عبد الستار ایدھی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(عبدالستار ایدھی سے رجوع مکرر)
اس صفحہ کو محفوظ کر دیا گیا ہے؛ استفسارِ وجوہات اور متعلقہ گفتگو کے لیے تبادلۂ خیال کا صفحہ استعمال کریں۔
عبد الستار ایدھی

معلومات شخصیت
پیدائش 28 فروری 1928ء
بانٹوا، بانٹوا مناودار، برطانوی راج (موجودہ بانٹوا، گجرات، بھارت)
وفات 8 جولائی 2016ء
کراچی
وجہ وفات گردے فیل[1][1]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قومیت ہندوستانی (1928–1947)،
پاکستانی 1947-2016ء
نسل بانٹوا میمن[2][3]
زوجہ بلقیس ایدھی
اولاد فیصل ایدھی
تعداد اولاد
عملی زندگی
پیشہ انسان دوست[1]،  آپ بیتی نگار،  سماجی کارکن،  انسان دوست،  سماجی کارکن  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو[4]،  انگریزی[5]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت سماجی کام
سادگی
اعزازات
1988 لینن امن انعام
نشان امتیاز 1989ء میں[6]
احمدیہ مسلم امن انعام 2010ء میں
ویب سائٹ
ویب سائٹ ایدھی باضابطہ ویب گاہ

عبد الستار ایدھی، (پیدائش: 28فروری، 1928ء - وفات: 8 جولائی، 2016ءخدمت خلق کے شعبہ میں پاکستان اور دنیا کی جانی مانی شخصیت تھے، جو پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن کے تاحیات صدر رہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی بیوی بلقیس ایدھی، بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی سربراہ ہیں۔ دونوں کو 1986ء میں عوامی خدمات کے شعبہ میں رامون ماگسے سے ایوارڈ (Ramon Magsaysay Award) سے نوازا گیا۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

عبد الستار ایدھی 28 فروری 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کپڑے کے تاجر تھے جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پیدائشی لیڈر تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کے چھوٹے چھوٹے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب ان کی ماں ان کو اسکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسا خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسا کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے۔ گیارہ سال کی عمر میں انھوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ چھوٹی عمر میں ہی انھوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے کی زندگی کے لیے کامیابی کی کنجی ثابت ہوئی۔

آغاز[ترمیم]

1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوئے۔ 1951ء میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی جنھوں نے ان کو طبی امداد کی بنیادی باتیں سکھائیں۔ اس کے علاوہ آپ نے یہاں اپنے دوستوں کو تدریس کی طرف بھی راغب کیا۔ آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر مدد کو پہنچ سکیں۔

1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انھوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگوائے اور مفت مدافعتی ادویہ فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے ان کی دل کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوئے باقی پاکستان نے بھی۔ امدادی رقم سے انھوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لیے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے اسکول کھول لیا اور یہی ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز تھا۔

ایدھی فاؤنڈیشن کی ترقی[ترمیم]

آنے والوں سالوں میں ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں تک بھی پھیلتی گئی۔ فلو کی وبا کے بعد ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو کافی بڑی رقم کی امداد دی جس سے انھوں نے ایک ایمبولینس خریدی جس کو وہ خود چلاتے تھے۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس 600 سے زیادہ ایمبولینسں ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ میں امداد کے لیے وہ خود روانہ ہوتے ہیں اور ایدھی فاؤنڈیشن کی حادثات پر رد عمل میں کی رفتار اور خدمات میونسپل کی خدمات سے کہیں زیادہ تیز اور بہتر ہے۔ ہسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور اسکول کھولے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ فاؤنڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔ ایدھی مراکز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز کے باہر بچہ گاڑی کا اہتمام ہے تا کہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کر جا سکے۔ اس بچے کو ایدھی فاونڈشن اپنے یتیم خانہ میں پناہ دیتی ہے اور اس کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔

ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن[ترمیم]

