عبد اللہ بن مسعود
عبد اللہ بن مسعود | |
---|---|
(عربی میں: عبد الله بن مسعود) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 594ء مکہ ، تہامہ |
وفات | سنہ 653ء (58–59 سال) مدینہ منورہ |
مدفن | جنت البقیع |
شہریت | خلافت راشدہ |
زوجہ | زینب بنت ابو معاویہ |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
نمایاں شاگرد | انس بن مالک |
پیشہ | قاضی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | فقہ ، تفسیر قرآن |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق ، غزوہ خیبر ، غزوہ حنین ، فتح مکہ |
درستی - ترمیم |
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ (27ق.ھ / 32ھ) (عربی: عَبْدُ اللهِ بنُ مَسْعُوْدِ بنِ غَافِلِ بنِ حَبِيْبٍ الهُذَلِيُّ رضی اللہ عنہ ) حضرت محمد کے جلیل القدر اصحاب میں سے تھے۔ محمد نوید ازہر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اسلام قبول کرنے والے اولین اصحاب رسولؐ میں سے ہیں۔ امام بغوی نے آپ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ’’ میں اسلام لانے والوں میں چھٹا شخص ہوں،، آپ کے قبول اسلام کا واقعہ نہایت دلچسپ ہے۔ آپ عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرا رہے تھے کہ ادھر سے حضور اکرمؐ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ گذرے حضورؐ نے دودھ طلب فرمایا۔ حضرت ابن مسعودؓ نے عرض کیا۔ مجھے امانت دار بنایا گیا ہے کہ بکریاں چرائوں اور ان کی حفاظت کروں، دودھ پلانے کا مجاز نہیں ہوں۔ حضورؐ نے بکریوں میں سے ایک ایسی بکری تلاش کی جو ابھی دودھ دینے کے قابل نہیں ہوئی تھی آپ نے اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور اور اسے دوہا۔ یوں حضورؐ اور حضرت صدیق اکبرؓ نے دودھ نوش جاں فرمایا۔ یہ ماجرا دیکھ کر عبد اللہ بن مسعودؓ نے حضورؐ سے عرض کی یہ دعا مجھے بھی سکھا دیں۔ آپؐ نے عبد اللہ ابن مسعودؓ کے سرپر دست شفقت پھیرا اور فرمایا: ’’تم خود علم سکھانے والے پیارے بچے ہو‘‘ (یعنی تم استاد بنو گے) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سرکار دو عالمؐ کے قریبی اور پسندیدہ ساتھیوں میں سے تھے۔ آپ سفر و حضر میں حضورؐ کے ساتھ رہے۔ حضورؐ نے ان سے فرما رکھا تھا کہ ’’تمھیں میرے گھر میں حاضر ہونے کے لیے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ پردہ اٹھا کر اندر آ جایا کرو اور ہماری باتیں سنا کرو،، حضور اکرمؐ کی کچھ خاص خدمتیں ابن مسعودؓ سے متعلق تھیں۔ مثلاً جوتا مبارک اٹھانا، مسواک کو اپنے اپنے پاس رکھنا، آپؐ کے آگے چلنا، نہاتے وقت پردہ کرانا،خواب سے بیدار کرنا وغیر۔ ابتدائے اسلام میں جب اپنے اسلام کا اظہار نہایت مشکل تھا، آپ وہ پہلے مسلمان تھے۔ جنھوں نے بیت اللہ شریف کے پاس کھڑے ہو کر مستانہ وار سورۃ الرحمٰن کی بآواز بلند تلاوت کی اور کفار مکہ کا ظلم برداشت کیا (ابن ہشام) حضور اکرمؐ نے فرمایا: قرآن مجید کو ان چار افراد سے حاصل کرو سب سے پہلے عبد اللہ ابن مسعودؓ کا نام ذکر فرمایا: بعد ازاں ابی بن کعب، سالم مولیٰ اور معاذ بن جبل ؓ کے اسمائے گرامی لیے۔ (بخاری و مسلم ) حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ کے عادات و اطوار میں عبد اللہ بن مسعودؓ سے مشابہت رکھنے والا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ رسول اللہؐ کے قریبی اصحاب کی نظر میں عبد اللہ بن مسعودؓ درجات کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں۔ الاکمال فی اسماء الرجال میں ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’میں اپنی امت کے واسطے وہ پسند کرتا ہوں جو ابن مسعودؓ اس کے واسطے پسند کریں اور امت کے واسطے اس چیز کو ناپسند کرتا ہوں جسے ابن مسعودؓ ناپسند کریں،، اس فرمان عظمت نشان کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا سب سے پہلا اجتہاد جو نظر آتا ہے وہ خلافت صدیق اکبرؓ کے بارے میں میں ہے۔ حضور اکرمؐ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کے بارے میں ابن مسعودؓ نے ان خوبصورت الفاظ میں اجتہاد کیا کہ ’’ہم اپنے دنیاوی معاملات کے لیے اسی شخصیت کو پسند کرتے ہیں جسے رسول اللہؐ نے ہمارے دینی امور کے لیے پسند فرمایا ہے۔،، یعنی جس ہستی کو حضورؐ نے نماز کی امانت کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ اسی کو ہم خلافت کے لیے پسندکرتے ہیں۔ رسول کریمؐ کے بدترین دشمن ابوجہل کی گردن کاٹنے کا شرف بھی عبد اللہ بن مسعود ؓ کو حاصل ہوا۔ دو ننھے بچے معاذؓ اور معوذؓ نے جب اپنی تلواروں سے ابوجہل کو گھائل کر دیا تو حضرت ابن مسعودؓ کا اس طرف سے گذر ہوا۔ حضرت ابن مسعودؓ کے پاس کارآمد تلوار نہ تھی۔ انھوں نے ابوجہل کی تلوار اٹھا لی۔ ابوجہل کی نظر ان پر پڑی تو وہ ان کے ارادے کو بھانپ گیا۔ اس نے کہا: اے حقیر بھیڑیں چرانے والے! تو نے مشکل کام کو ہاتھ ڈالا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے اس کے ساتھ ہی اس کی گردن کاٹ دی اور اس کا سر اور تلوار دونوں کو لا کر رسول کریمؐ کے قدموں میں ڈال دیا۔ رسول اللہؐ نے وہ تلوار آپ ہی کو عنایت فرما دی۔ حضرت ابن مسعودؓ کا قد چھوٹا تھا پنڈلیاں پتلی پتلی تھیں ایک مرتبہ رسول اللہؐ نے انھیں درخت پر سے کوئی چیز اتارنے کا حکم دیا وہ درخت پر چڑھے ان کی باریک پنڈلیوں کو دیکھ کر صحابہ کرام کی ہنسی چھوٹ گئی۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تم کیا ہنستے ہو۔ عبد اللہ کی ٹانگیں میزان (اللہ کے ترازو) میں اُحد پہاڑ سے زیادہ بھاری ہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے ایک روز ابن مسعودؓ کو بیٹھا دیکھا تو فرمایا: ’’یہ علم و معرفت سے بھری چھاگل ہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے 20ھ میں حضرت عمار بن یاسرؓ اور عبد اللہ بن مسعودؓ کو کوفہ بھیجا اور اہل کوفہ کو لکھا: میں نے عمار بن یاسر کو امیر اور عبد اللہ بن مسعودؓ کو معلم بنا کر تمھارے پاس بھیجا ہے۔ یہ دونوں ہستیاں رسول اللہؐ کے برگزیدہ اصحاب اور اصحاب بدر میں سے ہیں۔ تم ان دونوں کی پیروی اور اطاعت کرو اور ان کے ارشادات عالیہ کو دھیان سے سنو۔ عبد اللہ بن مسعود ؓ کو تو میں نے اپنے نفس پر ایثار کر کے تمھارے پاس بھیجا ہے۔،، یوں حضور اکرمؐ کی بشارت پوری ہو گئی کہ ’’تم خود علم سکھانے والے پیارے بچے ہو،، شقیق ابووائل بن ابی سلمہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہؐ کے صحابہ کرام کے حلقے میں بیٹھا ہوں۔ میں نے عبد اللہ بن مسعودؓ کی بات سے انکار کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا اور نہ کسی صحابی نے آپ کا رد کیا۔ یعنی آپ فقاہت کے اس مقام پر فائز تھے کہ آپ کی رائے کے سامنے کسی کو صحابی کو کبھی رائے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔آپ نے 32ھ میں وفات پائی۔[1][2]
نام و نسب
[ترمیم]عبد اللہ نام ، ابوعبدالرحمن کنیت ، والد کا نام مسعود اور والدہ کانام ام عبد تھا ، شجرہ ٔنسب یہ ہے، عبد اللہ بن مسعود بن غافل بن حبیب بن شمخ بن فار بن مخزوم بن صاہلہ بن کاہل بن الحارث بن تمیم بن سعد بن ہذیل بن مدرکہ بن الیاس بن مضر حضرت عبد اللہ ؓ کے والد مسعود ایام جاہلیت میں عبد بن حارث کے حلیف تھے۔ [3] [4][5]
ابتدائی حالات
[ترمیم]ایامِ جاہلیت میں زمانۂ طفولیت عموماً بھیڑ بکریوں کے چرانے میں بسر ہوتا تھا یہاں تک کہ شرفاء و امرا کے بچے بھی اس سے مستثنی نہ تھے، گویا یہ ایک درس گاہ تھی جہاں سادگی، جفاکشی وفاشعاری اور راستبازی کا عملی سبق دیا جاتا تھا۔ مکہ میں جب دعوتِ توحید کا غلغلہ بلند ہوا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی درسگاہ میں تعلیم پا رہے تھے اور عقبہ بن معیط کی بکریاں ان کے سپرد تھیں۔ [6]
اسلام
