عبدالاعلی بن مسہر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت عبد الاعلی بن مسہرؒ (ابو مسہر)
معلومات شخصیت

نام ونسب[ترمیم]

نام عبد الاعلیٰ،ابو مسہر کنیت اورلقب ابن ابی دارمہ تھا،نسب نامہ یہ ہے،عبد الاعلیٰ بن مسہر بن عبد الاعلیٰ بن مسلم،اصل نام کی بجائے کنیت ہی کو زیادہ شہرت حاصل تھی، اسی لیے ابن سعد اوربعض دوسرے اہل طبقات ان کا تذکرہ ان ائمۃ کے ساتھ کرتے ہیں جو اپنی کنیتوں سے معروف آفاق ہوئے،مشہور قبیلہ ازد کی ایک بڑی شاخ غسان سے تعلق رکھنے کے باعث غسانی کہلائے۔ [1]

ولادت اوروطن[ترمیم]

باتفاق روایت ان کی ولادت 140ھ میں بمقامِ دمشق ہوئی۔ [2]

فضل وکمال[ترمیم]

امام ابو مسہرؒ اپنے زمانہ کے منتخب علما میں شمار کیے جاتے ہیں،مختلف علوم وفنون کی جامعیت اورمہارت میں ان کی نظیر اتباع تابعین میں شاذونادرہی ملتی ہے،حدیث وفقہ ،علم رجال وانساب اورفن مغازی میں اس وقت شام میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، تثبت واتقان ،فصاحت وبلاغت اورعدالت میں بھی نہایت بلند پایہ رکھتے تھے،ابو حاتم فرماتے ہیں۔ مارأیت ممن کتبنا عنہ افصح من ابی مسھر [3] میں نے اپنے شیوخ میں ابو مسہر سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں دیکھا۔ علامہ ابن اثیر رقمطراز ہیں: کان اعلم الناس بالمغازی وایام الناس [4] وہ مغازی اور تاریخ کے بہت بڑے عالم تھے۔ ابن حماد حنبلی ان کو عالم اھل الشام کا خطاب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: کان علامۃ بالمغازی والاثر کثیر العلم رفیع الذکر [5] وہ فن مغازی اورحدیث کے زبردست عالم اورجلیل المرتبت انسان تھے۔ حافظ ذہبی "شیخ اھل الشام وعالمھم"کے الفاظ سے ان کے فضل وکمال کا اعتراف کرتے ہیں ۔ [6]

شیوخ وتلامذہ[ترمیم]

انھوں نے جن نامور ائمہ سے حدیث کی روایت اوردوسرے علوم کی تحصیل کی ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ امام مالک بن انس،اسماعیل بن عیاش،سفیان بن عیینہ،سعید بن عبد العزیز،صدقہ بن خالد،یحییٰ بن حمزہ الحضرمی،محمد بن حرب،ہقل بن زیاد،خالد بن یزید،محمد بن مسلم الطائفی، ان کے شاگردوں کی فہرست بھی طویل ہے،چند ممتاز نام حسبِ ذیل ہیں: امام بخاری،محمد بن یحییٰ الذہلی، احمد بن صالح،احمد بن حنبل،یحییٰ بن معین، ابو حاتم ابوزرعہ،محمد بن اسحاق الصنعانی،محمد بن ابو الولید الدمشقی،محمد بن الحسین السمنانی، عمرو بن منصور، النسائی،عباس بن الولید الخلال،مروان بن محمد الطاطری،سلیمان بن عبد الرحمن دمشقی،احمد بن ابی الحواری۔ [7]

مرویات کا پایہ[ترمیم]

