مندرجات کا رخ کریں

عبد اللہ بن طاہر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد اللہ بن طاہر
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 798ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیشاپور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات اکتوبر844ء (45–46 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیشاپور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عبید اللہ بن عبد اللہ خزاعی ،  محمد بن عبد اللہ بن طاہر ،  طاہر بن عبد اللہ ،  سلیمان بن عبد اللہ بن طاہر   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد طاہر بن حسین   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان آل طاہر   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عبد اللہ بن طاہر خراسانی (تقریباً 798ء844ء/845ء) طاہری حکومت کا ایک مشہور حکمران تھا، جس نے 828ء سے اپنی وفات تک خراسان پر حکومت کی اور اسے طاہری حکمرانوں میں سب سے نمایاں تصور کیا جاتا ہے۔[2]

خراسان کی گورنری

[ترمیم]

جب عبد اللہ کے والد طاہر بن حسین 207 ہجری (822ء) میں وفات پا گئے تو خلیفہ المامون نے عبد اللہ کو خراسان کی ولایت سونپی۔ عبد اللہ نے خراسان پر اپنے بھائی طلحہ کو نائب مقرر کیا، جس نے سات سال تک حکومت کی۔[3]

نصر بن شبث کی بغاوت کا خاتمہ

[ترمیم]

عبد اللہ بن طاہر نے 209ھ (824ء) میں مشہور باغی نصر بن شبث کو امان دے کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اور اس طرح عباسی خلافت کو ایک خطرناک بغاوت سے نجات دلائی۔[4]

عبد اللہ بن طاہر کی مصر میں فتوحات

[ترمیم]

211ھ (826ء) میں عبد اللہ نے فوج کے ساتھ مصر کا رخ کیا، جہاں کے گورنر عبید اللہ بن سری خلیفہ کے خلاف بغاوت کر چکے تھے۔ عبد اللہ نے انھیں خلیفہ کی اطاعت کا حکم دیا۔ ابن سری نے خفیہ طور پر عبد اللہ کو ایک قیمتی تحفہ رشوت کے طور پر بھیجا، مگر عبد اللہ نے انکار کرتے ہوئے لکھا:

"اگر میں دن میں تمھارا تحفہ قبول نہیں کرتا تو رات میں کیسے کر سکتا ہوں؟ بلکہ تم ہی ہو جو اپنے تحفے پر خوش ہوتے ہو۔"

بالآخر، 5 صفر 211ھ (17 مئی 826ء) کو ابن سری نے ہتھیار ڈال دیے اور عبد اللہ مصر کا گورنر بن گیا۔ عبد اللہ نے مختصر مدت میں مصر میں امن قائم کیا، معاشی و سماجی ترقی کی اور جامع عمرو بن العاص (جامع عتیق) کی تعمیر و توسیع کروائی۔ انھوں نے عبدلی تربوز کی زراعت بھی متعارف کروائی، جو ان کے نام سے منسوب ہے۔ خلیفہ مأمون نے انھیں ایک سال کا خراج بطور انعام دیا، جسے عبد اللہ نے عوام میں تقسیم کر دیا۔[5]

بابک خرمی کی تحریک

[ترمیم]

مصر سے واپسی کے بعد عبد اللہ کو بڑی عزت و تکریم کے ساتھ بغداد میں خوش آمدید کہا گیا۔ اسی وقت بابک خرمی کی خطرناک تحریک اٹھی، جو مال و جان اور عورتوں کی حلت کی قائل تھی۔ اس تحریک نے "فاطمہ بنت ابی مسلم خراسانی" سے نسبت جوڑ کر ایرانی قوم پرستی کا نعرہ بلند کیا۔ عباسی فوجی کمانڈر محمد بن حمید اس تحریک کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔

213ھ (828ء) میں خلیفہ نے عبد اللہ بن طاہر کو اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے بھیجا، مگر بابک خرمی نے آذربائیجان کے پہاڑوں میں پناہ لے لی، جس کی وجہ سے عبد اللہ کو محاصرہ ترک کر کے خراسان واپس لوٹنا پڑا۔[6]

مازبار کی بغاوت

[ترمیم]