[ترمیم]ایک روز آنحضرت ﷺ اپنے مونس وہمدم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس طرف سے گذرے جہاں یہ بکریاں چرا رہے تھے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا صاحبزادے تمھارے پاس کچھ دودھ ہو تو پیاس بجھاؤ، بولے میں آپ کو دودھ نہیں دے سکتا ؛ کیونکہ یہ دوسرے کی امانت ہے،آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا تمھارے پاس کوئی ایسی بکری ہے جس نے بچے نہ دیے ہوں عرض کیا ہاں اور ایک بکری پیش کی،آنحضرت ﷺ نے تھن پر ہاتھ پھیر کر دعا فرمائی یہاں تک کہ وہ دودھ سے لبریز ہو گیا،حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اس کو علاحدہ لے جا کر دوہا تو اس قدر دودھ نکلا کہ تینوں آدمیوں نے یکے باد دیگرے خوب سیر ہوکر نوش فرمایا،[7] اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے تھن سے فرمایا خشک ہوجا اور وہ پھر اپنی اصلی حالت پر عود کر آیا۔ اس کرشمہ قدرت نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے دل پر بے حد اثر کیا،حاضر ہوکر عرض کیا مجھے اس مؤثر کلام کی تعلیم دیجئے، آپ ﷺ نے شفقت سے ان کے سرپر دستِ مبارک پھیر کر فرمایا، تم تعلیم یافتہ بچے ہو، غرض اس روز سے وہ معلم دین مبین کے حلقہ تلمذ میں داخل ہوئے اور بلا واسطہ خود مہبط وحی والہام سے ستر سورتوں کی تعلیم حاصل کی جن میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہ تھا۔ [8] اسلام قبول کرنے کے بعد وہ ہمیشہ خدمت بابرکت میں حاضر رہنے لگے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو اپنا خادم خاص بنالیا انشاء اللہ آگے ایک خاص باب میں خدمت گذاریوں کی تفصیل آئے گی۔[9][10][11]
جوشِ ایمان
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس زمانہ مین ایمان لائے تھے جب کہ مومنین کی جماعت صرف چند اصحاب پر مشتمل تھی اور مکہ کی سر زمین میں رسول اللہ ﷺ کے سوا اور کسی نے علانیہ بلند آہنگی کے ساتھ تلاوتِ قرآن کی جرأت نہیں کی تھی ؛چنانچہ ایک روز مسلمانوں نے باہم مجتمع ہوکر اس مسئلہ پر گفتگو کی اور سب نے بالاتفاق کہا، خدا کی قسم قریش نے اب تک بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہوئے نہیں سنا؛لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوا کہ اس پر خطر فرض کو کون انجام دے؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے آگے بڑھ کر اپنے آپ کو پیش کیا ،لوگوں نے کہا کہ تمھارا خطرہ میں پڑنا مناسب نہیں،اس کام کے لیے تو ایک ایسا شخص درکار ہے جس کا خاندان وسیع ہو اور وہ اس کی حمایت میں مشرکین کے دستِ ستم سے محفوظ رہے،لیکن حضرت عبد اللہ ؓ نے جوشِ ایمان سے برانگیختہ ہوکر کہا، مجھے چھوڑ دو خدا میرا محافظ ہے۔ غرض دوسرے روز چاشت کے وقت جب کہ تمام مشرکین قریش اپنی انجمن میں حاضر تھے،اس وارفتہ اسلام نے ایک طرف کھڑے ہوکر سازِ توحید پر مضراب لگائی اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد علم القرآن کا سحر آفرین راگ چھیڑا ،مشرکین نے تعجب اور غور سے سنکر پوچھا ،ابن ام عبد کیا کہہ رہا ہے؟ کسی نے کہا کہ محمد پر جو کتاب اتری ہے اس کو پڑھتا ہے، یہ سننا تھا کہ تمام مجمع غیظ و غضب سے مشتعل ہوکر ٹوٹ پڑا اور اس قدر مارا کہ چہرہ ورم کر آیا، لیکن جس طرح پانی کے چند چھینٹے آگ کو اور زیادہ مشتعل کر دیتے ہیں،اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود کا شعلہ ایمان اس ظلم و تعدی سے بھڑک اٹھا، مشرکین مارتے گئے لیکن ان کی زبان بند نہ ہوئی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب اس فرض کو انجام دے کر خشگی و شکستہ حالی کے ساتھ اپنے احباب میں واپس آئے تو لوگوں نے کہا کہ ہم اسی ڈر سے تم کو جانے نہ دیتے تھے، بولے،خدا کی قسم! دشمنان خدا آج سے زیادہ میری نظر میں کبھی ذلیل نہ تھے، اگر تم چاہو تو کل میں پھر اسی طرح ان کے مجمع میں جا کر قرآن کریم کی تلاوت کروں، لوگوں نے کہا بس جانے دو، اس قدر کافی ہے جس کا سننا وہ ناپسند کرتے تھے اس کو تم نے بلند آہنگی کے ساتھ ان کے کانوں تک پہنچا دیا ۔ [12] [5][11] [5][9][10][11]
ہجرت
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جوش و غیرت ایمان نے رفتہ رفتہ تمام مشرکین قریش کو دشمن بنادیا،یہاں تک کہ ان کی مسلسل وپیہم ایذا رسانیوں سے تنگ آکر دو دفعہ سرزمین حبش کی صحرانوردی پر مجبور ہوئے،پھر تیسری دفعہ دائمی ہجرت کا ارادہ کرکے یثرب کی راہ لی اور یہاں پہنچ کر حضرت معاذ بن جبل ؓ کے مہمان ہوئے، آنحضرت ﷺ نے مدینہ تشریف لانے کے بعدان دونوں میں بھائی چارہ کرا دیا اور مستقل سکونت کے لیے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسجد نبوی کے متصل ایک قطعہ زمین مرحمت فرمایا۔ [13] [4][5][9] [14]
غزوات
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام مشہور و اہم جنگوں میں جانبازی و پامردی کے ساتھ سرگرم پیکار تھے ، غزوۂ بدر میں دو انصاری نوجوانوں نے سرخیل کفار ابوجہل بن ہشام کو تہ تیغ کیا تھا ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ابو جہل کی خبر لاتا،حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ گئے ابھی کچھ کچھ جان باقی تھی،اس کی ڈاڑھی پکڑ کر کہا کہ ابو جہل تو ہی ہے۔ [15]
غزوۂ احد،غزوہ خندق ،صلح حدیبیہ ،غزوہ خیبر اور فتح مکہ میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب تھے، مکہ سے واپس آتے ہوئے راہ میں غزوۂ حنین پیش آیا،اس جنگ میں مشرکین اس طرح یکایک ٹوٹ پڑے کہ مسلمان بدحواسی کے ساتھ منتشر ہو گئے اور دس ہزار کی جماعت میں صرف اسی اصحاب ثابت قدمی کے ساتھ شمع نبوت کے ارد گرد پروانہ وار اپنی فدویت کے جوہر دکھاتے رہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ انھی جان نثاروں میں تھے، فرماتے ہیں کہ جب مشرکین نے سخت حملہ کیا تو ہم لوگ تقریباً اسی قدم تک پسپا ہوئے ؛لیکن پھر جم کر کھڑے ہو گئے، آنحضرت ﷺ اپنے رہوار کو آگے بڑھاتے تھے؛لیکن وہ پیچھے کی طرف ہٹتا تھا اسی حالت میں آپ ایک دفعہ زین سے جھکے میں نے پکار کر کہا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سربلند رہیں خدا نے آپ کو رفعت عطا فرمائی ہے،فرمایا مجھے ایک مٹھی خاک اٹھا دو، میں نے خاک اٹھا کردی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کے منہ کی جانب پھینک دی، جس سے ان کی آنکھیں غبار آلود ہو گئیں، پھر ارشاد ہوا مہاجرین و انصار کہاں ہیں؟ میں نے ارشارہ سے بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہوا کہ انھیں آواز دے کر بلاؤ میں نے چیخ کر پکارا تو یکایک سب کے سب پلٹ پڑے ، اس وقت ان کی تلواریں نور ایمان سے اس طرح چمک رہی تھیں جس طرح شعلہ دہکتا ہے،غرض بگڑا ہوا کھیل پھر بن گیا ،مشرکین مغلوب ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے اور میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ [16] [9][14][17][18]
جنگ یرموک
[ترمیم]رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ایک عرصہ تک عزلت نشین رہے، لیکن عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں جن عظیم الشان فتوحات کا سلسلہ چھڑ گیا تھا اس نے بالاخر ان کی رگ شجاعت میں بھی ہیجان پیدا کیا، 15ھ میں گوشۂ خلوت سے نکل کر رزمگاہ شام کی طرف چل کھڑے ہوئے اور میدان یرموک کی فیصلہ کن جنگ میں سرگرم پیکار ہوکر خوب داد شجاعت دی۔ [19] [9][14][17]
عہدۂ قضاء
[ترمیم]20ھ میں کوفہ کے قاضی مقرر کیے گئے، عہدہ قضاء کے علاوہ خزانہ کی افسری مسلمانوں کی مذہبی تعلیم اوروالی کوفہ کی وزارت کے فرائض بھی ان کے متعلق تھے،چنانچہ فرمان تقرری کے الفاظ یہ ہیں: إني قد بعثت عمار بن ياسر أميراً، و عبد الله بن مسعود معلماً ووزيراً، وهما من النجباء من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، من أهل بدر، فاقتدوا بهما، وأطيعوا واسمعوا قولهما، وقد آثرتكم بعبد الله على نفسي [20]
