عباسہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عباسہ بنت المہدی باللہ
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 154ھ کوفہ
تاریخ وفات نامعلوم
قومیت خلافت عباسیہ
مذہب اسلام
شریک حیات محمد بن سلیمان بن علی، ابراہیم بن صالح بن علی
والد المہدی باللہ
والدہ ام ولد
بہن/بھائی
بھائی موسیٰ الہادی، ہارون الرشید
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عباسہ تیسرے عباسی خلیفہ المہدی باللہ اور ام ولد کے بیٹے تھے۔ عباسہ ماں کی طرف سے اکلوتی اولاد تھے۔

بہن بھائی[ترمیم]

عباسہ کے بھائیوں میں موسی الہدی، مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید، علی بن المہدی باللہ، عبیداللہ بن المہدی باللہ، یعقوب بن المہدی باللہ، اسحاق بن المہدی باللہ اور ابراہیم بن المہدی باللہ تھے اور بہنوں میں بانوقہ، عالیہ، منصورا اور سلیمہ شامل تھیں۔ [1]

ابتدائی حالات[ترمیم]

پیدائش[ترمیم]

عباسہ کی پیدائش 154ھ میں کوفہ میں ہوئی۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

عباسہ کی تعلیم و تربیت اعلیٰ پیمانے پر ہوئی۔ عباسہ نے اس درجہ تجبر حاصل کر لیا تھا کہ آپ قرآن پاک کی تفسیر اور شرح ایسی عمدگی سے کرتی تھیں کہ بڑے بڑے علما حیران رہ جاتے تھے۔ عباسہ قرآن پاک کی تلاوت بھی نہایت سوز اور خوش الحانی سے کرتی تھیں۔ آپ شعر و شاعری میں بھی شوق رکھتی تھیں۔

ازواجی زندگی[ترمیم]

عباسہ کی پہلی شادی محمد بن سلیمان بن علی عباسی سے بعہد خلیفہ ہارون الرشید ہوئی۔ ہارون الرشید نے عباسہ کے شوہر کو بصرہ، بحرین، فارس، اہواز، عمان اور یمامہ کا حاکم (گورنر) بنایا تھا۔ عباسہ کے پہلے شوہر کی وفات 172ھ میں بمقام بصرہ ہوئی۔ عباسہ کے پہلے شوہر سے کوئی اولاد نہیں تھی۔ پہلے شوہر کی وفات کے بعد ہارون الرشید نے عباسہ کا دوسرا نکاح ابراہیم بن صالح بن علی سے کر دیا وہ بھی کچھ عرصہ بعد وفات پا گئے۔

ہارون الرشید کے ساتھ تعلق[ترمیم]

ہارون الرشید اپنی لائق بہن سے اس کے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ موسی الہادی نے اپنے نابالغ بیٹے جعفر کو ولی عہد بنانا چاہا حالانکہ المہدی باللہ کی وصیت کے مطابق موسی الہادی کے بعد مسند خلافت پر ہارون الرشید کا حق تھا۔ یہ بات دونوں بھائیوں میں سخت کشیدگی کا باعث بن سکتی تھی لیکن عباسہ نے موسی الہادی کو ایسے احسن طریقے سے سمجھایا کہ وہ اپنے ارادے سے باز آ گیا اور جب اس کی 170ھ میں وفات ہوئی تو ہارون الرشید بغیر کسی نزاع کے مسند خلافت پر بیٹھ گئے۔ ہارون الرشید کے دل میں عباسہ کی بڑی قدر تھی اور جو اس نے ہارون الرشید کو خلیفہ بنانے کے لیے خدمات سر انجام دیں ہارون الرشید نے انھیں ہمیشہ یاد رکھا۔

وفات[ترمیم]

آپ کی وفات کے متعلق کسی مصنف نے کچھ بھی نہیں لکھا کہ آپ کی وفات کب ہوئی تھی۔

اوصاف[ترمیم]

عباسہ حسن صورت، ذہانت، سلیقہ شعاری اور معاملہ فہمی جیسے خاص اوصاف کی مالک تھیں۔ [2]

غلط فہمی کا ازالہ[ترمیم]

عباسہ کے متعلق ایک غلط واقعہ مشہور ہے جس کی شہرت اردو زبان میں بھی ناول اور رسائل کے ذریعے ہوئی اس کا ماخذ تاریخ کبیر مولف ابو جعفر محمد بن جریر طبری المتوفی 310ھ ہیں۔ اس وقت سے لے کر آج تک برابر مورخین ایک دوسرے سے اس واقعہ کو نقل کرتے چلے آتے ہیں لیکن کسی نے اس کی تنقید و تحقیق کی طرف توجہ نہیں دی۔ علامہ طبری نے جن الفاظ سے اس واقعہ کی روایت کی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو خود اس روایت پر یقین نہیں تھا۔ وہ لکھتے ہیں قد خدشی احمد بن زھیر احسہ عن عنہ زاھر بن حرب ان سب ہلاک جعفر وابرامکۃ ان الرشید کان لا یصبر عن جعفر وعن اختہ عباسہ بنت المہدی وکان یحضر ھما اذا جلس للشراب فقال لجعفر ازوجکھا لیحن لک النظر ولا یکون منھا شے سما یکون للرجال الی زوجنہ فروجھا منہ علی ذلک۔

