مندرجات کا رخ کریں

عبد اللہ بن عبد العزیز عقیل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شيخ الحنابلة في نجد
عبد اللہ بن عبد العزیز عقیل
معلومات شخصیت
پیدائش 13 اپریل 1917ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عنیزہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 ستمبر 2011ء (94 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ریاض   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سعودی عرب   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ حنبلی
والد عبد العزيز العقيل
والدہ ابنة محمد بن حسين بن راشد المعتاز
عملی زندگی
استاد عبد الرحمان بن ناصر سعدی ،  عبد اللہ قرعاوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث ،  فقیہ ،  منصف ،  معلم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عبد اللہ بن عبد العزیز عقیل ( 1335ھ - 1432ھ / 1917ء - 2011ء )، سعودی عالم، قاضی اور فقیہ، جنہیں شیخ الحنابلہ کا لقب دیا گیا۔ انھوں نے اعلیٰ عدالتی مناصب سنبھالے، جن میں سعودی عرب کی مجلس القضاء الأعلى کی مستقل کمیٹی کے رئیس کا عہدہ شامل ہے۔ ان کی پیدائش عنیزہ، قصیم میں ہوئی اور وفات ریاض میں ہوئی۔[2][3][4]

حالات زندگی

[ترمیم]

شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز العقیل 7 رجب 1335ھ (13 اپریل 1917ء) یا 1 محرم 1335ھ (28 اکتوبر 1916ء) کو عنیزہ، قصیم میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبد العزیز بن عقیل عنیزہ کے مشہور ادیب و شاعر تھے اور ابتدائی تعلیم کے لیے انہی سے استفادہ کیا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ابن صالح اسکول اور پھر شیخ عبد اللہ القرعاوی کے مدرسے میں حاصل کی۔ قرآن کریم اور متعدد متون جیسے عمدة الحديث، زاد المستقنع اور ألفية ابن مالك حفظ کیں۔[5][6]

اس کے بعد شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی کی مجلس میں شامل ہو کر قرآن، تفسیر، توحید، حدیث، فقہ اور عربی زبان میں مہارت حاصل کی۔ دیگر اساتذہ میں شیخ علی بن ناصر أبو وادي شامل ہیں، جن سے صحیحین، سنن، مسند احمد اور مشكاة المصابيح کا مطالعہ کیا اور محدث ہند نذیر حسین دہلوی کے واسطے سے اجازت حدیث حاصل کی۔ ریاض میں قاضی کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے، انھوں نے شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ سے بھی استفادہ کیا اور دار الإفتاء میں 15 سال تک رکن کی حیثیت سے کام کیا۔ مزید برآں، انھیں عبد الحق بن عبد الواحد الہاشمی اور عبد اللہ بن علی العمودی جیسے مشائخ سے بھی اجازت حدیث حاصل ہوئی۔[7]

عہدے اور ذمہ داریاں

[ترمیم]
  • 1353ھ: 18 سال کی عمر میں شاہ عبد العزیز نے انھیں جازان میں قاضی اور مبلغ کے طور پر مقرر کیا۔
  • 1358ھ: شاہ عبد العزیز نے انھیں رئیس محكمة جازان نامزد کیا، مگر ان کی درخواست پر انھیں أبو عريش منتقل کر دیا گیا، جہاں انھوں نے رمضان 1358ھ میں عہدہ سنبھالا۔[8]
  • 1360ھ: محكمة فرسان منتقل کیے گئے، مگر جلد ہی أبو عريش واپس بھیج دیے گئے، جہاں وہ پانچ سال قاضی رہے۔
  • 1365ھ: محكمة الخرج منتقل کیے گئے، جہاں تقریباً ایک سال خدمات انجام دیں۔
  • 1366ھ: محكمة الرياض منتقل ہوئے اور 1370ھ تک خدمات انجام دیں۔
  • 1370ھ: شاہ عبد العزیز کے حکم پر عنیزہ منتقل ہوئے اور وہاں ہیئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر کے قیام کی نگرانی کی۔
  • 1391ھ: شاہ فیصل کے حکم پر ہیئة التمييز کے رکن بنے۔
  • 1392ھ: الهيئة القضائية العليا کے رکن بنے اور اسی سال مجلس القضاء الأعلى میں شامل ہوئے، بعد میں الهيئة الدائمة کے صدر مقرر ہوئے۔
  • 1387ھ: مجلس الأوقاف الأعلى کے رکن منتخب ہوئے اور 1405ھ میں ریٹائرمنٹ تک اس عہدے پر رہے۔
  • 1407ھ – 1431ھ: مصرف الراجحي کی الهيئة الشرعية کے صدر رہے۔[9]