میں نے تم پر عمار بن یاسر کو امیر اولین عبد اللہ بن مسعود کو معلم اور وزیر بناکر بھیجا ہے،ابن مسعود کو بیت المال کی افسری بھی دی ہے، یہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ذی عزت اصحاب میں سے ہیں جو معرکہ بدر میں شریک تھے اس لیے ان کو سمعاوطاعہ کہو اوراتباع کرو،حقیقت یہ ہے کہ میں نے تمھارے لیے ابن ام عبد (عبد اللہ بن مسعود ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی ذات پر ترجیح دی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے کامل دس سال تک نہایت مستعدی و خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے،اس طویل عرصہ میں بساط سیاست پر گونا گوں انقلاب ہوئے، خلیفہ دوم ؓ نے وفات پائی،خلفیہ ثالث ؓ نے مسندِ خلافت پر قدم رکھا اور خاص کوفہ کی عنان حکومت اہل کوفہ کی شکایت و احتجاج پر یکے بعد دیگرے مختلف والیوں کے ہاتھ میں آئی؛ لیکن وہ حسن احتیاط اورانصاف کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے تھے اس کے لحاظ سے کسی کو ان سے شکایت پیدا نہ ہوئی۔ فطری رحم دلی،نرمی اور تلطف کے باعث عفو ،درگزر اور چشم پوشی ان کا مخصوص شیوہ تھا؛ لیکن اسی کے ساتھ وہ اس راز سے بھی واقف تھے کہ بارگاہِ عدالت میں جب کسی مجرم پرکوئی جرم ثابت ہوجائے تو اس کے ساتھ نرمی ودرگذر سے پیش آنا،درحقیقت نظامِ حکومت ارکان واساطین کو متزلزل کردینا ہے،اس بنا پر وہ اثبات جرم کے بعد اپنی طبعی نرمی وشفقت کے باوجود قانونِ معدلت کے اجرا میں کبھی دریغ نہ فرماتے تھے،ایک دفعہ ایک شخص نے اپنے برادرزادہ کو شراب خواری کے جرم میں پیش کیا،حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے تحقیقات کے بعد حد جاری کرنے کا حکم دے دیا، لیکن جب درے پڑنے لگے تو اس کا دل رحم وشفقت سے بھر آیا اور منت وسماجت کے ساتھ سفارش کرنے لگا، انھوں نے غضبناک ہوکر فرمایا تو نہایت ظالم چچا ہے،اس کو حد شرعی کا مستحق ثابت کرکے چھوڑ دینے کی سفارش کرتا ہے، جواب ممکن نہیں، اسلام میں سب سے پہلے ایک عورت پرحد جاری کی گئی جس نے چوری کی تھی، آنحضرت ﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیدیا اورفرمایا کہ تم لوگوں کو اعراض وچشم پوشی سے کام لینا چاہیے، کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ خدا تمھیں بخش دے۔
بعض اوقات ایک ہی جرم مجرموں کے اختلاف حیثیات کے لحاظ سے ان کو مختلف سزاؤں کا مستوجب قرار دیتا ہے،حضرت عبد اللہ اس نکتہ سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے ،ایک دفعہ ان کو اطلاع دی گئی کہ مسیلمہ کذاب کے متبعین میں سے کچھ لوگ اب تک موجود ہیں جو اس کو رسولِ خدا کہتے ہیں، حضرت عبد اللہ ؓ نے چند سپاہی بھیج کر ان کو گرفتار کرا دیا اور سب کی توبہ قبول کرکے چھوڑدیا ؛لیکن ان کے سرگروہ ابن نواحہ کے لیے قتل کی سزا تجویز کی، لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو بولے کہ ابن نواحہ اور ابن اثال دو شخص مسیلمہ کذاب کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سفیر بن کر گئے تھے،آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم مسلیمہ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ انھوں نے کہا ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم سفیر نہ ہوتے تو میں تمھیں قتل کرادیتا، اس بنا پر جبکہ وہ اب تک اس کے اس باطل عقیدہ سے باز نہیں آیا ہے تو رسول اللہ ﷺ کی خواہش کا پورا کرنا ضروری تھا۔
حضرت عثمان بن عفان ؓ کے آخری عہدِ خلافت میں جب کوفہ سازش فتنہ پردازی اور بے امنی کا مرکز ہو گیا تو عہدہ قضاء کے لحاظ سے قدرۃ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کو بھی غیر معمولی دشواریاں پیش آئیں، ایک دفعہ عقبہ بن ولید کے دورِ امارت میں ایک ساحر کا مقدمہ پیش ہوا جو امیر کوفہ کے سامنے اپنی بازیگری کے کرشمے دکھا رہا تھا، لیکن فیصلہ صادر ہونے سے پہلے ہی جندب نامی ایک شخص نے اس کو قتل کر ڈالا؛ چونکہ یہ صریحاً معاملاتِ حکومت میں مداخلت بیجا تھی،اس لیے انھوں نے قاتل کی گرفتاری کا حکم دے کر دربار خلافت کو مفصل واقعہ سے مطلع کیا،وہاں سے حکم آیا کہ معمولی تنبیہ و تعزیر کے بعد اس کو چھوڑ دو اور لوگوں کو سمجھاؤ کہ پھر آئندہ اس قسم کے واقعات کا اعادہ نہ ہونے پائے، حضرت عبد اللہ ؓ نے اس حکم کی تعمیل کی اوراہل کوفہ کو جمع کرکے فرمایا، صاحبو!صرف شک وشبہ پر کوئی کام نہ کرو اور عدالت کو اپنے ہاتھ میں نہ لے لو ،مجرموں اور خطاکاروں کو سزا دینا ہمارا فرض ہے،تم کو اس میں مداخلت کی ضرورت نہیں۔ [21] اسی سال ولید بن عقبہ والی کوفہ پر شراب خواری کا الزام لگایا گیا اور ایک جماعت نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ وہ تخلیہ میں شراب پیتا ہے،انھوں نے جواب دیا کہ جاسوسی میرا فرض نہیں ہے،اگر ایک شخص چھپ کر کوئی کام کرتا ہے تو میں اس کی پردہ داری کے درپے نہیں ہو سکتا،ولید بن عقبہ نے یہ جواب سنا تو ناراض ہوکر ان کو بلا بھیجا اور پوچھا کہ کیا مفسدین کو ایسا ہی جواب دینا مناسب تھا؟میں چھپ کر کون کام کرتا ہوں ، یہ تو اس شخص کے لیے کہا جا سکتا ہے جو مشکوک ہو،غرض اسی سوال وجواب میں بات بڑھ گئی اور دونوں ایک دوسرے سے کشیدہ خاطر اٹھے۔ [22] [23]
خزانہ کی افسری
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ منصب قضاء کے ساتھ خزانہ کی افسری پر بھی مامور تھے،کوفہ عظمت وسعت وکثرتِ محاصل کے لحاظ سے اس کا بیت المال نہایت اہمیت رکھتا تھا، اس سے لاکھوں روپے کے وظائف جاری تھے، فوجی مرکز ہونے کے باعث ہزاروں سپاہیوں کی تنخواہیں مقرر تھیں اور خراسان ، ترکستان اور آرمینیہ پر وقتاً فوقتاً جو فوج کشی ہوتی رہتی تھی، اس کے مصارف ادا کیے جاتے تھے،اس بنا پر دوسرے اہم مشاغل کے ساتھ اس شعبہ کی اس طرح نگرانی کرنا کہ ایک حبہ بھی اِدھر کا اُدھر نہ ہونے پائے درحقیقت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ کی انتظامی قابلیت ، بیدار مغزی اور حساب فہمی کا حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ ذاتی حیثیت سے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ زہد و بے نیازی کے اقلیم کے بادشاہ تھے، دنیا کی بڑی سے بڑی نعمتوں کو حقارت کے ساتھ ٹھکرادیتے تھے، لیکن قومی سرمایہ کے تحفظ میں اس قدر سخت تھے کہ اعزہ احباب،افسر اوروالیِ ملک کے ساتھ بھی کسی قسم کی رعایت ملحوظ نہ رکھتے تھے،ایک دفعہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ والیٔ کوفہ نے بیت المال سے قرض لیااور ناداری کے باعث عرصہ تک ادا نہ کرسکے، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ مہتمم بیت المال کی حیثیت سے نہایت سختی کے ساتھ ان سے تقاضا شروع کیا، یہاں تک کہ ایک روز تلخ کلامی کی نوبت پیش آئی،حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے جھلا کر چھڑی زمین پر پھینک دی اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا" اے آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے"چونکہ وہ نہایت مستجاب الدعوات مشہور تھے، اس لیے حضرت عبد اللہ نے خوف زدہ ہوکر کہا دیکھو میرے لیے بددعا نہ کرنا، بولے"خدا کی قسم ! اگر خوفِ خدا نہ ہوتا تو میں تمھارے لیے سخت بد دعا کرتا "حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کی برافروختگی کا یہ انداز دیکھا تو تیزی کے ساتھ کاشانۂ امارت سے باہر نکل آئے۔ اس واقعہ کی رپورٹ دربار خلافت میں پہنچی تو امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سخت ناراضی ظاہر فرمائی اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معزول کرکے ولید بن عقبہ کو کوفہ کا والی بناکر بھیجا، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بھی گو اس ناراضی سے مستثنی نہ تھے تاہم وہ ایک عرصہ تک اپنے عہدہ پر برقرار رہے۔ [24] [17][18][25]
معزولی
[ترمیم]حضرت عثمان بن عفان ؓ کے اخیر عہد حکومت میں جب سازش ومفسدہ پردازی کا بازار گرم ہوا تو مخفی ریشہ دوانیوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کو بھی زیادہ دنوں تک اپنے عہدہ پر برقرار رہنے نہ دیا اور یکایک معزول کر دیے گئے، معزولی کی خبر نے کوفہ کی علمی دنیا کو ماتم کدہ بنادیا،احباب معتقدین، تلاندہ اور اعیانِ شہر کی ایک بڑی جماعت نے مجتمع ہوکر اس فرمانِ عزل پر سخت ناراضی ظاہر کی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مصر ہوئے کہ آپ کوفہ سے تشریف نہ لے جائیں اگر اس کی پاداش میں کوئی مصیبت پیش آئے گی تو ہم سب اپنی جانیں قربان کرنے کو حاضر ہیں، بولے امیر المومنین کی اطاعت مجھ پر فرض ہے میں نہیں چاہتا کہ فتنہ و فساد جو عنقریب برپا ہونے والا ہے اس کی ابتدا میری ذات سے ہو، غرض وہ عمرہ کی نیت کرکے ایک جماعت کے ساتھ حجاز کی طرف روانہ ہو گئے۔ [26] [9][27]
حضرت ابوذر ؓ کی تجہیز وتکفین