فاؤنڈیشن نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ترقی کی ہے۔ اسلامی دنیا میں ایدھی فاؤنڈیشن ہر مصیبت اور مشکل وقت میں اہم مدد فراہم کرتی ہے۔ جہاں امداد اور نگرانی ایدھی بذات خود متاثرہ ممالک میں جا کر کرتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ فاؤنڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں سے چند نام افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفت سماٹرا اندامان کے زلزلہ (سونامی) سے متاثرہ ممالک کے ہیں۔

16 اگست 2006ء کو بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی کی جانب سے ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ جس کے تحت دنیا کے امیر یا غریب ہو یا دنیا کا کوئی بھی ملک امریکا، برطانیہ، اسرائیل، شام، ایران، بھارت، بنگلہ دیش ہوں میں یہ ایمبولینس بطور عطیہ دی جا رہی ہے اور انھیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان ایمبولینس کو 5 سال تک استعمال کرنے کے بعد فروخت کرکے اس کی رقم خیراتی کاموں میں استعمال کریں۔

بیگم بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی نے اس موقع پر کہا کہ وہ دنیا کا امیر یا غریب ملک ہو وہاں مریض مریض ہی ہوتا ہے ایمبولینس کا مقصد انسانوں کی جانیں بچانا ہوتا ہے اور ہمیں اس بات کی خوشی ہوگی کہ ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کی ایمبولینسں دنیا بھرمیں انسانوں کی جانیں بچائیں خواہ وہ لندن، نیویارک، ٹوکیو، تل ابیب، بیروت اوردمشق ہوں انھوں نے کہا کہ انسانیت کی بین الاقوامی خدمت کے حوالے سے ہمارا ایک قدم اور آگے بڑھ رہا ہے۔

جدید میراث[ترمیم]

آج پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا میں بھی ایدھی نے ایک غیر خود غرض اور محترم شخص کے طور شہرت پائی ہے۔ شہرت اور عزت کے باوجود انھوں نے اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا، وہ سادہ روایتی پاکستانی لباس پہنتے ہیں، جو صرف ایک یا دو ان کی ملکیت ہیں، اس کے علاوہ ان کی ملکیت کھلے جوتوں کا ایک جوڑا ہے، جس کو وہ سابقہ بیس سال سے استعمال کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کا بجٹ ایک کروڑ کا ہے جس میں سے وہ اپنی ذات پر ایک پیسا بھی نہیں خرچ کرتے۔ آپ کے بیٹے فیصل بتاتے ہیں، جب افغانستان میں مرکز کا افتتا ح کیا جا رہا تھا تو عملہ نے مہمانوں اور صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں خرید لیں۔ جب ایدھی وہاں آئے تو وہ اس بات پر سخت خفا ہوئے، کیونکہ ان کے خیال میں یہ رقم کسی ضرورت مند کی مدد پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ اس رات آپ کلینک کے فرش پر ایمبولینس کے ڈرائیوروں کے ساتھ سوئے۔

ایدھی فاؤنڈیشن کا مستقبل[ترمیم]

آج ایدھی فاؤنڈیشن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ایدھی مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں، وہ پاکستان کے ہر 500 کلو میٹر پر ہسپتال تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ گرچہ ان کو احترام کے طور پر مولانا کا لقب دیا گیا ہے لیکن وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتے۔ انھوں نے کبھی کسی مذہبی اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلوانا پسند کرتے ہیں، کیونکہ انسانیت کی خدمات پر پاکستان میں انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے ڈاکٹری کی اعزازی سند دی گئی ہے۔ وہ اس بات کو بھی سخت ناپسند کرتے ہیں جب لوگ ان کی یا ان کے کام کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ حکومت یا سابقہ مذہبی جماعتوں سے امداد بھی نہیں لیتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی امداد مشروط ہوتی ہے۔ ضیاء الحق اور اطالوی حکومت کی امداد انھوں نے اسی خیال سے واپس کر دی تھی۔

1996ء میں ان کی خودنوشت سوانح حیات شائع ہوئی۔

1997ء گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔ ایدھی بذات خود بغیر چھٹی کیے طویل ترین عرصہ تک کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں۔ اور ریکارڈ بننے کے بعد بھی ابھی تک انھوں نے چھٹی نہیں لی۔