تدریسی خدمات

[ترمیم]

شیخ ابن عقیل نے تقریباً 75 سال تدریس میں گزارے۔ اپنی وفات تک وہ تدریس میں مصروف رہے، روزانہ فجر سے طلوع آفتاب، پھر ضحیٰ سے ظہر اور عصر سے عشاء تک اپنے گھر میں طلبہ کو پڑھاتے اور علمی و فقہی سوالات کے جوابات دیتے۔ تصنیفات اور ان پر لکھی گئی کتب

تصنیفات

[ترمیم]
  • "فتاویٰ ابن عقیل" – دو جلدوں پر مشتمل، دار التأصيل، قاہرہ، پہلی طباعت 1421ھ / 2000ء۔
  • "الأجوبة النافعة عن المسائل الواقعة" – شیخ عبد الرحمن السعدی کے خطوط پر مبنی، ہیثم بن جواد الحداد کی تحقیق کے ساتھ، دار ابن الجوزي، ریاض۔
  • "كشكول ابن عقيل" – فقہی اور غیر فقہی معمے، علمی اور ادبی نکات۔

ان پر لکھی گئی کتب:

  • "فتح الجليل" – سوانح اور علمی اسناد، محمد زياد بن عمر التكلة، دار البشائر الإسلامية، پہلی طباعت 1425ھ۔
  • "مجموع فيه من آثار الشيخ عبد الله بن عبد العزيز العقيل" – محمد زياد بن عمر التكلة کی تحقیق، دار ابن حزم، ریاض۔
  • "الجامع للرحلات إلى الشيخ العقيل" – أ.د. وليد بن عبد الله المنيس۔
  • "النوافح المسكية من الأربعين المكية" – محمد زياد بن عمر التكلة کی تحقیق۔[3]

وفات

[ترمیم]

شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز العقیل 1432ھ کے اوائل میں کومہ میں چلے گئے اور بالآخر 8 شوال 1432ھ (مطابق 6 ستمبر 2011ء) کو ریاض کے اسپیشلسٹ اسپتال میں وفات پائی۔ ان کی نماز جنازہ مسجد الملک خالد میں ادا کی گئی اور تدفین مقبرہ أم الحمام میں ہوئی۔ جنازے میں ہزاروں علما، طلبہ اور سرکاری شخصیات شریک ہوئیں۔[10]، [2][3]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب Diamond Catalog ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/1441 — بنام: ʻAbd Allāh ibn ʻAbd al-ʻAzīz ʻAqīl
  2. ^ ا ب وفاة الشيخ ابن عقيل الرئيس السابق للهيئة العليا الدائمة للقضاء بالسعودية آرکائیو شدہ 2016-08-15 بذریعہ وے بیک مشین
  3. ^ ا ب پ نبذة يسيرة من حياة فضيلة الشيخ العلاّمة المسنِد شيخ الحنابلة: عبد الله بن عبد العزيز بن عقيل العقيل آرکائیو شدہ 2018-01-20 بذریعہ وے بیک مشین
  4. محمد زياد التكلة؛ فتح الجليل في ترجمة شيخ الحنابلة عبد الله بن عبد العزيز العقيل الطبعة الثالثة ص31
  5. فتح الجليل في ترجمة وثبَت شيخ الحنابلة عبد الله بن عبد العزيز بن عقيل: ص ٢٦
  6. محمد أكرم الندوي، الجامع المعين في طبقات الشيوخ المتقنين والمجيزين المسندين: ٢/ ٣٠٤
  7. "موقع الألوكة السيرة الذاتية للشيخ عبد الله بن عقيل"۔ موقع الألوكة۔ 28 جنوری 2024۔ 2024-01-29 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  8. محمد زياد التكلة؛ فتح الجليل في ترجمة شيخ الحنابلة عبد الله بن عبد العزيز العقيل الطبعة الثالثة ص83
  9. صحيفة العربية آرکائیو شدہ 2016-08-15 بذریعہ وے بیک مشین
  10. "تعزية ومواساة شيخ الحنابلة العلامة عبد الله بن عبد العزيز بن عقيل"۔ هيئة علماء فلسطين۔ 12 يونيو 2024۔ 2024-06-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |تاریخ= (معاونت)