[ترمیم]جب مقام ربذہ میں پہنچے تو وسطِ راہ میں ایک عورت کو سرگرداں و پریشان دیکھ کر پوچھا خیر ہے، کہا ایک مرد مسلمان کی تجہیز وتکفین کیجئے پوچھا کون ؟ کہا ابوذر غفاری ؓ صحابی رسول ﷺ آپ" فدیتہ بابی وامی " کہہ کر مع اپنے ساتھیوں کے اتر پڑے،حضرت ابوذر ؓ ایک بلند پایہ اور نہایت زاہد و متقشف صحابی تھے وہ دارالخلافت کی روز افزوں تمدنی زندگی سے اس قدر بیزار ہوئے کہ ربذہ کے سنسان جنگل میں اٹھ آئے اور بالآخر اسی سر زمین نے ان کے لیے اپنا آغوشِ شوق پھیلا دیا، یہ لوگ حضرت ابوذر ؓ کے پاس پہنچے ان کا دم واپسیں تھا،اپنی تجہیز وتکفین کے متعلق ضروری ہدایات دے کر واصل بحق ہوئے، حضرت عبد اللہ ؓ نے حضرت ابوذر کی وصیت کے مطابق ان کی تجہیز وتکفین کرکے نمازِ جنازہ پڑھا کر سپردِ خاک کیا۔ [28] حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے مکہ پہنچ کر امیر المومنین کو حضرت ابوذر غفاری ؓ کی وفات کی اطلاع دی اور عمرہ سے فارغ ہوکر مدینہ پہنچے کہ زندگی کے بقیہ ایام عزلت نشینی و عبادت الہی میں بسر ہوں۔
علالت
[ترمیم]32ھ میں جب کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سن مبارک ساٹھ برس سے متجاوز ہو چکا تھا ایک روز ایک شخص نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا، خدا مجھے آپ کی آخری زیارت سے محروم نہ رکھے، میں نے گذشتہ شب کو خواب میں دیکھا کہ حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایک بلند منبر پر تشریف فرما ہیں اور آپ سامنے حاضر ہیں،اسی حالت میں ارشاد ہوتا ہے،عبد اللہ ابن مسعود ؓ! میرے بعد تمھیں بہت تکلیف پہنچائی گئی،آؤ میرے پاس چلے آؤ ،فرمایا خدا کی قسم تم نے یہ خواب دیکھا ہے؟ بولا، ہاں، فرمایا تم میرے جنازہ میں شریک ہو کر مدینہ سے کہیں جاؤ گے۔
یہ خواب درحقیقت واقعہ ہوکر پیش آیا، چند ہی دنوں کے بعد اس طرح بیمار ہوئے کہ لوگوں کو ان کی زندگی سے مایوسی ہو گئی،امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ؓ سے چونکہ ایک گونہ شکررنجی تھی اور انھوں نے دو برس سے ان کا مقررہ وظیفہ مطلقاً بند کر دیا تھا،اس لیے وہ اِس آخری لمحہ حیات میں عفو خواہی و عیادت کے لیے تشریف لائے اور اس طرح گفتگو شروع کی۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ : آپ کو کس مرض کی شکایت ہے؟ حضرت عبد اللہ ؓ : اپنے گناہوں کی۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ : آپ کیا چاہتے ہیں ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ :خدا کی رحمت۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ : آپ کے لیے طبیب بلاؤں ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ : مجھے طبیب ہی نے بیماری میں ڈالا۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ :آپ کا وظیفہ جاری کردوں؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ : مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ : آپ کی صاحبزادیوں کے کام آئے گا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود : کیا آپ کو میری لڑکیوں کے محتاج و دست نگر ہو جانے کا خوف ہے؟ میں نے انھیں حکم دیا ہے کہ ہر رات سورۂ واقعہ پڑھ لیا کریں؛ کیونکہ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو ہر رات کو سورۂ واقعہ پڑھے گا وہ کبھی فاقہ مست نہ ہوگا۔ [29]
مذکورہ بالا سوال وجواب سے بعض اصحاب سیر کو یہ غلط فہمی ہے کہ اس آخری وقت میں بھی دونوں ایک دوسرے سے صاف نہ ہوئے ؛لیکن طبقات ابن سعد کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ باہمی عفو و خواہی کے صیقل نے دونوں کے آئینہ قلب کو بالکل شفاف کر دیا تھا، محمد بن سعد نے اس واقعہ کی صحت پر خاص طور سے زور دیا۔ [30] [31]
وفات
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کو جب سفر آخرت کا یقین ہو گیا تو انھوں نے حضرت زبیر ؓ اور ان کے صاحبزادہ حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کو بلا کر اپنے مال واسباب اور اولاد نیز خود اپنی تجہیز وتکفین کے متعلق مختلف وصیتیں فرمائیں اور ساٹھ برس سے کچھ زیادہ عمر پاکر 32ھ میں داعیِ اجل کو لبیک کہا، مستند وصحیح روایت کے مطابق امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ؓ نے جنازے کی نماز پڑھائی اورحضرت عثمان بن مظعون ؓ کے پہلو میں سپرد خاک کیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ [32]
علم و فضل
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ان صحابہ کرام میں ہیں جو اپنے علم و فضل کے لحاظ سے تمام دنیائے اسلام کے امام تسلیم کیے گئے ہیں ، تم نے پہلے پڑھا ہے کہ وہ ایام جاہلیت میں عقبہ بن معیط کی بکریاں چراتے تھے،لیکن خدا کی قدرت معلم ربانی کی نگاہ انتخاب نے گلہ بانی کی درسگاہ سے نکال کر اپنے حلقہ تلمذ میں داخل کر لیا اور علم و فضل کے آسمان پر مہر منیر بناکر چمکایا۔ [33]
علم کا شوق
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ابتداءہی سے علم کے شائق تھے، قبولِ اسلام کے ساتھ ہی انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے تعلیم دیجئے بشارت ملی انک غلام معلم تم تعلیم یافتہ لڑکے ہو۔ اس شوق کا یہ اثر تھا کہ شب و روز سر چشمہ علم سے مستفیض ہوتے، خلوت، جلوت، سفر، حضر، غرض ہر موقع پر ساقیِ معرفت کی خدمت میں حاضر رہتے تھے، لیکن طلب صادق کی پیاس نہ بجھتی؛ یہاں تک کہ آپ جب داخل حرم نہ ہوتے تو اپنی والدہ حضرت ام عبدؓ کو بھیجتے کہ وہ خانگی زندگی کے معلومات بہم پہنچائیں۔ [34]
رسالت مآب ﷺ کی خدمت و صحبت کا اثر
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدام خاص میں شامل تھے، مسواک اٹھاکر رکھنا، جوتہ پہنانا، سفر کے موقع پر کجاوہ کسنا اور عصا لے کر آگے چلنا آپ کی مخصوص خدمت تھی، اس ختم گزاری کے ساتھ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمدم و ہمراز بھی تھے،[35] مخصوص صحبتوں میں شریک کیے جاتے بلااذن تخلیہ کے موقعوں پر حاضر ہوتے اور راز کی تمام باتیں سن سکتے تھے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ ان کو حضور کے بستر مسواک اور وضو کے پانی والے معزز خطاب دے رکھا تھا۔ [36]
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ ہم یمن سے آئے اور کچھ دنوں تک مدینہ میں رہے، ہم نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس اس کثرت سے آتے جاتے دیکھا کہ ہم ان کو عرصہ تک خاندان رسالت کا ایک رکن گمان کرتے رہے،[37] غرض اس خدمت گزاری اور ہر وقت کی حاضر باشی نے ان کو قدرۃ سب سے زیادہ خرمن کمال کی خوشہ چینی کا موقع دیا۔ ،[9][38]
قرآن
[ترمیم]قرآن کریم جو اصل اصول اسلام ہے،حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس کے سب سے بڑے عالم تھے، فرماتے ہیں کہ ستر سورتیں میں نے خاص مہبط وحی والہام ﷺ کے دہن مبارک سے سن کریاد کی تھیں،[39] ان کا دعویٰ تھا کہ قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں جن کی نسبت میں یہ نہ جانتا ہوں کہ کب کہاں اور کس بارہ میں اتری ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کا مجھ سے زیادہ عالم ہوتا تو میں اس کے پاس سفر کرکے جاتا، ایک دفعہ انھوں نے مجمع عام میں دعویٰ کیا کہ تمام صحابہ جانتے ہیں کہ میں قرآن کا سب سے زیادہ عالم ہوں، گو سب سے بہتر نہیں ہوں، شقیق اس جلسہ میں موجود تھے وہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد میں اکثر صحابہ ؓ کے حلقوں میں شریک ہوا،مگر کسی کو عبد اللہ بن مسعود ؓ کے دعویٰ کا منکر نہیں پایا۔ ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم اور عبد اللہ بن مسعود ؓ اپنے چند احباب کے ساتھ ابو موسی اشعری ؓ کے مکان میں تھے، حضرت عبد اللہ ؓ چلنے کے قصد سے کھڑے ہوئے تو ابو مسعود ؓ نے ان کی طرف اشارہ کرکے کہا، میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد ان سے زیادہ کوئی شخص قرآن کا عالم ہے،ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا کیوں نہیں!یہ اس وقت بارگاہِ رسالت میں حاضر رہتے تھے جب کہ ہم لوگ غائب ہوتے تھے اور ان کو ان موقعوں میں باریاب ہونے کی اجازت تھی جب کہ ہم لوگ روک دیے جاتے تھے،حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں عبد اللہ بن مسعود ؓ کو اس دن سے بہت دوست رکھتا ہوں جس دن رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا کہ ‘قرآن چار آدمیوں سے حاصل کرو’ اور سب سے پہلے ابن ام عبد ؓ کا نام لیا،حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے جب وفات پائی تو حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت ابو مسعودؓ نے ایک دوسرے سے کہا، کیا عبد اللہ نے اپنے جیسا کسی کو چھوڑا دوسرے نے کہا نہیں وہ خلوت و جلوت ہر موقع پر حاضر رہتے تھے جبکہ ہم لوگوں کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ [40]
