عبداللہ بن عمرو بن حفص

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت عبد اللہ بن عمروؒ بن حفصؒ
معلومات شخصیت

نام ونسب[ترمیم]

عبد اللہ نام،ابوعبدالرحمن کنیت اور نسب نامہ یہ ہے عبد اللہ بن عمرو بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب ،قبیلہ قریش کی شاخ بنو عدی سے نسبی تعلق رکھنے کے باعث عدوی کہلاتے ہیں، اس کے علاوہ عمری اورمدنی خاندانی ووطنی نسبتیں ہیں۔ [1]

وطن اورخاندان[ترمیم]

مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے اورفاروقِ اعظم کے اس خانوادہ فضل وکمال سے تعلق رکھتے تھے،جس کے بے شمار افراد آسمانِ علم پر نیر تاباں بن کر چمکے؛چنانچہ ان کے بھائی عبید اللہ،جنہیں تابعیت کا شرف حاصل ہے،ثقات تثبت اور اتقان میں مسلم حیثیت کے مالک تھے۔

علم وکمال[ترمیم]

علم و عمل کے اعتبار سے وہ نہایت بلند مرتبہ تھے،حدیث میں تبحر کے ساتھ تقویٰ،عبادت اور صالحیت میں بھی نمایاں مقام حاصل تھا، علامہ ذہبیؒ "کان محدثاً صالحاً" لکھتے ہیں [2]ابن الاہول کابیان ہے کہ عبد اللہ علم کی علامت اورعبادت کی انتہا تھے۔ [3]

اساتذہ[ترمیم]

جن حفاظِ حدیث سے انھوں نے روایت کی ہے ان میں نافع مولیٰ بن عمر، حمید الطویل،سعید المقہری،زید بن اسلم،سہیل بن ابی صالح ،سعید بن سعید الانصاری، قاسم بن غنام کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

تلامذہ[ترمیم]

خود ان کے حلقۂ درس سے مستفید ہونے والوں میں ان کے صاحبزادے عبد الرحمن کے علاوہ کچھ لائق ذکر نام یہ ہیں،عبد الرحمن بن مہدی،لیث بن سعد، عبد اللہ بن وہب،عبد الرزاق،یعقوب بن الولید المدنی، یونس بن محمد المؤدب مطرف بن عبد اللہ المدنی۔ [4]

مرویات کا پایہ[ترمیم]

ان کی مرویات کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل بہت اختلاف رائے رکھتے ہیں، توثیق وتضعیف کرنے والے علما کا پلہ برابر ہے،ابن حبان کا خیال ہے کہ دراصل عبد اللہ عبادت وصلاح سے اس قدر مغلوب تھے کہ حفظ وضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا،اس لیے وہ متروک الحدیث قرار دیے جانے کے مستحق ہیں، ان کی عدالت وثقاہت کی شہادت دینے والوں میں ابن معین،یعقوب بن شیبہ،ابن عدی اوراحمد بن یونس شامل ہیں اورجن ائمہ نے ان کی روایات کو ناقابل حجت اورضعیف قراردیا ہے ان میں علی بن مدینی،یحییٰ بن سعید نسائی اور امام احمد وغیرہ کے نام پیش پیش ہیں، مؤخر الذکر ان کی تضعیف کے باوصف ان کے فضل وکمال اورتقویٰ وصالحیت کے پورے طور پر قائل ہیں۔ [5]

صلاح وتقویٰ[ترمیم]

نہایت عبادت گزار اورتقویٰ وصالحیت سے متصف تھے،حتیٰ کہ ان اوصاف کے غلبہ نے علما کی نظر میں ان کے حفظ واستحضار کو بھی مجروح کر دیا تھا، کیونکہ ان کی کلی توجہ احادیث وآثار کی طرف باقی نہ رہی تھی ابن حبان بیان کرتے ہیں کہ: کان ممن غلب علیہ الصلاح والعبادۃ حتیٰ غفل عن حفظ الاخبار وجودۃ الحفظ للاٰثارِ [6] وہ ان علما میں تھے جن پر عبادت وصالحیت کا غلبہ تھا،یہاں تک کہ اس وصف نے انھیں احادیث وروایات کے حفظ وضبط نے غافل کر دیا۔

حق گوئی وبیباکی[ترمیم]

امر بالمعروف اورنہی عن المنکر ائمہ سلف کا مشترک شعار رہا ہے،یہاں تک کے سلاطین وقت کی شوکت وجبروت کے سامنے بھی وہ اپنی حق گوئی وبیباکی کے آئین میں کوئی تبدیلی گوارا نہیں کرتے تھے، اسلامی تاریخ کے اوراق اس قسم کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں،عبد اللہ بن عمرؓ بھی انہی خاصانِ خدا میں تھے۔ ایک بار ایامِ حج میں ہارون الرشید کو سعی (صفا ومروہ کے درمیان)میں روک کر اس کی بد عنوانیوں پر سخت بُرا بھلا کہا،علامہ یافعی نے ان دونوں کے مکالمہ کو نقل کیا ہے جو یہ ہے۔ شیخ :اے ہارون! خلیفہ:جی چچا جان،حاضر ہوں،فرمائیے: "کیا تم ان حاجیوں کی تعداد شمار کرسکتے ہوشیخ نے حجاج کرام کے انبوہ عظیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا۔ بھلا اسے کون شمار کرسکتا ہے ،خلیفہ بولا کان کھول کر سُن لو! شیخ نے نہایت جرأت سے کہا: ان میں سے ہر ہر شخص تو خود اپنا مسئول ہے،لیکن تم خدا کے نزدیک ان سب کے جواب دہ اورذمہ دار ہو، پھر ذرا رک کر ارشاد فرمایا: بخدا جب انسان خود اپنے مال میں اسراف کرتا ہے وہ لائق تعزیر قرار پاتا ہے ،تو پھر اگر وہ عام مسلمانوں کے مال میں فضول خرچی کا مرتکب ہو تو اس کی سزا کس قدر بڑی ہوگی۔ [7]

وفات[ترمیم]

باختلافِ روایت 171ھ یا 173ھ میں بمقام مدینہ طیبہ انتقال فرمایا اس وقت ہارون الرشید اورنگ خلافت پر فائز تھا۔ [8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (مرأۃ الجنان:1/367)
  2. (العبر فی خبر من غبر :1/260)
  3. (شذرات الذہب:1/379)
  4. (تہذیب التہذیب:5/326،327)
  5. (خلاصہ تذہیب :207)
  6. (میزان الاعتدال:2/59)
  7. (مرأۃ الجنان:1/367)
  8. (خلاصہ میں 207،میزان الاعتدال:2/59،وتہذیب التہذیب:5/327)