عبدالجبارقاسمی جہازی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جہاز قطعہ جن اکابرین کی بدولت اہل علم اور صاحب فضل وکمال کی خصوصیات سے مشہور ہے، ان میں ایک درخشاں نام مولانا و قاری و کاتب عبد الجبار صاحب قاسمی حفظہ اللہ بھی ہے۔ شہری چمک دمک اور زمانے کی ترقیات سے کوسوں دور واقع ایک چھوٹی سی بستی سے تعلق رکھنے والی یہ ہستی قدرو منزلت کی بلندمرتبت تک کیسے پہنچی، اس کا تجزیہ و تذکرہ بالیقین ان حضرات کے لیے قابل تقلید نمونہ ہوگا، جو زندگی میں تمام محرومیوں کے باوجود حوصلہ پاکر رفعت وعظمت کی چوٹی سر کرنا چاہتے ہیں۔

ولادت و تربیت[ترمیم]

مولانا موصوف ریاست جھارکھنڈ کے ضلع گڈا میں واقع گاؤں جہاز قطعہ میں پیدا ہوئے۔ اصلی تاریخ پیدائش 9ذی الحجہ، 1379ھ، مطابق 6جون1960ء ہے۔ والد محترم کا نام شیخ کرامت علی ابن شیخ نصیر الدین ابن شیخ فخر الدین ابن شیخ لوری تھا۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب محفوظ نہیں ہے۔ آپ نمونہ اسلاف حضرت مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز کے سگے بھتیجے ہیں۔

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

آپ نے اپنے چچا کے زیر سرپرستی تعلیمی سفر کا آغاز کیا اور مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں ابتدا سے فارسی کی پہلی، دوسری، کریما، پند نامہ وغیرہ حضرت مولانا محمد منیر الدین رحمہ اللہ سے پڑھی۔ لیکن کچھ دنوں بعد درجہ فارسی کی تکمیل کیے بغیر حفظ کرنا شروع کر دیا۔ اس ادارہ میں جن اساتذہ کرام سے آپ نے فیض حاصل کیا، ان میں حضرت مولانا کے علاوہ قاری محمد قطب الدین صاحبؒ، مولانا محمد اسلام ساجد مظہریؒ صاحب،مولانا ذکیر الدین صاحب اور مولانا عبد الغفور صاحب کے نام شامل ہیں۔ ہندی، انگریزی، حساب کی بنیادی تعلیم جناب اسٹر عبد الرزاق صاحب (عرف کوکا ماسٹر) سے حاصل کی۔

گھر میں معاشی تنگی بہت زیادہ تھی، جس کے باعث تعلیمی سفر جاری نہ رہ سکا اور والد صاحب کی مزدوری کے کام میں ہاتھ بٹانے لگے۔ چنانچہ آپ نے لاشعوری عہد میں گاؤں سے متصل مہیش پور اور مہیش ٹکری تک سڑک کی تعمیر میں مٹی ڈھلائی کا کام کیا۔ والد محترم مٹی کاٹ کر دیتے اور آپ اٹھا کر سڑک پر ڈالتے۔ کم عمری کی وجہ سے ٹھیکدار کو بہت ترس آتا اور اکثر آپ کے کیے ہوئے کام کی پیمائش کیے بغیر پورا کھنتہ(مٹی کٹائی کی پیمائش) لکھ لیتے۔ اسی طرح اکثرو بیتشتر کام سے زیادہ مزدوری دے دیا کرتے تھے۔

دوبارہ تعلیم کی طرف[ترمیم]

1973میں گاؤں کے ایک عالم مولانا مسعود عالم صاحب کو ان کے گھر والے مولانا عبد الحمید صاحب بیربلپوری کے ہمراہ تعلیم کے لیے علاقے سے ہزاروں کلومیٹر دور اجراڑہ میرٹھ بھیجنے لگے، تو آپ کے مشفق استاذ حضرت قاری قطب الدین صاحب ؒ نے آپ کے گھر والوں سے تعلیم کے لیے اصرار کیا۔ چنانچہ گھر والے راضی ہو گئے، تو مولانا بیربلپوری کی سرپرستی میں آپ نے دوبارہ تعلیمی سفر کا آغاز کیا اور مدرسہ بحر العلوم اصیل پور میرٹھ میں داخلہ لے کر دوبارہ حفظ کرنا شروع کر دیا۔ اور یہیں حفظ کی تکمیل کی۔ اساتذہ میں حافظ و کاتب عرفان الدین بجنوری، قاری تجمل حسین اور اکثر حصہ قرآن حافظ بد ر الدین صاحب موانی سے کیا۔ یہاں کے عہد طالب علمی میں 1975میں ایک مرتبہ اتنے سخت بیمار ہو گئے کہ زندگی کی امید نہ رہی۔ مہتمم مدرسہ جناب منشی محمد یعقوب صاحب اصیل پوری اور دیگر اساتذہ کرام بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہو گئے؛ مگر ان حضرات نے علاج میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی؛ لیکن خدا کرنا ایسا ہوا کہ بعد میں بالکل صحت یاب ہو گئے۔

