عبدالرحیم ہاتف

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبدالرحیم ہاتف
(پشتو میں: عبدالرحیم هاتف ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صدر افغانستان
نگران
مدت منصب
16 اپریل 1992 – 28 اپریل 1992
وزیر اعظم فضل حق خلقیار
محمد نجيب اللہ
صبغت اللہ مجددی (عبوری)
معلومات شخصیت
پیدائش 20 مئی 1926ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قندھار   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 19 اگست 2013ء (87 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الفین آن دے ریئن   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت افغانستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پشتو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عبد الرحیم ہاتف (20 مئی 1926 – 19 اگست 2013) افغانستان میں ایک سیاست دان تھے[1]۔ انھوں نے جمہوری جمہوریہ افغانستان کے آخری سالوں کے دوران میں نائب صدر کے فرائض سر انجام دیے[2]۔  وہ قندھار، افغانستان میں پیدا ہوئے تھے[3]۔

عملی زندگی[ترمیم]

عبد الرحیم ہاتف 1988 ءکے انتخابات کے بعد سے محمد نجیب اللہ کے دور حکومت میں  نائب صدر تھے[4]۔ا نہوں نے جولائی 1991 ءسے اپریل 1992 ء تک ملک کے پہلے نائب صدر کے طور پر کام کیا۔

وہ کابل کے پہلے زوال کے وقت صدر نجیب اللہ کے استعفٰی کے بعد اپریل 1992ء میں دو ہفتوں کے لیے  وہ افغانستان کے صدر رہے ، جس کے بعد اقتدار پر جمعیت اسلامی افغانستان نے قبضہ کر لیا تھا۔

ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے دو سابقہ سربراہ مملکت کو قتل کیا جا چکا تھا جبکہ ایک سویت یونین میں جلا وطن ہو گئے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ کابل محل میں سخت سیکیورٹی میں کام کرتے تھے جہاں ان سے ملنے کے لیے دانتوں کے برش تک لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔

وہ معاش کے لیے قندھار میں چائے کے کاروبار سے بھی منسلک رہے ۔ قومی مصالحتی کونسل کے صدر بھی رہے ، اس کمیشن کا مقصد حکومت مخالف مسلح گروپوں کو جنگ کی بجائے امن پر آمادہ کرتے ہوئے حکومتی اتحادی بنا نا تھا۔

اپنے دو ر اقتدار میں انھوں نے امریکا سے اپیل کی کہ وہ مسلمان جنگجوؤں جنھوں نے مجاهدین کے نام سے جانا جاتا ہے، کو ہتھیار اور ڈالر مہیا کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔[5]

جلا وطنی اور موت[ترمیم]

19 اپریل1992 ء کو انھوں نے اپنے وزیر خارجہ عبد الوکیل کو مجاہدین کے کمانڈر مسعود کے پاس خاد اور وطن پارٹی کے اعلیٰ عہدے داروں کی حفاظت کی یقین دہائی کے بدلے میں حکومت کی جانب سے شکست تسلیم کرنے کے لیے مذاکرات کے لیے بجھوایا۔ جس کی وجہ سے مجاہدین نے 24 اپریل کو کامیابی کا جشن مناتے ہوئے کابل پر چڑھائی کر دی۔ انھوں نے مجاہدین کے ساتھ عارضی حکومت پر سمجھوتا کرنے کا اعلان بھی کیا تاہم ان کو 28 اپریل کو معزول کر دیا گیا[6]۔وہ اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد جلاوطن ہو گئے اور  نیدرلینڈز میں منتقل ہو گئے، جہاں وہ 19 اگست 2013ء کو وفات پا گئے[7]۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Frank Clements (2003)۔ Conflict in Afghanistan: a historical encyclopedia۔ ABC-CLIO۔ صفحہ: 102۔ ISBN 978-1-85109-402-8 
  2. https://hdl.handle.net/2027/osu.32435083449116
  3. Organization of the Peoples Democratic Party of Afghanistan/Watan Party, Governments and Biographical Sketches 1982–1998, Volume 1، by S. Fida Yunas, pub University of Michigan, 1998.
  4. "Whitaker's almanack 1991"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2015 
  5. John F. Burns and Special To the New York Times۔ "Afghan Aide Takes On a Thankless Task" (بزبان انگریزی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2018 
  6. Hafeez Malik (2016-07-27)۔ Soviet-Pakistan Relations and Post-Soviet Dynamics, 1947–92 (بزبان انگریزی)۔ Springer۔ ISBN 978-1-349-10573-1۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2018 
  7. "آرکائیو کاپی"۔ 07 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2018