حفاظ حدیث کی طویل فہرست میں ایسے خوش نصیب خال خال ہی ملتے ہیں جو ماہر ین جرح و تعدیل کی گرفت سے محفوظ رہے ہوں ،امام ابو مسہر کا شمار ایسے ہی خوش قسمتوں میں ہے،ان کی ثقاہت وعدالت ،حفظ وضبط اورتثبت واتقان پر اتفاق ہے،امام احمد جنہیں ابو مسہر سے سعادت تلمذ بھی حاصل ہے،فرماتے ہیں: رحم اللہ ابا مسھ ماکان اثبتہ [8] خدا ابو مسہر پر رحم فرمائے وہ بڑے مثبت تھے۔ ابوداؤد کابیان ہے: کان ابامسھر من ثقات الناس:ابو مسہر ثقہ لوگوں میں تھے ابن حبان شہادت دیتے ہیں: کان امامہ اھل الشام فی الحفظ والتقان:امام ابو مسہر حفظ واتقان میں اہل شام کے امام تھے۔ جلیل المرتبت تبع تابعی یحییٰ بن معین کا قول ہے: کان من الحفاظ المتقنین واھل الورع فی الدین [9] وہ حفاظ متقنین اوراہل زہد وورع لوگوں میں تھے۔ خلیلی کہتے ہیں: ثقۃ حافظ امامٌ متفق علیہ وہ متفقہ طور پر حافظ اورثقہ امام تھے۔ علاوہ ازیں ابو حاتم، عجلی،ابوزرعہ،مروان بن محمد،ابن حبان،ابن وضاح اورحاکم جیسے بحر حدیث کے شناور ان کی ثقاہت کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔

اعترافِ علما[ترمیم]

امام ابو مسہرکے تبحر وجلالتِ علم کا اعتراف اہل علم ودانش معاصرین کی ایک بڑی جماعت نے کیا ہے؛چنانچہ یحییٰ بن معین کا ارشاد ہے۔ منذ خرجت من بغداد الیٰ ان رجعت لم أر مثل ابی مسھر میں نے بغداد اور اس کے باہر کسی کو ابو مسہر کا ثانی نہیں دیکھا۔ ابو حاتم فرماتے ہیں: ما رأیت احد، فی کورۃ من الکور اعظم قدرا ولا اجل عند اھل العلم من ابی مسھر بدمشق اذا خرج اصطف الناس یقبلون یدہ [10] میں نے اطراف ملک میں کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو دمشق کے اہلِ علم کے نزدیک ابو مسہر سے زیادہ جلالت مرتبت اوربلندی شان رکھتا ہو،وہ جب نکلتے تو لوگ ان کی دست بوسی کے لیے دورویہ قطار بناکر کھڑے ہوجاتے تھے۔ امام احمد معترف ہیں: کان عندکم ثلاثہ اصحاب حدیث مروان والولید وابو مہسھر تمھارے پاس تین محدث ہیں، مروان ولید،اورابو مسہر محمد بن عثمان التنوخی کا بیان ہے: ما بالشام مثل ابی مسھر کان من احفظ الناس شام میں ابو مسہر کی نظیر نہ تھی، وہ لوگوں میں سب سے بڑے حافظ تھے۔ ابن حبان حفظ واتقان میں انھیں امام اہل الشام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: کان ممن عنی بانساب اھل بلدہ وابنائھم والیہ کان یرجع اھل الشام فی الجرح والعدلۃ شیوخھم [11] وہ اہل شام کے انساب کے سب سے بڑے واقف کار تھے اورشام کے علما جرح و تعدیل میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔

فتنہ خلقِ قرآن[ترمیم]

اگرچہ حاکم بغداد ومامون الرشید کے درباری اوراہل منصب معتزلہ نے اپنے اثر ورسوخ کی بنا پر عقیدہ خلقِ قرآن کا اعلان خلیفہ سے 712ھ ہی میں کرادیا تھا،لیکن اس فتنہ کو عروج 218ھ میں حاصل ہوا،جب اپنی عمر کے آخری سال میں مامون نے یہ طے کر لیا کہ حکومت کے جبروقہر سے کام لے کر لوگوں سے خلق قرآن کے عقیدہ کا اقرار کرایا جائے؛چنانچہ اس نے سنہ مذکور میں پہلی بار رقہ سے بغداد میں اپنے نائب اسحاق بن ابراہیم کے نام ایک فرمان بھیجا کہ "خلقِ قرآن کے مسئلہ میں محدثین اورفقہاء پر سختی کرنے میں تامل نہ کرو اوران سے قرآن کے مخلوق ہونے کا فوراً اقرار لو۔ چنانچہ اس فرمان کے مطابق اسحاق نے تمام محدثین وقضاۃ کو اپنے دربار میں بلایا،اس جماعت میں ابو حسان زیادی،بشر بن ولید،علی بن مقاتل،فضل بن غانم، امام احمدبن حنبل،سجادہ،قواریری، محمد بن نوح، ابن علیہ،علی بن عاصم کے علاوہ چودہ دوسرے جلیل القدر علما شامل تھے، نائب حاکم بغداد نے ان سب کا امتحان لیا،پہلی بار سب نے قرآن کے غیر مخلوق ہونے کا اقرار کیا،لیکن جب اسحاق نے زجرو توبیخ کی اور مامون کی طرف سے سخت ترین سزا دینے کی دھمکی دی تو تقریباً سب نے رخصت پر عمل کرتے ہوئے اس باطل عقیدہ کا اقرار کر لیا۔ [12]