اعزازات[ترمیم]

بین الاقوامی اعزازات[ترمیم]

  • 1986ء عوامی خدمات میں رامون مگسے سے اعزاز، Ramon Magsaysay Award[7]
  • 1988ء لینن امن انعام lenin peace prize[8]
  • 1992ء پال ہیریس فیلو روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن، Paul Harris Fellow RotaryInternational Foundation [8]
  • دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ ایمبولینس سروس - گینیز بک ورلڈ ریکارڈز (2000ء)
  • ہمدان اعزاز برائے عمومی طبی خدمات 2000ء متحدہ عرب امارات [8]
  • بین الاقوامی بلزان اعزاز 2000ء برائے انسانیت، امن و بھائی چارہ، اطالیہ [8]
  • انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ ڈگری (2006ء)
  • یونیسکو مدنجیت سنگھ اعزاز 2009ء [9][10]
  • احمدیہ مسلم امن اعزاز (2010ء)[11]

قومی اعزازات[ترمیم]

  • کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی طرف سے سلور جوبلی شیلڈ (1962–1987) [8]
  • حکومت سندھ کی جانب سے سماجی خدمتگزار برائے بر صغیر کا اعزاز (1989) [8]
  • نشان امتیاز، حکومت پاکستان کا ایک اعلیٰ اعزاز (1989) [8]
  • حکومت پاکستان کے محمکہ صحت اور سماجی بہبود کی جانب سے بہترین خدمات کا اعزاز (1989) [8]
  • پاکستان سوک سوسائٹی کی جانب سے پاکستان سوک اعزاز (1992) [8]
  • پاک فوج کی جانب سے اعزازی شیلڈ [8]
  • پاکستان اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز کی جانب سے اعزازِ خدمت [8]
  • پاکستانی انسانی حقوق معاشرہ کی طرف سے انسانسی حقوق اعزاز [8]
  • 26 مارچ 2005ء عالمی میمن تنظیم کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ اعزاز (Life Time Achievement Award)

وفات[ترمیم]

8 جولائی 2016ء کو عبد الستار ایدھی کو شام 5 بجے مُنفِّسہ پر رکھا گیا اور رات 11 بجے وہ گردوں کے کام چھوڑ جانے کے باعث 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انھوں نے وفات سے قبل یہ وصیت کی تھی کہ ان کے دونوں آنکھیں ضرور مندوں کو عطیہ کر دی جائے۔[12]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب http://www.aljazeera.com/news/2016/07/pakistan-humanitarian-abdul-sattar-edhi-dies-160708184523940.html
  2. "The day I met Abdul Sattar Edhi, a living saint"۔ The Daily Telegraph۔ London۔ 10 اپریل 2011۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016  ، Retrieved 24 مارچ 2016
  3. http://leadershipforhighschool.wordpress.com/leader-profile/dr-abdul-sattar-edhi/،[مردہ ربط] published اپریل 2013, Retrieved 24 مارچ 2016
  4. Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 11 مئی 2020
  5. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/126888803
  6. http://edhi.org/about-us/awards/national-awards،[مردہ ربط] نشان امتیاز Award info, Retrieved 23 مارچ 2016
  7. "1986ء رامون مگسے سے اعزاز برائے عمومی خدمت برائے عبد الستار ایدھی و بلقیس بانو ایدھی"۔ Ramon Magsaysay Award Foundation۔ 31 اگست 1986۔ 23 اپریل 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مئی 2010 
  8. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ "اعزازات"۔ Edhi Profile۔ 8 اگست 2010ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اگست 2010 
  9. "UNESCO-Madanjeet Singh Prize – Laureates"۔ UNESCO۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2012 
  10. "UNESCO-Madanjeet Singh Prize for the Promotion of Tolerance and Non-Violence (2009)"۔ UNESCO۔ 2009۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2012 
  11. "احمدیہ امن اعزاز 2011" (PDF)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2012 
  12. "Abdul Sattar Edhi passes away"۔ Tribune.com.pk۔ 8 جولائی 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جولائی 2016 

بیرونی روابط[ترمیم]