1976 میں مدرسہ جامع مسجد امروہہ میں داخلہ لیا اور جناب قاری اختر حسین صاحبؒ سے تجوید کی تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں فارسی کی پہلی، گلزار دبستاں، کریما، پند نامہ، گلستاں، بوستاں، نحومیر، میزان وغیرہ اور ہدایۃ النحو تک کی تعلیم اسی ادارہ میں حاصل کی۔ حضرت مولانا عزت اللہ صاحب مین پوری، مولانا اکمل حسین صاحب، مولانا منظور احمد صاحب، حضرت مولانا طاہر حسین صاحب امروہوی اور مولانا اسماعیل صاحب ؒ آپ کے خاص اساتذہ میں سے تھے۔ آپ کو کتابت سے بڑا لگاؤ تھا، اس لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ جناب منشی معراج النبی خاں صاحبؒ انجم امروہی سے کتابت سیکھتے رہے اور بالآخر ماہر خطاط بن گئے۔

قاری صاحب موصوف نے اپنا ایک واقعہ اس طرح بیان کیا کہ منشی جی مرحوم نے ایک مرتبہ ایک تختی کو دیکھنے کے بعد فرمایا: ان شاء اللہ تم اول نمبر پر رہوگے۔ خدا جانے حضرت نے  کس حال میں فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر پہنچایا کہ دار العلوم دیوبند میں صدر شعبہ خطاطی کی حیثیت سے تقرر کرادیا۔ منشی جی ؒ اکثرو بیشتر میری لکھی ہوئی تختی پر یہ دعائیہ جملہ لکھتے کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ ایک مرتبہ اسی طرح ایک تختی پر لکھا تو وہاں موجود حضرت مولانا طاہر حسن صاحب امروہوی شیخ الحدیث مدرسہ جامع مسجد امروہہ نے اس پر آمین لکھ کر اپنا دستخط ثبت کر دیا۔

ازدواجی زندگی[ترمیم]

تکمیل حفظ کے بعد آپ نے دوبارہ مولویت کے کورس کا آغاز کیا اور ابھی اس کے درجہ اول میں ہی تھے کہ گھر والوں نے شادی کرادی۔ چنانچہ 1980میں گاؤں سے متصل ایک دوسرا گاؤں جمنی کولہ میں پہلی شادی ہوئی۔ لیکن کچھ وجوہات کی بنیاد پر نباہ نہ ہو سکا اور ایک سال کے بعد ہی جدائیگی ہو گئی۔ بعد ازاں 1982 میں دوسری شادی مشفق استاذ قاری قطب الدین جہازیؒ کی صاحبزادی بی بی شہناز بیگم سے ہوئی۔

1981ء میں مدرسۃ العلوم حسین بخش میں کافیہ، قدوری وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ پھر 1981کے آواخر میں دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا، جہاں عربی سوم سے دورہ حدیث تک کی تعلیم حاصل کی۔ اور 1407ھ، مطابق 1987میں فراغت پائی۔

1406ھ، مطابق 1986میں جب کہ آپ عربی ہفتم کے طالب علم تھے اور ششماہی امتحان دے کر گھر کے لیے روانہ ہوئے، تو گھر پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ آج سے دو دن پہلے ہی  والد محترم کا انتقال ہو گیا ہے۔ والدہ محترمہ کا انتقال 19شعبان 1440ھ، مطابق  اپریل2019کو ہوا؛ لیکن حسن اتفاق دیکھیے کہ بسیار کوشش کے باوجود جنازے میں شرکت نہ کرسکے اور تدفین کے دو دن بعد ہی قبر پر حاضر ہو سکے۔