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے پاس عہد نبوت کا جمع کیا ہو ایک مصحف بھی تھا جس کو وہ نہایت عزیز رکھتے تھے،چنانچہ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ؓ نے جب مصحف صدیقی کے سوا تمام مصاحف کو تلف کر دینے کا حکم دیا تو انھوں نے نہایت ناگواری کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی۔ چونکہ اس مصحف کے نقل و ترتیب کی خدمت حضرت زید بن ثابت ؓ نے انجام دی تھی،اس لیے وہ اکثر ان کی ناتجربہ کاری پر معترض ہوتے تھے،شقیق بن سلمہ رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انھوں نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا، ستر سے کچھ زیادہ سورتیں میں نے خاص رسولِ خدا ﷺ کی زبان سے سن کر یاد کی تھیں، حالانکہ زید بن ثابت ؓ اس وقت لڑکے تھے اور لڑکوں کے ساتھ کھیلتے پھرتے تھے،[41] اس سے بڑھ کر ان کی قرآن دانی کی اور کیا سند ہو سکتی ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر لوگوں سے فرمایا کہ قرآن چار آدمیوں سے سیکھو، عبد اللہ بن مسعود ؓ،سالم ؓ، معاذ ؓ اور ابی بن کعب ؓ۔ [42] [43][44]
تفسیر
[ترمیم]قرآن مجید کی تفسیر اور مناسب موقعوں پر بر جستہ آیاتِ قرآنی کی تلاوت میں خاص مہارت رکھتے تھے،ایک دفعہ یہ حدیث زیر بحث تھی کہ جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال مارے گا قیامت کے روز خدا اس پر نہایت غضبناک ہوگا، حضرت عبد اللہ ؓ نے اس حدیث کی تصدیق میں برجستہ یہ آیت تلاوت فرمائی۔ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ [45] بے شک وہ لوگ جو خدا کے عہد اور اپنی قسموں کے معاوضہ میں نفع قلیل حاصل کرتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔ [46] اسی طرح ایک دفعہ اپنے حلقہ درس میں بیان فرما رہے تھے کہ ایک روز رسول خدا ﷺ سے سوال کیا گیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے، ارشاد ہوا کہ شرک،پھر قتلِ اولاد پھرآپ نے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرنا، اس حدیث کو بیان کرکے انھوں نے برجستہ اس آیت سے اس کی تصدیق فرمادی: وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا [47] جولوگ خداکے ساتھ کسی دوسرے کو نہیں پکارتے اور ناحق جان نہیں مارتے کہ اللہ نے اس کو حرام کررکھا ہے اورنہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو شخص ایسا کرے گا وہ ان گناہوں کا خمیازہ اٹھائے گا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر یں حدیث وتفسیر کی کتابوں میں بکثرت منقول ہیں،اگر ان کو جمع کیا جائے تو ایک مستقل کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ [31][48]
تفسیر بالرائے سے احتراز
[ترمیم]محض اپنی رائے و قیاس سے آیات قرآنی کی تشریح و تفسیر کرنا علمائے امت کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے ،حضرت عبد اللہ بن مسعود اگر کسی کو ایسا کرتے دیکھتے تو نہایت برہم ہوتے، ایک مرتبہ کسی نے آکر کہا کہ ایک شخص مسجد میں،‘ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ ’ جس دن آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔کی تفسیر محض اپنی رائے سے کر رہا ہے ، وہ کہتا ہے کہ" قیامت کے روز اس قدر دھواں ہوگا کہ لوگ اس میں سانس لے کر زکام یا اسی قسم کی ایک بیماری میں مبتلا ہو جائیں گے، بولے دانشمندی یہ ہے کہ اگر انسان کسی امر سے واقف ہو تو بیان کرے اور اگر نا واقف ہو تو اللہ اعلم کہہ کر خاموش ہوجائے،یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب کہ قریش کی نافرمانی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بددعا کے باعث تمام عرب قحط کی مصیبت میں مبتلا تھا، لوگ جب آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے تھے تو بھوک کی شدت اور ضعف و ناتوانی کے باعث زمین سے آسمان تک دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا، خدائے پاک نے اس موقع پر کفار کو متنبہ کیا کہ اس سے بھی ایک زیادہ ہولناک اور سخت انتقام کا دن آنے والا ہے اور وہ جنگ بدر کا دن ہے۔ [49] [50]
قرأت
[ترمیم]قرأت میں غیر معمولی کمال حاصل تھا، صحاح میں بکثرت ایسی روایتیں ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ قرأت میں ابن ام عبد یعنی حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی پیروی کی جائے، ایک مرتبہ وہ نماز میں سورۂ نساء تلاوت فرما رہے تھے کہ خیر الانام حضرت ابوبکر صدیق ؓ وحضرت عمر بن خطاب ؓ کے ساتھ مسجد تشریف لائے اور ان کی خوش الحانی اور باقاعدہ ترتیل سے خوش ہوکرفرمایا: اسئل تعطہ اسئل تعطہ جو کچھ سوال کرو پورا کیا جائے گا، جو کچھ سوال کرو پورا کیا جائے گا۔ پھر ارشاد ہوا کہ جو پسند کرتا ہے کہ قرآن کو اسی طرح ترو تازہ پڑھنا سیکھے، جس طرح وہ نازل ہوا ہے تو اس کو قرأۃ ابن ام عبد کی اتباع کرنا چاہیے۔ دوسرے روز حضرت ابوبکر صدیق ؓ ان کے پاس بشارت و تہنیت کے خیال سے تشریف لائے اور پوچھا کہ رات آپ نے خدا سے کیا دعا مانگی ؟ بولے میں نے کہا اے خدا! مجھے ایسا ایمان عطا کر جس کو کبھی جنبش نہ ہو،ایسی نعمت دے جو کبھی ختم نہ ہو اورخلد بریں میں حضرت محمد ﷺ کی دائمی رفاقت نصیب کر۔ [51] وہ تلاوت قرآن کے نہایت شائق تھے اور تنہائی کے موقع میں عموماً اس سے دل بہلایا کرتے ،بسا اوقات خود آنحضرت ﷺ بھی ان سے قرآن کی کوئی سورت پڑھواکر سنتے اور محظوظ ہوتے،خود کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ارشاد ہوا کہ سورۂ نساء پڑھ کر سناؤ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر نازل ہوا اور آپ کو میں سناؤں! ارشاد ہوا کیوں نہیں ؛لیکن میں دوسرے کی زبان سے سننا چاہتا ہوں، غرض میں نے تعمیل ارشاد کی اور جب اس آیت پر پہنچا ‘ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا ’ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ [52] [53]
روایت میں خوف واحتیاط
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کو بارگاہِ نبوت میں جو مخصوص تقرب حاصل تھا اس کے لحاظ سے نہایت،وسیع معلومات رکھتے تھے، لیکن روایت میں وہ حد درجہ محتاط تھے ابو عمرو شیبانی کہتے ہیں کہ میں عبد اللہ ابن مسعو ؓ کی صحبت میں کامل ایک سال رہا، لیکن بہت کم قال رسول اللہ کا لفظ ان کی زبان سے سنا،ایک مرتبہ انھوں نے ایک حدیث بیان کی تو تمام جسم میں رعشہ آگیا اور کہنے لگے، آپﷺ نے اسی طرح فرمایا تھا یا اس کے قریب قریب یا اسی کے مشابہ۔ [54] عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ تقریباً ایک سال تک حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں میری آمدورفت رہی، لیکن میں نے کبھی ان کو رسول اللہ ﷺ کے انتساب سے کچھ بیان کرتے ہوئے نہیں سنا، ایک مرتبہ حدیث بیان کرتے ہوئے اتفاقا ًان کی زبان سے قال رسول اللہ کا فقرہ نکل گیا، تو دیکھا کہ ان کا تمام بدن تھرااٹھا اورخوف وہراس سے عرق عرق ہو گئے۔ [55] [56]
تلامذہ کو احتیاط کی ہدایت
[ترمیم]حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے شاگردوں کو بھی عموماً روایت حدیث میں احتیاط کی ہدایت کیا کرتے اور فرماتے کہ جب تم کوئی حدیث بیان کرو تو اس خیال کو پیش نظر رکھو کہ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ مقدس پرہیز گار اور ہدایت یاب تھے۔ [57]
کثرت روایات کی وجہ
