عبد اللہ بن زید

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد اللہ بن زید
معلومات شخصیت
پیدائشی نام عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ
پیدائش 580ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 644ء (63–64 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
طبقہ صحابہ
نسب انصاری خزرجی
پیشہ مؤذن  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ بدر
غزوہ احد
غزوہ خندق
بقیہ تمام غزوات

عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ انصاری صحابی رسول اور اصحاب صفہ میں شامل انصار کے قبیلہ خزرج سے تعلق تھا۔

نام و نسب[ترمیم]

عبد اللہ بن زید کی کنیت ابو محمد، عبد اللہ بن زید بن ثعلبہ بن عبدریہ بن ثعلبہ بن زید بن حارث بن خزرج والد کا نام زید بن عبد ربہ، انصارِ مدینہ منورہ کے قبیلۂ ’’خزرج‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مؤرخین ومحدثین کے نزدیک صاحب اذان سے مشہور ہیں۔

اسلام[ترمیم]

بیعت عقبہ میں شامل تھے۔

غزوات میں شرکت[ترمیم]

عبد اللہ بن زید بیعتِ عقبہ، غزوۂ بدر اور بقیہ تمام غزوات میں شریک رہے ہیں۔ فتحِ مکہ کے دن بنو الحارث بن خزرج کا جھنڈا ان ہی کے ہاتھ میں تھا۔[1]

صاحب اذان[ترمیم]

اذان کی مشروعیت کی سعادت وفضیلت ان ہی کے حصہ میں آئی ہے، انھوں نے ہی خواب دیکھا تھا اور ان کا خواب ہی اذان کی مشروعیت کا دارومدار بنا۔ اسی خواب کی بناپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرفرض نماز کے لیے اذان دینے کا حکم فرمایا۔ خواب میں ایک شخص ’’سنکھ‘‘ لے کر آتا دکھائی دیا۔ انھوں نے فرمایا:اے اللہ کے بندے ! اس ناقوس کو مجھ سے بیچ دے۔ اس شخص نے پوچھا: آپ کو اس سے کیا مطلب ہے ؟بولے : اس سنکھ کو بجاکر لوگوں کو نماز کے لیے اکٹھا کیا کریں گے۔ اس نے جواب دیا: اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں ؟ فرمایا: ہاں ضرور بتائیے ! صاحبِ ناقوس نے مکمل اذان کے کلمات پڑھ کر سنائے۔صبح ہوتے ہی دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور سارا واقعۂ خواب کہہ سنایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا :’’إنّہا لرؤیاحق إن شاء اللّٰہ‘‘ انشاء اللہ یہ خواب بالکل برحق ہے اور اسی وقت اذان کی مشروعیت کا فیصلہ فرماتے ہوئے بلال کو حکم دیا: اے بلال: ان کے ساتھ چلے جاؤ، یہ تمھیں اذان کے کلمات جس طرح سکھا ئیں ویسے ہی تم بآوازِ بلند پڑھو بلال کی آواز بلند تھی، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اذان دینے کا حکم فرمایا: یہ وجہ خودنبی علیہ الصلاۃ والسلام نے بہ ا لفاظ ’’فإنہ أندی صوتہ منک‘‘ صراحت فرمائی ہے۔ راوی ابوعمیر کا کہناہے کہ انصارِ مدینہ یہ فرماتے تھے کہ عبد اللہ بن زید اس دن بیمار تھے، اگر یہ بیمار نہ ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی کوشرفِ مؤذن سے بہرہ ور فرماتے۔ یہ مشروعیتِ اذان کا واقعہ میں پیش آیا ہے۔[2]

کاتب وحی[ترمیم]

آپ کاتبِ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہیں، اس کی صراحت واقدی، ابن سیدالناس، ابن کثیر، عراقی اور انصاری وغیرہ نے کی ہے۔ [3]

طبقاتِ بن سعد میں عبد اللہ بن زید کا لکھا ہوا ایک خط بھی محفوظ ہے، ڈاکٹر محمد حمیداللہ حیدرآبادی نے الوثائق السیاسیہ میں اس کو نقل فرمایا ہے۔ اس کے اخیر میں ہے کہ” یہ تحریر عبد اللہ بن زید نے لکھی ہے“۔ [4]

وفات[ترمیم]

32ھ میں بعمر 64 سال انتقال فرمایا، حضرت عثمانؓ نے نماز جنازہ پڑھائی، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ احد میں شہید ہوئے تھے اور ثبوت میں یہ واقعہ پیش کرتے ہیں کہ عبد اللہؓ کی صاحبزادی جب حضرت عمرؓ کے ہاں گئیں تو کہا کہ میرے باپ بدر میں شریک تھے اوراحد میں شہید ہوئے، حضرت عمرؓ نے کہا تو پھر جو مانگنا ہو مانگو، انھوں نے کچھ مانگا اورکامیاب واپس آئیں۔ [5] یہ حلیہ کی روایت ہے، لیکن مسند اورتمام کتب رجال میں اس کے خلاف روایتیں ہیں اس لیے یہ کیونکر قابل قبول ہو سکتی ہے، اس کے ماسوا یہ خیال حاکم کا ہے اورانہوں نے مستدرک میں خود اس کے خلاف رائے ظاہر کی ہے۔

اولاد[ترمیم]

ایک صاحبزادی تھیں جن کا ابھی اوپر ذکر ہوا، ایک بیٹے تھے جن کا نام محمد تھا آنحضرتﷺ کے عہد میں پیدا ہوئے تھے۔

فضل وکمال[ترمیم]

امام بخاری نے لکھا ہے کہ ان سے صرف ایک حدیث اذان کے متعلق مروی ہے، امام ترمذی بھی اسی کی تائید کرتے ہیں، لیکن حافظ ابن حجر کو 6،7 حدیثیں ملی تھیں جن کو انھوں نے علاحدہ ایک جزء میں جمع کر دیا ہے۔ [6] ان کے راویان حدیث کے زمرہ میں حسبِ ذیل نام ہیں، محمد، عبد اللہ بن محمد، سعید بن مسیب، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ۔

اخلاق[ترمیم]

عسرت و تنگی میں خدا کی راہ میں ایثار نفس، اخلاق کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے، حضرت عبد اللہؓ کے پاس بہت قلیل جائداد تھی، جس سے وہ اپنے بال بچوں کی پرورش کرتے تھے، لیکن انھوں نے کل کی کل صدقہ کردی، ان کے باپ نے آنحضرتﷺ سے آکر واقعہ بیان کیا، آپ نے ان کو بلاکر فرمایا کہ خدانے تمھارا صدقہ قبول کیا؛ لیکن اب باپ کی میراث کے نام سے تم کو واپس دیتا ہے، تم اس کو قبول کرلو۔ [7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. المغازي للواقدي : 1/ 7
  2. طبقات ابن سعد : 2/ 240، الإصابۃ : 2/ 327
  3. البدایہ والنہایہ 5/350، عیون الاثر2/ 315، العجالة السنیہ 247 المصباح المضئی 35/
  4. طبقات بن سعد 1/ 2: 21 الوثائق السیاسیہ وثیقہ نمبر41 بحوالہ ”نقوش“ 7/ 172
  5. (اصابہ:4/72)
  6. (تہذیب :5/224)
  7. (اسد الغابہ:2/233)