ابو مسہر کی آزمائش[ترمیم]

لیکن اللہ نے جن لوگوں کو ثباتِ قلب کی نعمت عطا کی تھی وہ اپنے عقیدہ پر ثابت قدم رہے، ان میں امام احمد بن حنبلؒ نے جو رتبہ عالیہ حاصل کیا اس کی نظیر سے پوری اسلامی تاریخ خالی ہے ۔ یہ رتبہ بلند ملا جسے مل گیا ہربوالہوس کے واسطے دار ورسن کہاں اسی طرح امام ابو مسہر کا نام بھی دعوت وعزیمت کی تاریخ میں روشن رہے گا۔ علامہ ابن سعد نے ان کے ابتلا کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے "جب بغداد کے نائب حاکم اسحاق بن ابراہیم نے عقیدہ خلق قرآن کے منکر علما کو پابجولاں مامون الرشید کے پاس رقہ بھیجا(جہاں اس وقت وہ مقیم تھا)تو امام ابو مسہر کو بھی اسی طرح روانہ کیا،خلیفہ نے ان سے اس بحث کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا: ھو کلام اللہ غیر مخلوق، مامون نے یہ استقامت دیکھ کر تلوار اورچرمی کوڑا طلب کیا تاکہ امام صاحب کی تعذیب کے بعد ان کا سر قلم کر دے،اس حالت میں اقرار کے سوا کوئی چارۂ کار نہ تھا، لیکن اسی کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں قتل کے خوف سے اس عقیدہ کا اظہار کررہا ہوں، اس کے بعد خلیفہ نے ان کو عمر قید کی سزا کا حکم دیا اورربیع الآخر 218ھ میں انھیں رقہ سے بغداد لاکر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس سلسلہ میں حافظ ابن حجر عسقلانی کا بیان بھی اہم ہے، انھوں نے ابوداؤد کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ابو مسہرؒ نے قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار آخر تک نہیں کیا اوران کی استقامت کو دیکھ کر انھیں قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔ [13]

وفات[ترمیم]

عمرقید کی سزا کو دوہی ماہ گذرے تھے کہ یکم رجب 218ھ کو 79 سال کی عمر میں طائرِ روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگیا،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ جب ان کے جسدِ خاکی کو تدفین کے لیے زنداں سے نکالا گیا تو جنازہ میں شرکت کے لیے بغداد کی ایک خلقت ٹوٹ پڑی، ہرطرف صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ [14]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (اللباب فی تہذیب الانساب:2/172)
  2. (تہذیب التہذیب:25/100)
  3. (خلاصہ تذہیب :221)
  4. (اللباب فی تہذیب الانساب:2/174)
  5. (شذرات الذہب :2/144)
  6. (تذکرۃ الحفاظ:1/249)
  7. (تہذیب التہذیب:6/98،99)
  8. (خلاصہ تذہیب:221)
  9. (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب:6/99۔101)
  10. (شذرات :2/144)
  11. (تہذیب التہذیب:6/99،100)
  12. (البدایہ والنہایہ:10/475)
  13. (تہذیب التہذیب:6/100)
  14. (ابن سعد:7/174)