  • ترجمہ: مجھ سے احمد بن زہیر نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت اس نے اپنے چچا زاہر بن حرب سے کی ہے کہ سبب ہلاکت جعفر اور برامکہ کا یہ ہے کہ رشید کو بغیر جعفر اور برامکہ اور اپنی بہن عباسہ بنت المہدی کے ایک ساعت صبر نہیں آتا تھا اور یہ دونوں شراب نوشی کے جلسہ میں شریک ہوا کرتے تھے اس لیے رشید نے جعفر سے کہا کہ میں عباسہ کا عقد تمھارے ساتھ کیا چاہتا ہوں تا کہ تم کو اس کا دیکھنا مباح ہو جائے لیکن زن وشوی کے تعلقات نہ ہوں، چنانچہ اس شرط پر عباسہ کا عقد جعفر سے کر دیا۔

اس واقعہ کی روایت طبری نے احمد بن زہیر سے کی ہے اور احمد بن زہیر نے جس سے روایت کی اس کا حال خود طبری کو معلوم نہیں۔

  • اس واقعہ کو اعلام الناس صفحہ 153 میں بروایت ابراہیم بن اسحاق نے نقل کیا ہے اور اصل راوی کا نام ابو ثور زہیر بن صقلاب اور بجائے عباسہ کے میمونہ کا نام لکھا ہے جبکہ المہدی باللہ کی کسی بیٹی کا نام میمونہ نہیں۔

[3] علامہ طبری نے مزید اس واقعے متعلق آگے لکھا ہے کہ چونکہ عباسہ جعفر کی محبت میں چور ہو چکی تھی اس لیے اس نے خلوت کی ایک تدبیر سوچ لی اور جعفر نے عباسہ سے صحبت کر لی۔ عباسہ حاملہ ہو گئی، اس بات کی خبر رشید کو ہو گئی اس نے برامکہ کو عہدوں سے الگ کر کے قتل کر دیا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف تو عباسہ علمی مقام، اس کی حرمت، اس کے والدین کا مذہبی رتبہ دوسری طرف یہ ناشائستہ حرکت؟ عباسہ کون ہے؟ خلیفہ المہدی باللہ کی بیٹی، ابو جعفر النصور کی پوتی، محمد بن علی کی پڑوتی علی بن عبد اللہ بن عباس خلفاء کے باپ آپ کے تیسری پشت کے دادا اور ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس آپ کے چوتھی پشت کے دادا ہیں۔ آپ حکومت سے خلافت نبویہ سے، محبت رسول سے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمومت سے گھری ہوئی ہیں اور مذہب کا احترام، وحی کا نور، فرشتوں کا نزول آپ کے چاروں طرف چھایا ہوا ہے اور آپ کا زمانہ عربوں کی بدویت اور دینی سادگی کے قریب ہے۔ آپ کا زمانہ عیاشانہ عادتوں شرمناک گناہوں سے دور ہے۔ دوسری طرف جعفر کون تھا؟ جعفر کا دادا فارسی غلام تھا اس کے باپ چچا کو کو چار چاند عباسیوں نے لگائے۔ عباسہ کا دادا حضرت عباس بن عبد المطلب رسول اللہ کے چچا تھے۔ ہارون الرشید جعفر سے رشتہ کرنے پر کیسے راضی ہو سکتا ہے جو جعفر ایک عجمی غلام تھا اور رشید عباسی خلفاء میں بلند ہمت، عالی حوصلہ خلیفہ تھے۔ وہ کیسے ایک شہزادی کا عقد ایک غلام زادے سے کر سکتے تھے۔ [4] عباسہ پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ شیعہ مورخین نے لگایا علامہ طبری نے جس احمد بن زہیر سے واقعہ روایت کیا ہے وہ نیم شیعہ تھا۔ [5] اصل میں یہ واقعہ عباسی خواتین کو بدنام کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے کیونکہ اس واقعہ کی اصل طبری سے پہلے کے مورخین میں نہیں ملتی۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں یہ عبارت ملتی ہے: عباسہ کی یکے بعد دیگر تین شادیاں ہوئیں مگر تینوں شوہروں کا انتقال عباسہ کی زندگی میں ہی ہو گیا۔ [6]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ ملت مولف مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی، انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی جلد دوم صفحہ 165
  2. تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین مولف طالب الہاشمی صفحہ 141 اور 142
  3. تاریخ ابن خلدون مولف علامہ عبد الرحمان ابن خلدون جلد سوم صفحہ 116 اور 117
  4. مقدمہ ابن خلدون مولف علامہ عبد الرحمن ابن خلدون صفحہ 122 اور 123
  5. تاریخ ملت مولف مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی، انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی جلد دوم صفحہ 166
  6. تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین مولف طالب الہاشمی صفحہ 142