عبد اللہ نے طبرستان میں ایک اور باغی مازبار کے خلاف کامیاب فوجی کارروائی کی، جو مزدکی عقائد کا پیروکار اور اسلام کا دشمن تھا۔ عبد اللہ نے تین فوجی دستے بھیج کر اسے شکست دی، گرفتار کیا اور زنجیروں میں جکڑ کر خراسان لایا۔[7]

طاہری حکومت

[ترمیم]

طاہری حکومت، خلیفہ کی براہ راست ولایت نہیں تھی بلکہ نیم خود مختار حکومت تھی جو موروثی طور پر چلتی تھی۔ عبد اللہ بن طاہر نے انتظامی اصلاحات کیں، افسران پر سخت نگرانی رکھی، عدل و انصاف کو فروغ دیا اور خراسان جیسے سرحدی علاقے کو مضبوط قلعہ بنا دیا۔

اس نے فوجی انتظامات کو بہتر بنانے کے لیے نیشاپور کے باہر ایک نئی فوجی بستی شاذیاخ قائم کی، تاکہ شہری و فوجی زندگی میں تنازع نہ ہو۔ عدالتی نظام کو منظم کیا، اہل علِم و دیانت قاضی مقرر کیے اور خط کتابت کے لیے حمام زاجل (پیغامبر کبوتروں) کا استعمال کیا تاکہ مرکزی حکومت سے بہتر رابطہ قائم رکھا جا سکے۔[8] [9]

تہذیب و ثقافت

[ترمیم]

عبد اللہ بن طاہر کے دور میں زرعی و صنعتی ترقی ہوئی۔ نئی نہریں، قوانین، زرعی اصلاحات متعارف ہوئیں۔ مختلف شہروں میں مخصوص صنعتیں فروغ پائیں: مرو: ریشمی و سوتی کپڑے کِرکان: لکڑی سازی طبرستان: قالین و فرنیچر ماوراء النہر: دھات سازی، اسلحہ سازی، چمڑا، مٹی کے برتن اس سب کا نتیجہ تجارت کے فروغ اور بازاروں کی ترقی کی صورت میں نکلا، مثلاً نیشاپور اور کرمان کی مشہور مارکیٹیں۔[10]

علمی و فکری احیاء

[ترمیم]

عبد اللہ بن طاہر خود بھی شاعر اور فصیح عربی دان تھا۔ اس نے اہلِ علم، شعرا، فقہا کو سپورٹ کیا۔ اس کے دربار سے جُڑے اہم نام: ابو عبید قاسم بن سلام (مؤلف، 224ھ/839ء وفات) کلثوم عنابی (شاعر) یوحنا بن ماسویہ (ماہر طبیب، جس نے اس کے لیے "کتاب الصداع" لکھا)

وفات

[ترمیم]

عبد اللہ بن طاہر نے پوری زندگی اپنی ریاست کے استحکام، علم و عدل اور ترقی کے لیے وقف کی۔ وہ 11 ربیع الاول 230ھ (26 نومبر 844ء) کو 48 سال کی عمر میں وفات پا گیا۔[11] [12]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب عنوان : Encyclopædia Iranica — ناشر: جامعہ کولمبیا
  2. ابن تغري بردي، «النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة»، دار الكتب، قاهرة، ج2، ص18
  3. الطبري، «تاريخ الرسل والملوك»، دار المعارف، ج8، ص547
  4. الكندي، «ولاة مصر»، تحقيق: راجح الكردي، دار الفكر العربي، ص172
  5. خالد كبير علال، «الصراع على مصر في العصر العباسي»، دار البصائر، 2010، ص93
  6. ابن الأثير، «الكامل في التاريخ»، دار صادر، بيروت، ج6، ص156
  7. اليافعي، «مرآة الجنان وعبرة اليقظان»، دار الكتاب الإسلامي، ج2، ص44
  8. المقريزي، «السلوك لمعرفة دول الملوك»، دار الكتب، القاهرة، ج1، ص457
  9. جمال الدين الشيال، «تاريخ مصر الإسلامية»، دار المعارف، ط3، ج1، ص243
  10. ابن خلدون، «تاريخ ابن خلدون»، دار الفكر، ج3، ص129
  11. Clifford Edmund Bosworth, *The Abbasid Caliphate*, in: *The Cambridge History of Islam*, Vol. 1A, Cambridge University Press, 1970, p. 120
  12. Hugh Kennedy, *The Early Abbasid Caliphate: A Political History*, Croom Helm, 1981, p. 189