عبدالوہاب دستی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


عبد الوہاب دستی ضلع مردان کے علاقہ سودھم کے کھٹہ خٹ کے سریخ لوہاران گاؤں میں 1933ء کو پیدا ہوئے تھے۔ شادی کے بعد اپنے سسرال کے ہاں لوند خوڑ کے مضافاتی گاؤں چنچڑوخٹ میں سکونت پزیر ہوئے۔ (پشتو ادب کے لحاظ سے لوندخوڑ کی سرخیزی کا اندازہ ان علاقوں کے ٹھیٹ پشتو ناموں سے لگایا جا سکتا ہے)۔ اُس زمانے میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور پرائمری اسکول میں مدرس کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا لیکن پھر بہت جلد اپنی ادبی طبی اُفتاد کے پیش نظر ریڈیو پاکستان پشاور سے منسلک ہو گئے۔ عبد الوہاب دستی ریڈیو پاکستان پشاور کے مشہور ترین پروگراموں، ھندارہ، سحر سبا، باتور، پلوشے اور خوند رنگ میں سامعین کے خطوط ریکارڈ کراتے تھے اور ساتھ ہی ان پروگراموں کے اقتباسات اوراسکرپٹ لکھتے تھے۔ آپ کا بہت اہم اور قومی وملی خدمت میں 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر 61 کے قریب ملی نغمے لکھنا شامل ہے جنہیں اپنے وقت کے مایہ ناز پشتو گلوکاروں گل نار بیگم ، احمد خان ، رفیق شنواری اور کشور سلطان نے اپنی مدھر آوازوں میں پیش کیا تھا۔عبد الوہاب مرحوم اپنے تخلص دستی (فی البدیہہ، سمدلاسہ) کی طرح اسم بامسمی یعنی فی البدیہہ شاعر تھے۔ جو ان کے بقول ایک بزرگ کے دعا کا اثر تھا۔ آپ نے پشتو شاعری کے کم وبیش ساری رضاف میں یعنی غزل، چاربیتہ، لوبہ، حمد و نعت اور قوالی وغیرہ میں خوب طبع آزمائی کرتے ہوئے معیاری شاعری کی ہے۔ عبد الوہاب دستی کی پچاس کتابیں اشاعت پزیر ہو چکی ہیں جبکہ باقی بیس پچیس کتب طباعت کے مراحل سے گزرنے کے لیے پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی کے کسی علم دوست محقق کی نظرکرم کی منتظر ہیں۔ ایک ادبی اور علمی شخصیت کی حیثیت سے دستی صاحب گلوکاروں، شعرا اور علمی شخصیات کے دوستوں کے دوست اور یاروں کے یار تھے۔ اپنے دور کے جید شعرا واُدبا، امیر حمزہ بابا، اجمل خٹک، مرزا زخمی جگر، غالب سرحدی زیارت کاکا صاحب، علی حیدر جوشی اسماعیلہ، ساحر آفریدی اور منتظرآفریدی وغیرھم کے ہاں آنا جانا اور میل ملاپ رکھتے تھے۔اپنے دور میں پختونخوا کا بہت کم معروف گلوکار ہوگا جس نے دستی صاحب کا کلام نہ گایا ہو،آپ نے پشتو نثر میں بہادرہ پیغلہ اور مشہور لطیفے لکھ کر پشتو ادب پر احسان کیا ہے اور قادرالکلام شاعر پختونخوا کی دنیا سے 13 اپریل 2019ء کو 86 برس کی بھرپور زندگی گزارنے کے بعد رخصت ہو کر سفر آخرت پر روانہ ہوئے

حوالہ جات[ترمیم]