[ترمیم]لیکن ان واقعات سے یہ قیاس نہ کرنا چاہیے کہ وہ مطلقاً حدیثیں روایت نہیں کرتے تھے، کیونکہ معلم دین ہونے کی حیثیت سے حضرت خیر الانام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات و ارشادات کا پھیلانا ان کے فرائض منصبی میں داخل تھا، یہی وجہ ہے کہ خوف واحتیاط کے باوجود صحاح و مسانید میں ان سے بکثرت روایات منقول ہیں،چنانچہ آپ کے جملہ مرویات کی تعداد 848 ہے ان میں سے 64 صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں ہیں ان کے علاوہ 21 بخاری میں ہیں اور 35 مسلم میں ہیں۔ [58] [59]
مذاکرۂ حدیث کا شوق
[ترمیم]بسا اوقات وہ مذاکرۂ حدیث کے شوق میں تلامذہ واحباب کے گھر پر تشریف لے جاتے اور دیر تک عہدِ نبوت کا ذکر مذکور رہتا،وابصہ اسدی فرماتے ہیں کہ میں کوفہ میں دوپہر کے وقت اپنے گھر میں تھا کہ یکایک دروازہ سے السلام علیکم کی آواز بلند ہوئی میں نے جواب دیا باہر نکل کر دیکھا،تو عبد اللہ بن مسعودؓ تھے، میں نے کہا ابو عبد الرحمن! یہ ملاقات کا کون سا وقت ہے؟ بولے آج بعد مشاغل ایسے پیش آگئے کہ دن چڑھ گیا اور اب فرصت ملی تو یہ خیال آیا کہ کسی سے باتیں کرکے عہد مقدس کی یاد تازہ کرلوں، غرض وہ بیٹھ کر حدیثیں بیان فرمانے لگے اور دیر تک پر لطف صحبت رہی۔ [60]
آداب روایت
[ترمیم]حضرت عبد اللہ ؓحدیث روایت کرتے وقت نہایت مؤدب متین اور سنجیدہ بن جاتے تھے اور اس طرح نقشہ کھینچ دیتے تھے کہ گویا سامع خود حضرت رسول مقبول ﷺ کی زبان فیض ترجمان سے سن رہا ہے،ایک مرتبہ انھوں نے ایک طولانی حدیث بیان فرمائی جس میں قیامت، جنت اور مومنین و سبحان رب العزت کے سوال وجواب کا تذکرہ تھا، حدیث ختم کرکے متبسم ہوئے اور فرمایا ،تم پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنستاہوں؟لوگوں نے کہا آپ کیوں ہنستے ہیں؟ اس لیے کہ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح تبسم فرمایا تھا۔[61] [62]
فقہ
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ان فاضل صحابہ ؓ میں ہیں جو فقہ کے موسس اور بانی سمجھے جاتے ہیں،خصوصاً فقہ حنفی کی عمارت تمام تر حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ہی کے سنگِ اساس پر تعمیر ہوئی۔ پہلے گذر چکا ہے کہ حضرت عبد اللہ ؓ کوفہ کے قاضی مقرر ہوئے تو اس کے ساتھ تعلیم دین کی خدمت بھی سپرد ہوئی تھی، اس بنا پر ان کو قدرۃ ایک حلقہ درس قائم کرنا پڑا اور عام مسلمانوں میں مسائل فقہ اور اپنے اجتہادات کی ترویج واشاعت کا نہایت کافی موقع ہاتھ آیا،اس طرح تمام خطہ عراق فقہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیرو ہو گیا اور ان کی درس گاہ سے بڑے بڑے اہل کمال سند فضیلت لے کر نکلے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے مخصوص تلامذہ میں سے علقمہ اور اسود نے فقہ میں خاص شہرت حاصل کی، پھر ان کے بعد ابراہیم نخعی نے کوفہ کی فقہ کو بہت کچھ وسعت دی،یہاں تک کہ ان کو فقیہ العراق کا لقب ملا۔ [63]
اصول فقہ
[ترمیم]قرآن ،حدیث ،اجماع اور قیاس فقہ اسلامی کی عمارت کے چار ستون ہیں اور یہی اصول فقہ کے موضوع فن بھی ہیں، ان میں سے دونوں مؤخر الذکر کی ضرورت رسول اللہ ﷺ کے بعد پیش آئی، کیونکہ مہبط وحی و الہام کی موجودگی میں اجماع و قیاس کی ضرورت ہی کیا تھی۔ [64]
اجماع
[ترمیم]اجماع کو عملی حیثیت سے رواج دینا گو حضرت ابوبکر صدیق ؓ و حضرت عمر فاروق ؓ کا خاص طغرائے امتیاز ہے،تاہم اصولی حیثیت سے پہلے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے اس کو مستحسن قرار دیا اور فرمایا: مارای المسلمون حسنا فھو عند اللہ حسن وماراواسیئا فھوعنداللہ سئی جس چیز کو تمام مسلمان بہتر سمجھ لیں وہ خدا کے نزدیک بھی بہتر ہے اورجس کو براسمجھ لیں وہ خدا کے نزدیک بھی برا ہے۔ اور یہی درحقیقت اجماع کی اصلی روح ہے [65]
قیاس
[ترمیم]اصولِ فقہ کا چوتھا رکن قیاس ہے، جو درحقیقت قرآن پاک،حدیث نبوی اوراجماع ہی کی ایک شاخ ہے، لیکن توسیع فقہ اور نئے نئے مسائل کی گتھیوں کی سلجھانے کے لحاظ سے وہ خاص اہمیت رکھتا ہے،یہ ظاہر ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں تمام جزئیات مذکور نہیں اور نہ اس قدر احاطہ ممکن تھا،اس لیے علت مشترکہ نکال کر ان جزئیات غیر منصوصہ کو احکام منصوصہ پر قیاس کرنا فقیہ یا مجتہد کا سب سے اہم فرض ہے اور درحقیقت یہی وہ موقع ہے جہاں اس کی قوتِ اجتہاد تفریع مسائل و استنباط احکام کا امتحان ہوتا ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عملاً قیاس شرعی سے کام لے کر آیندہ نسلوں کے لیے ایک وسیع شاہراہ قائم کردی اور ضمناً بہت سے ایسے قاعدے مقرر کردئے جو آج ہمارے علم اصولِ فقہ کی بنیاد ہیں،ہم یہاں ان کے چند قیاسی مسائل نقل کرتے ہیں جن سے ان کی قوت استنباط کا اندازہ ہوگا۔ حج یا عمرہ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی احرام باندھ لے اوردشمن کے سدِ راہ ہو جانے سے حج یا عمرہ کے ارکان کو پورا نہ کرسکے تو وہ صرف قربانی کا جانور بھیج کر احرام کھول دے اور آئندہ جب کبھی موقع میسر آئے اپنے ارادہ کو پورا کرے جیسا کہ خود آنحضرت ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا،لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ مجبوری کو علتِ مشترکہ قرار دے کر مریض یادوسرے مجبوراشخاص کے لیے بھی یہی حکم جاری فرماتے ہیں،چنانچہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ میں عمرہ کے لیے احرام باندھ چکا تھا کہ اتفاقا ًسانپ نے کاٹ کھایا اوراب جانے کی طاقت نہیں رہی، بولے تم صرف قربانی بھیج کر احرام کھول دو اورجب ممکن ہو عمرہ ادا کرو۔ [66] اس قیاس سے ضمناً دونہایت اہم اصول منضبط ہوتے ہیں، (ا) اشتراک علت اشتراکِ حکم کا باعث ہے۔(2) سبب کا خاص ہونا حکم کی تعمیم پر کچھ اثر نہیں ڈالتا۔ علم فرائض کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ میت سے جس کو زیادہ قرابت ہوگی، اس کو وراثت میں ترجیح دے جائے گی، مثلاً حقیقی بھائی کو اخیافی یا علاتی بھائی پر صرف اس لیے ترجیح ہے کہ اول الذکر کو ماں اورباپ دونوں کی طرف سے قرابت ہے،برخلاف اس کے دونوں مؤخر الذکر میں صرف ایک ہی حیثیت پائی جاتی ہے،حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس اصول کو دوسرے قرابت داروں میں بھی پیش نظر رکھتے ہیں، مثلاً ایک میت نے زید اور بکر دو چچازاد بھائی چھوڑے اور زید اس رشتہ کے علاوہ میت کا اخیافی بھائی بھی ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس صورت میں ازدیاد قربت کی علت مرحجہ نکال کر زید کو بکر پر ترجیح دیتے ہیں، لیکن جمہور علمائے اہل سنت عصبہ ہونے کی حیثیت سے ان دونوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے ۔ [67] [9][68][69]
اجتہاد
[ترمیم]مذکورہ بالاقیاسی مسائل کے علاوہ فقہ اسلامی کی بہت سی پیچیدہ گتھیاں صرف حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ناخن اجتہاد سے حل ہوئیں ،آپ استنباط احکام و تفریع مسائل پر غیر معمولی قدرت رکھتے تھے،اورنصوص شرعیہ میں ناسخ و منسوخ، موقت و موبٔد کی تضریق کرکے صحیح استنباطِ حکم راہ پیدا کر لیتے تھے، مثلا ایک دفعہ استفتاء آیا کہ ایک حاملہ عورت کے لیے جس کا شوہر مر گیا ہو، عدت کیا ہے؟ چونکہ قرآن مجید میں عدت کے متعلق مختلف احکام ہیں ،سورۂ بقرہ میں عام حکم ی ہے۔ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا [70] تم میں سے جو لوگ مرجائیں اوربیویاں چھوڑیں تو وہ (عورتیں) جو اپنے آپ کو چار مہینے دس دن تک روکے رکھیں۔ اور سورۂ نساء میں خاص حاملہ عورتوں کے لیے جن کے شوہر مرگئے ہوں یہ حکم ہے۔ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ [71] اور جو عورتیں حاملہ ہوں ان کی مدت یہ ہے کہ اپنا حمل وضع کریں اس بنا پر حضرت علی ؓ کا خیال تھا جس میں زیادہ مدت صرف ہو وہی زمانہ عدت قرار دیا جائے ، تاکہ دونوں آیتوں کا توافق پیدا ہوجائے ،لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے حاملہ عورت کے حق میں سورۂ بقرہ کی آیت کو سورۂ نساء کی آیت سے منسوخ قرار دے کر وضع حمل عدت قراردی اور فرمایا کہ میں اس کے لیے مباہلہ کرسکتا ہوں کہ سورۂ بقرہ، سورۂ نساء کے بعد نازل ہوئی ہے۔ [72] یہ مسئلہ کہ جہری نمازوں میں مقتدی کو سورۂ فاتحہ پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ آج تک احناف اور دیگر فرقِ اسلامیہ کے درمیان ایک معرکہ آرا مبحث ہے اوراس کا کسی طرح فیصلہ ہی نہیں ہونے پاتا، حضرت عبد اللہ ؓ کے زمانہ میں یہ بحث پیدا ہو چکی تھی، چنانچہ ایک شخص نے بطریق اسفتاءاس مسئلہ کو ان کے سامنے پیش کیا انھوں نے جواب دیا۔ انصت فان فی الصلوۃ شغلا سیکفیک ذاک الامام [73] خاموش رہو کیونکہ نماز میں توجہ قائم نہیں رہتی امام کا پڑھنا تمھارے لیے کافی ہے۔ اس جواب میں درحقیقت حسب ذیل تین دلیلوں کی طرف اشارہ ہے جو آج بھی احناف کے لیے مخالفین کے مقابلہ میں بمنزلہ سپر ہے (1)وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا۔ [74] جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو سنو اورخوموش رہو۔ (2)مقتدی کی قرأت سے نماز میں توجہ قلب باقی نہیں رہتی۔ (3)آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے" من کان لہ امام فقرأۃ الامام قراۃ لہ " یعنی جو امام کے پیچھے ہو اس کے لیے امام کی قرأت کافی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ کے پاس فرائض کا یہ استفتاء آیا کہ ایک میت نے ورثہ میں ایک لڑکی ایک پوتی اور ایک بہن چھوڑی ہے،اس کی جائداد کس طرح تقسیم ہوگی انھوں نے جواب دیا کہ لڑکی اور بہن نصف کی مستحق ہیں اور پوتی محروم الارث ہے،حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے جواب کے ساتھ یہی استفتاء حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں آیا، انھوں نے فرمایا اگر میں رسول خدا ﷺ کے فرمان پر ابوموسیٰ اشعری کے قول کو ترجیح دوں تو میں گمراہ ہوں گا، بیشک لڑکی نصف پائے گی،لیکن دو ثلث پورا کرنے کے لیے ایک سدس پوتی کو بھی ملے گا اور جو باقی رہے گا وہ بہن کا حصہ ہے،[75]یہ جواب حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو معلوم ہوا تو فرمایا جب تک یہ بڑا عالم ہم میں موجود ہے اس وقت تک ہم سے پوچھنے کی ضرورت نہیں، چنانچہ آج یہی فتویٰ تمام مسلمانوں کا معمول بہ ہے۔ [9][43][69]
معاصرین فضل وکمال کے معترف تھے
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ کے تبحر علمی و ملکۂ اجتہاد کے تمام صحابہ کرام ؓ معترف تھے، حضرت عمرؓ بن خطاب جب ان کو دیکھتے تو چہرہ بشاش ہو جاتا اورفرماتے: كنيف ملىء علما [76] [77] ایک ظرف ہے جو علم سے بھرا ہوا ہے۔ ایک مرتبہ علی بن ابی طالب ؓ سے چند کوفیوں نے ان کے تقویٰ ،حسنِ خلق اور تبحر علمی کی بیحد تعریف کی ،انھوں نے پوچھا کیا تم سچے دل سے کہتے ہو؟ بولے ہاں، فرمایا: تم لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی جو کچھ تعریف کی ہے میں ان کو اس سے بھی بہتر خیال کرتا ہوں۔ [78]
ایک دفعہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر کسی کے حلق سے بیوی کا دودھ فرو ہو جائے تو اس کے لیے کیا حکم ہے، انھوں نے جواب دیا کہ وہ اس پر حرام ہو جائے گی، حضرت عبد اللہ ؓ موجود تھے،انھوں نے روک کر کہا آپ یہ کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ رضاعت صرف دوسال تک ہے،حضرت ابوموسیٰ ؓ نے خوش ہوکر اعتراف فضل کے لہجہ میں لوگوں سے کہا جب تک یہ حبر یعنی عالم متبحر تم میں موجود ہے مجھ سے کچھ نہ پوچھو۔ [79] حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ایک شخص سے جو تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے تھا کہا تہ بند ذرا اوپر کرکے باندھو، اس نے کہا عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم بھی تہ بند اوپر کرو،بولے میں تمھارے جیسا نہیں ہوں، میری ٹانگیں پتلی ہیں، حضرت عمرؓ بن خطاب نے اس رد وقدح کا حال سنا تو اس شخص کو کوڑے لگوائے کہ تو نے عبد اللہ بن مسعود ؓ جیسے شخص سے منھ زوری کی۔ [80] [4] [81]
نامعلوم مسائل میں رائے زنی سے احتراز
[ترمیم]ایک طرف توان کی قوتِ اجتہاد وجلالت شان کا یہ حال تھا ،لیکن دوسری طرف حزم واحتیاط کا یہ عالم تھا کہ نامعلوم مسائل میں کبھی رائے زنی سے کام نہ لیتے اوراپنے شاگردوں کو ہمیشہ ہدایت فرمایا کرتے جس چیز کو تم نہ جانتے ہو اس کی نسبت یہ نہ کہا کرو کہ میری رائے یہ ہے یا میرا خیال یہ ہے بلکہ صاف کہدیا کرو کہ میں نہیں جانتا۔ [82] مسروق جوان کے خاص تلامذہ میں ہیں بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ اکثر حسرت وافسوس کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جبکہ علما باقی نہ رہیں گے اور لوگ ایسے جاہلوں کو سردار بنالیں گے جو تمام امور کو محض اپنی عقل ورائے سے قیاس کریں گے۔ [83] ایک مرتبہ ان کے پاس یہ استفتاء آیا کہ ایک عورت کا نکاح ہوا لیکن اس میں مہر کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا، اس کے لیے کیا حکم ہے وہ مہر دوراثت کی مستحق ہے یا نہیں؟ چونکہ ان کو اس کے متعلق کوئی واقفیت نہ تھی اس لیے لوگوں کے ضد اور اصرار کے باوجود تقریباً ایک مہینہ تک خاموش رہے، لیکن جب زیادہ مجبور کیے گئے تو بولے میرا فیصلہ یہ ہے کہ وہ مہر مثل اور وراثت کی مستحق ہے اور اس کو عدت میں بیٹھنا چاہیے، پھر فرمایا، اگر یہ صحیح ہے، تو خدا کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے خدا اور اس کا رسول ﷺ اس سے بری ہے، اس وقت حاضرین میں دو صحابی حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ اور حضرت ابوسنان ؓ موجود تھے، انھوں نے اٹھ کر کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بروع بنت واشق کے حق میں بھی یہی فیصلہ فرمایا تھا، اس توافق سے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کو غیر معمولی مسرت حاصل ہوئی۔ [84] [85]
فتوی سے رجوع کرنا
[ترمیم]اگر وہ کبھی کوئی فتویٰ دیتے اور بعد کو اس کے خلاف ثابت ہو جاتا تو فوراً اس سے رجوع کر لیتے، ایک مرتبہ کوفہ میں ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو ہاتھ نہ لگایا ہو تو اس کے بعد اس کی ماں سے نکاح کرسکتا ہے؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے جواز کا فتویٰ دیا، لیکن جب مدینہ آئے اور لوگوں سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ربیبہ لڑکیوں کے سوا اورتمام صورتوں میں ناجائز ہے،چنانچہ انھوں نے کوفہ واپس آکر براہ راست مستقنی سے ملاقات کی اور اپنے فتویٰ سے رجوع کرکے فسخ نکاح کا حکم دیا۔ [86]
معاصرین سے استفادہ
[ترمیم]نا معلوم مسائل میں ان کو اپنے اہل علم معاصرین سے استفادہ کرنے میں عار نہ تھا،ایک مرتبہ انھوں نے اپنی بیوی سے ایک لونڈی خرید ی اور شرط یہ قرار پائی کہ اگر وہ فروخت کی جائے تو اس کی قیمت ان کی بیوی کو ملے گی، چونکہ ان کو خود اس بیع کی تکمیل میں شک تھا، اس لیے انھوں نے حضرت عمرؓ بن خطاب سے فتویٰ پوچھا انھوں نے جواب دیا کہ بیع مشروط سے ملکیت حاصل نہیں ہوتی تم اس کے قریب نہ جاؤ۔ [87] امام محمد نے کتاب الآثار میں روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام میں سے چھ شخص مجتہد تسلیم کیے جاتے تھے اور وہ باہم مسائل فقیہ میں بحث و مذاکرہ کرتے رہتے تھے، علی بن ابی طالب ؓ، ابی بن کعب ؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ ایک ساتھ اور عمر بن خطاب ؓ ، زید بن ثابت ؓ اور عبد اللہ بن مسعود ؓ ایک ساتھ امام شعبی کا بیان ہے کہ عمرؓ بن خطاب ،زید بن ثابت اور عبد اللہ بن مسعود ؓ باہم ایک دوسرے سے استفادہ کرتے تھے اوراسی وجہ سے ان کے مسائل باہم ملتے جلتے ہیں۔
ارباب علم کی قدرشناسی
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اربابِ علم و فضل کی نہایت عزت کرتے تھے ،حضرت عمرؓ کی نسبت ان کا قول تھا کہ ،اگر تمام عرب کا علم ایک پلہ میں رکھا جائے اورعمرؓ کا علم دوسرے پلہ میں تو عمر ؓ کا پلہ بھاری رہے گا، وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ عمر ؓ کے ساتھ ایک گھڑی بیٹھنا میں سال بھر کی عبادت سے بہتر جانتا ہوں۔ [88] حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی نسبت فرمایا کرتے تھے، ابن عباس ؓ بہترین ترجمان قرآن ہیں، اگر وہ عہد رسالت میں ہم لوگوں کا سنِ پاتے تو کوئی ان کی برابری نہ کرسکتا۔ [89] علقمہ ان کے شاگرد تھے،انھوں نے محض اپنی ذہانت وکثرتِ معلومات کے باعث ان کے حلقہ درس میں ممتاز عزت حاصل کرلی تھی، حضرت عبد اللہ ان کی نسبت فرمایا کرتے تھے کہ علقمہ کے معلومات سے میرے معلومات زیادہ نہیں ہیں۔ [90] [91]