تعلیم، تدریس اور کتابت[ترمیم]

1982 میں شادی کے بعد سے ہی والد محترم کا اصرار ہونے لگا کہ تعلیم منقطع کرکے کہیں پڑھائیں اور گھر چلانے میں تعاون کریں۔ اس پر مولانا موصوف نے والد صاحب سے عرض کیا کہ حفظ پڑھانے والوں کو بالعموم ڈھائی سو روپے ملتے ہیں، میں ان شاء اللہ تعالیٰ ہر مہینے اتنے روپے آپ کو دے دیا کروں گا، مجھے پڑھنے دیا جائے۔ چنانچہ آپ دار العلوم دیوبند میں خارج اوقات کے دوران کتابت کرکے گھر کو خرچ دیا کرتے تھے۔ آپ نے حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانویؒ کی ڈکشنری القاموس الاصطلاحی، دیوان متنبی کی شرح اور دیگر کتابوں کی کتابت کی۔

1987میں دار العلوم دیوبند سے مولویت کی سند حاصل کرنے کے بعد ایک سال تک مزید دیوبند ہی میں کرایہ کا کمرہ لے کر قیام پزیر رہے اور حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم کی کتابوں: مفتاح العوامل، مفتاح التہذیب وغیرہ کی کتابت کی۔ اس کے بعد بھاگلپور میں یاسمین پریس میں تقریباایک سال کام کیا۔ بعد ازاں 1989 میں دہلی آکر مسجد صغیر حسن محلہ نیاران عقب جی بی روڈ میں کچھ مہینے امامت کی اور ساتھ میں کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ پھر اونچی مسجد حوض قاضی دہلی کے امام و خطیب ہو گئے۔ یہاں انیس سال تک امامت و خطابت کے ساتھ کتابت کا کام کرتے رہے۔ اس دوران ادلہ کاملہ اور ایضاح الادلہ وغیرہ کی کتابت کی۔ لیکن کاتب صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آ پ نے کئی نئی خصوصیات کے ساتھ حافظی قرآن کریم کی کتابت کی جو 2019کے آواخر میں محمود المصاحف کے نام سے طبع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے۔

کتابت کے ساتھ ساتھ تدریسی خدمات بھی انجام دیتے رہے۔ چنانچہ غالبا 1990 میں مدرسہ عبد الرب دہلی میں حمد باری، کریما وغیرہ پڑھایا۔ پھر جب دار العلوم دہلی کا قیام عمل میں آیا، تو یہاں نحومیر، علم الصیغہ، نور الایضاح وغیرہ اعزازی طور پر پڑھاتے رہے۔ 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر آپ کو مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ کا صدر بنایا گیااور آپ مسلسل اس ادارہ کی سرپرستی فرماتے رہے۔

دار العلوم دیوبند میں تقرر[ترمیم]

کمپیوٹر کے دور میں بھی آپ کی کتابت کی فنی چھاپ برقرار ہے۔ آپ کے قلم دلکش سے لکھے طغرے، کتبے، اہل ذوق حضرات اپنے گھروں میں وال پیپر بنانا آرائش و زیبائش کا ضروری حصہ سمجھتے ہیں۔ آپ صرف کتابت میں دل کشی نہیں؛ بلکہ اخلاص و مودت کے موتی پیروتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دار العلوم دیوبند کی نظر عنایت آپ پر پڑی اور اس کی مجلس عاملہ منعقدہ ذی قعدہ 1429ھ، مطابق نومبر 2008 کی ایک تجویز میں صدر شعبہ خوش خطی کی حیثیت سے آپ کا تقرر عمل میں آیا اور یکم محرم 1430ھ، مطابق 30 دسمبر2008کو دار العلوم دیوبند پہنچ کر اپنے کار مفوضہ کی انجام دہی میں مصروف ہو گئے، جس کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔

دار العلوم دیوبند میں تقرری کا پس منظر قاری صاحب نے خود بیان کرتے ہوئے بتایا کہ دار العلوم میں میرا تقرر”موسیٰ اگ لینے جائے اور پیمبری مل جائے“کے مصداق ہے۔ میں عزیزم مولوی محمد طلحہ سلمہ کا داخلہ تقابل میں نام نہ آسکا تو سفارش کے لیے حضرت اقدس مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری دامت برکاتہم کے پاس پہنچا، تو سفارش فرماکر فرمایا کہ’’تم دار العلوم آؤگے میرے لیے؟“۔ اس سعادت کے حاصل کرنے کے لیے اس بہتر اور کونسا موقع ہو سکتا تھا، میں نے فورا ہاں کر دیا، تو حضرت نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، میں کوشش کرتا ہوں اور ایک ہفتہ کے بعد حضرت نے کچھ نمونہ منگوایا، جسے حضرت نے مجلس عاملہ میں پیش فرمایا اور اس طرح میرا تقرر عمل میں آگیا۔

امتیازی خصوصیات[ترمیم]

آپ بہت سادہ طبیعت کے حامل ہیں۔ خوش اخلاقی، ملنساری اور حسن اخلاق میں منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ سب سے امتیازی صفت یہ ہے کہ آپ بہت فیاض طبع ہیں۔ مہمان نوازی اور خاطر داری میں یکتائے روزگار ہیں۔ حضرت موصوف جب دہلی کی اونچی مسجد حوض قاضی میں امام تھے، تو بارہا جانے کا اتفاق ہوا اور جب بھی گیا، ہمیشہ اپنی سخاوت کے عملی مظاہر پیش کیے۔ معلومات کے لیے عرض کردوں کہ حضرت نے یہاں انیس سال تک امامت کے فرائض انجام دیے۔ جب اس مسجد سے وابستہ ہوئے تھے تو تنخواہ کل پانچ سو روپے تھی اور جب انیس سال کے بعد یہاں سے رخصت ہوئے تو اس وقت کل چودہ سو روپے تن خواہ تھی، اس اقل قلیل آمدنی میں بھی انھوں نے اپنی فیاضانہ روش میں لچک آنے نہیں دی، حالاں کہ دہلی میں یہ مسجد ایسی جگہ واقع ہے، جہاں روز بروز متعلقین و غیر متعلقین کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔

بیعت و ارشاد[ترمیم]

10 شوال1407ھ، مطابق 8 جون 1987میں حضرت اقدس مفتی محمود حسن صاحب گنگوہیؒ سے بیعت ہوئے۔ ان کے انتقال کے بعد جانشین فقیہ الامت حضرت مولانا ابراہیم صاحب پانڈور کے دامن سلوک سے وابستہ ہیں۔

صلاحیت کے ساتھ صالحیت[ترمیم]

دار العلوم دیوبند میں تقرری کے بعد اہل گاؤں نے آپ کو استقبالیہ دینے کے لیے تقریب تہنیت کے نام سے ایک پروگرام کیا، جس میں علاقے کی اہم شخصیات نے شرکت کرتے ہوئے حضرت مولانا موصوف کے لیے خیر مقدمی کلمات پیش کیے۔ اس تقریب میں مولانا محمد عرفان صاحب مظاہری جہازی نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دار العلوم دیوبند کسی کو محض صلاحیت کی بنیاد پر قبول نہیں کرتا، دار العلوم دیوبند اسی کو اپنے دامن میں پناہ دیتا ہے، جس میں صلاحیت بھی ہو اور صالحیت بھی ہو۔ اور حضرت قاری صاحب کے اندر بالیقین یہ دونوں صفتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ناچیز نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ حضرت موصوف جہاں صوم و صلاۃ اور سنن و نوافل کے بے حد پابند ہیں، وہی سفر ہو یا حضر ذکر جہری کبھی نہیں چھوڑتے اور اپنے شیخ کے بتائے ہوئے معمول پر ہمیشہ عامل رہتے ہیں۔

اولاد[ترمیم]

آپ سات بچو کے والد ہیں، جن میں چار صاحب زادے اور بقیہ صاحب زادیاں ہیں۔ علی الترتیب صاحبزادوں کے نام اس طرح ہیں: مولانا محمد طلحہ قاسمی، محمد طٰہٰ، محمد اسامہ اور محمد عکرمہ۔ صاحبزادیوں کے نام صفیہ، خاتون، زکیہ خاتون اور عطیہ خاتون ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا و قاری و کاتب صاحب کے سایہ عاطفت کو تا دیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور ان کی ذات سے امت مسلمہ کو عظیم فوائد بخشے۔ آمین۔