عالم لاہوت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

عالم لاہوت ملاء اعلیٰ جس کا تعلق عالم غیب سے ہے جہاں نہ زمین و زماں کا گذر اور نہ مکین و مکاں کا ‘ جہاں سب کچھ ہے لیکن مادیت سے بالاتر اور وراء الوراء ہے اس کا نام ” عالم لاہوت “ ہے
عالم ذات الٰہی جس مین سالک کو فنا فی اللہ کا درجہ حاصل ہو تا ہے اس کا برداشت کرنا بہت ہی مشکل ہے اور یہ قلب جاری ہونے کے بعد ملتا ہے[1] عالَم علم سے ہے جس کے معنیٰ ہیں نشان۔ چونکہ عالم کا زرّہ زرّہ اﷲ کے وجود کی نشانی ہے ہر چیز اﷲ کے وجود پر دلالت کرتی ہے اس لیے اس کو عالم کہا جاتا ہے کیونکہ مخلوقات کی ہر جنس کا الگ الگ عالَم ہے جیسے عالَمِ انسان، عالَمِ جنات، عالَمِ نباتات، عالَمِ جمادات، عالَمِ ناسوت، عالَمِ لاہوت، عالَمِ ملکوت اور عالَمِ جبروت وغیرہ ہزاروں عالم ہیں اور سارے عالموں کا پالنے والا اﷲ ہے۔ اصطلاح تصوف چار عالم بیان کیے جاتے ہیں:

عالم لاہوت بے ﻧﺸﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻗﻄﻊ ﺗﻌﻠﻖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ اس کا تعلق عالم امر سے ہے ﺍﺳﯽ ﮐﻮ ﻻﻣﮑﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﻧﮧ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺟﺴﺘﺠﻮ ۔۔۔۔۔۔ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺍﻟﮩﯽ ﮨﮯ وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰى: اور یہ کہ بے شک تمھارے رب ہی کی طرف انتہا ہے(الطور 42) ! ﻋﺎﻟﻢ ﻧﺎﺳﻮﺕ ﻧﻔﺲ ﮐﯽ ﺻﻔﺖ ﮨﮯ ۔ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﻠﮑﻮﺕ ﻭﻟﯽ ﮐﯽ ﺻﻔﺖ ۔ ﻋﺎﻟﻢ ﺟﺒﺮﻭﺕ ﺭﻭﺡ ﮐﯽ ﺻﻔﺖ ۔ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻟﻢ ﻻﮬﻮﺕ ﺭﺣﻤﻦ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺻﻔﺖ ﮨﮯ ۔ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺣﺎﻝ ﻭ ﻣﻘﺎﻡ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﺻﻔﺖ ﮨﮯ ۔ ﻧﻔﺲ ﺍﺱ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺎﺋﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﮨﮯ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻝ ﺑﮩﺸﺖ ﺟﺎﻭﺩﺍﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺎﺋﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺭﻭﺡ ﺭﺣﻤﺎن ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺷﯿﺪہ ﺍﺳﺮﺍﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺎﺋﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ۔ ﺟﻮ ﻧﻔﺲ ﮐﯽ ﻣﺘﺎﺑﻌﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭہ ﺩﻭﺯﺥ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺗﺎﺑﻊ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭہ ﺟﻨﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺭﻭﺡ ﮐﯽ ﻣﺘﺎﺑﻌﺖ ﺳﮯ ﻗﺮﺏ ﺍﻟﮩﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. فرہنگ اصطلاحات تصوف،صفحہ 148،غازی عبد الکبیر منصورپوری،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور
  2. ﻣﻔﺘﺎﺡ ﺍﻟﻌﺎﺷﻘﯿﻦ ۔ ﻣﻠﻔﻮﻇﺎﺕ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﭼﺮﺍﻍ ﺩﮨﻠﻮﯼصفحہ 10،اکبر بک سیلر لاہور