کی رفاہی فراہمی کے لیے کام کرنے کے لیے کی گئی ادارہ بندی کو اسی مناسبت سے عالم بی‌بی ٹرسٹ کا نام ملا۔ اس وقت اسکول کے تین مختلف کیمپسز میں 1000 سے زائد طلبہ مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اہلِ علاقہ کی پسماندہ زندگیوں کے معیار میں مزید بہتری کے لیے 2010ء میں ایک رعایت دادہ فوڈشاپ قائم کی گئی، جس سے 10 پاکستانی روپے کی آسان ادا پرچی پر کم آمدنی کے 300 سے زائد محنت کشوں اور مستحقین کو صاف و صحتمند کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ اس سے درجن بھر مستحق گھرانوں کو ان کے گھر کی دہلیز پر مہینے بھر کا راشن بھی بہم پہنچایا جاتا ہے۔ 2012ء میں تنظیم نے ایک صحت پروگرام کا آغاز کیا جس کے تحت ایک رعایت دادہ طبی کلینک متعلقہ آبادی میں 50 پاکستانی روپے کی آسان ادا پرچی کے عوض مکمل طبی معائنے کی سہولت بہم پہنچاتی ہے اور مفت ادویات کی فراہمی کے علاوہ مزید علاج کے لیے مالی معاونت بھی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ تنظیم تعلیم، ذریعۂ معاش اور شادی وغیرہ کے اخراجات میں مدد کے لیے بلاسود قرضہ جات بھی آسان اقساط پر دیتی ہے۔

تنظیم کے رفاہی کام میں مزید توسیع 2020ء میں ہوئی جب ضلع گوجرانوالہ کے علاقہ مریدکے میں چاول کی صنعت سے وابستہ ایک مزدور بستی میں ایک چاول کے ایک مخیر صنعتکار کے تعاون سے عالم بی‌بی اسکول کی ایک اور شاخ قائم ہوئی، جس میں اس وقت 300 کے قریب طلبہ و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔

تعلیمی ماڈل[ترمیم]

انجمن کے رفاہی کام کے علاقوں میں سب سے محروم گھرانوں کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ تنظیم کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں تمام طلبہ کو مفت تعلیم کے ساتھ ساتھ کتابیں، وردی، بستے اور دیگر تعلیمی سامان و سہولیات بھی بلامعاوضہ فراہم کی جاتی ہیں۔ ان اسکولوں میں بچوں کو ثانوی سطح کی تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ مزید تعلیم کے لیے مابعد ثانوی تعلیم کا ایک پروگرام کام کر رہا ہے، جس کے تحت فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کو دیگر تعلیمی اداروں میں رسمی یا تکنیکی تعلیم جاری رکھنے کے لیے مکمل رہنمائی اور مشاورت فراہم کی جاتی ہے۔ خصوصی طلبہ و طالبات کے لیے شروع کیے گئے پروگرام برائے ہم‌قدمی تعلیم میں 35 طلبہ و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ اساتذہ کو وقتاً فوقتاً نئے تدریسی رجحانات سے ہمکنار رکھنے کے لیے تدریسی تعمیر و تشکیل کے پروگرام کے تحت تدریسی تربیت کا بھی باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسکول میں تمام اساتذہ کا تعلق اسی علاقہ سے ہے جہاں تنظیم کا رفاہی کام مرکوز ہے۔

پزیرائی[ترمیم]

انجمن کے زیرِ انتظام اسکول کو 2008ء میں اس وقت قومی سطح کی توجہ ملی جب ممتاز شاعر و کالم نگار منو بھائی نے اسکول کا دورہ کیا اور اس کے متعلق ایک کالم تحریر کیا۔ اس پیغام کی اشاعت سے ایک مخیر خاتون نے ایک قطعۂ اراضی اسکول کو عطیہ کیا اور دیگر عطیات کی بدولت اسکول اپنی بنیادگزار کے اپنے جیب خرچ کے انحصار سے نکل آیا۔ اب تک انجمن کے کام کو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کی تائید اور حمایت مل چکی ہے، نیز ملکی و بین‌الاقوامی سطح پر میڈیا اداروں میں اس کی تائید اور حمایت کا اعلان کیا جا چکا ہے۔

بیرونی روابط[ترمیم]