احترامِ خلافت
[ترمیم]منصب خلافت کا نہایت ادب واحترام ملحوظ رکھتے تھے اورکبھی خلیفہ وقت کا کوئی حکم یا فعل سنتِ ماضیہ کے خلاف نظر آتا تو عملا اس کی مخالفت نہ فرماتے تھے کہ اس سے امتِ مرحومہ میں تفریق و انتشار کا اندیشہ تھا،ایک سال حج کے موقع پر حضرت عثمان بن عفان ؓ نے منیٰ میں دو کی بجائے چار رکعتیں ادا کیں، حضرت عبد اللہ ؓ کو خبر ملی تو متاسف ہو کر بولے اناللہ واناالیہ راجعون میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں، ابوبکر صدیق ؓ و عمرؓ بن خطاب کے عہد میں بھی دوہی رکعتیں تھیں، اب یہ کیا انقلاب ہے؟[92] لیکن عملاً انھوں نے چار ہی رکعتیں پڑھیں، لوگوں نے اس پر تعجب ظاہر کیا تو بولے کہ خلافت کا احترام ضروری ہے۔ [93]
درس و تدریس
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کوفہ میں باقاعدہ حدیث ،فقہ اور قرآن پاک کی تعلیم دیتے تھے،ان کی درس گاہ میں شاگردوں کا بڑا مجمع رہتا تھا، جن میں سے علقمہ رحمہ اللہ ، اسود رحمہ اللہ، مسروق، عبیدہ حارث،قاضی شریح اور ابووائل نہایت نام آور ہوئے خاص کر علقمہ رحمہ اللہ ان کی صحبت میں اس التزام سے رہے تھے اوران کے طور و طریقہ کے اس قدر پابند تھے کہ لوگوں کا بیان تھا جس نے علقمہ کو دیکھ لیا اس نے عبد اللہ بن مسعود ؓ کو دیکھ لیا۔ شاگردوں کی ایک جماعت سفر میں بھی عموماً ہمراہ ہوتی تھی، علقمہ اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ اگر خود جانے سے مجبور ہوتے تو اپنے کسی رفیق کو ساتھ کردیتے اور تاکید کرتے کہ ہمیشہ حاضرِ خدمت رہیں ،عبد الرحمن بن یزید کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ایک مرتبہ حج کا قصد کیا علقمہ نے مجھ کو ان کے ہمراہ بھیجا اور تاکید کی کہ ہروقت حاضر رہوں اورجو کچھ معلومات حاصل ہوں ان سے ان کو مطلع کروں۔ [94] ایک مرتبہ حضرت خباب ؓ نے ان کے وسیع حلقہ درس کو دیکھ کر کہا ابو عبد الرحمن کیا آپ کی طرح آپ کے یہ نوجوان شاگرد بھی باقاعدہ قرأت کرسکتے ہیں؟ بولے اگر آپ کی خواہش ہو تو کسی کو سنانے کا حکم دوں، حضرت خباب ؓ نے کہا کیوں نہیں؟ حضرت عبد اللہ ؓ نے علقمہ کی طرف اشارہ کیا، انھوں نے تقریبا پچاس آیتوں کی ایک سورت پڑھ کر سنائی،حضرت عبد اللہ ؓ نے حضرت خباب کی طرف دیکھ کر کہا،کیارائے ہے؟ انھوں نے نہایت تعریف کی۔ [95] [5][11]
معتقدین کا ہجوم
[ترمیم]تلامذہ کے علاوہ معتقدین کا ایک بڑا مجمع بھی ہر وقت حاضر رہتا تھا ،شقیق کا بیان ہے کہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھ کر عبد اللہ بن مسعود ؓ کے مکان سے برآمد ہونے کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ [96] طارق بن شہاب کہتے ہیں ہم لوگ عبد اللہ بن مسعود ؓ کے گرد بیٹھتے اوران کی صحبت سے فیضیاب ہوتے تھے، ایک روزحسب معمول بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص السلام یا ابا عبد الرحمن کہتا ہوا تیزی کے ساتھ اس طرف سے گذرا ،انھوں نے جواب دیا صدق اللہ ورسولہ یعنی خدا اوراس کے رسول نے سچ فرمایا ہے یہ کہہ کر داخل حرم ہوئے ،ہم لوگوں کو اس جواب پر سخت حیرت تھی، باہم مشورہ ہواکہ ان کے برآمد ہونے کے بعد کون اس کے متعلق سوال کرے؟ میں نے کہا کہ میں پوچھوں گا، غرض وہ تشریف لائے اور میں نے پوچھا بولے، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ خاص خاص آدمیوں کو سلام کرنا ،تجارت کا ترقی کرنا، اعزہ کے ساتھ بدسلوکی ،جھوٹی گواہی دینا اور حق کو چھپانا، قربِ قیامت کی نشانی ہے۔ [97] [98] حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مواعظ حسنہ میں عموماً توحید، نماز باجماعت اور خوف خدا کی تلقین فرماتے اورتمثیلات سے ذہن نشین کراتے تھے ،مثلاً ایک وعظ میں انھوں نے فرمایا کہ ایک شخص نے جس کے نامۂ اعمال میں توحید کے سوا اور کوئی نیکی نہ تھی، مرنے کے وقت وصیت کی کہ میری لاش کو جلا کر اور چکی میں پیس کر سمندر میں ڈال دینا،لوگوں نے اس کی وصیت پوری کی،خدانے اس کی روح سے سوال کیا تو نے اپنی لاش کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ بولا خدایا تیرے خوف اور ڈر سے،اس گزارش پر دریائے رحمت جوش میں آیا اور وہ بخش دیا گیا،[99] اس تمثیل سے درحقیقت یہ سمجھانا تھا کہ خشیت باری تمام اعمالِ حسنہ کی روح ہے۔ [4][5][9][11][100]
کثرتِ وعظ سے احتراز
[ترمیم]وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ وعظ و پند کی کثرت اس کے اثر کو زائل کر دیتی ہے، اس بنا پر لوگوں کے ضد و اصرار کے باوجود بہت کم منبر وعظ پر تشریف لے جاتے اور جو کچھ کہنا ہوتا اس کو نہایت مختصر صاف و سادہ لیکن مؤثر الفاظ میں فرماتے کہ سامعین تقریر کی طوالت سے گھبرانہ اٹھیں، ایک مرتبہ وعظ سننے کے شوق میں معتقدین کا ہجوم تھا، یزید بن معاویہ نخعی نے ان کو خبر دی،لیکن وہ بہت دیر کے بعد گھر سے برآمد ہوئے اور فرمایا، صاحبو! مجھے معلوم تھا کہ آپ دیر سے میرا انتظار کر رہے ہیں،لیکن میں اس ڈر سے باہر نہیں آیا کہ کثرتِ بیان آپ کو تھکا دے گی،رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کی تکلیف کے خیال سے کئی کئی دن ناغہ دے کر وعظ فرماتے تھے۔ [101] یوں تو ان کا دولت کدہ ہر وقت طالبان علم کا مرجع رہتا تھا،لیکن طلوع آفتاب کے بعد کے وقت مسئلہ مسائل کے لیے مخصوص تھا، ابو وائل بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن فجر کی نماز کے بعد عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے، وہ اس وقت تسبیح و تہلیل میں مصروف تھے، طلوع آفتاب کے بعد ایک شخص نے پوچھا میں نے رات نماز میں پوری مفصل پڑھیں، عبد اللہ بن مسعود ؓ نے کہا شعر کی طرح جلدی جلدی پڑھی ہوں گی، ہم نے قرائن کی تلاوت سنی ہے اور مجھے وہ قرائن یاد ہیں جن کو آنحضرت ﷺ پڑھا کرتے تھے، آپ دس مفصل اور دوسورتیں آل عم کی پڑھتے تھے۔ [102]
اخلاق
[ترمیم]سنت نبوی کی پیروی کے شوق نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے اخلاق و طرز معاشرت میں ایک گونہ حضرت خیر الانام ﷺ کے مکارم و محامد کی جھلک پیدا کردی تھی، عبد الرحمن بن یزید کا بیان ہے کہ ہم نے حضرت حذیفہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا، آپ ہم کو کسی ایسے شخص کا پتہ دیجئے جو خلق وہدایت میں آنحضرت ﷺ سے قریب تر ہوتا کہ ہم اس سے کچھ حاصل کریں، بولے عبد اللہ بن مسعود ؓ سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ کی ہدایت، حسن خلق اور طور طریقے کے پابند تھے اور حضوراکرم ﷺ کے دوستوں میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ جانتے ہیں کہ بارگاہِ نبوت میں تقرب کے لحاظ سے ابن ام عبد کا درجہ سب سے بلند ہے۔ [103] حضرت علی ؓ جب کوفہ تشریف لے گئے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے چند دیرینہ احباب ان سے ملنے آئے، حضرت علی ؓ نے امتحاناً حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی نسبت ان کے خیالات دریافت کیے ،سب نے بالاتفاق تعریف کی اور کہا امیر المومنین! ہم نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے زیادہ متقی پرہیز گار، خلیق، نرم دل اوربہتر ہم نشین نہیں دیکھا، حضرت علی ؓ نے فرمایا بے شک میرا بھی یہی خیال ہے،بلکہ تم نے جو کچھ تعریف کی میں ان کو اس سے بہتر سمجھتا ہوں، انھوں نے قرآن پڑھا، حلال کو حلال اور حرام کو حرام کیا وہ دین کے فقیہ اور سنت کے عالم تھے۔ [104] حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ایک دفعہ اپنے ایک دوست ابو عمیر سے ملنے گئے، اتفاق سے وہ موجود نہ تھے انھوں نے ان کی بیوی کو سلام کہلا بھیجا اور پینے کے لیے پانی مانگا،گھر میں پانی موجود نہ تھا، ایک لونڈی کسی ہمسایہ کے یہاں سے لانے گئی اور دیر تک واپس نہ آئی، ابو عمیر کی بیوی نے غضبناک ہوکر اس کو سخت وسست کہا اور اس پر لعنت بھیجی، حضرت عبد اللہ ؓ یہ سن کر تشنہ لب واپس چلے آئے دوسرے روز ابو عمیر سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے اس قدر جلد بازی کے ساتھ واپس چلے آنے کی وجہ پوچھی بولے خادمہ نے جب پانی لانے میں دیر کی تو تمھاری بیوی نے اس پر لعنت بھیجی، چونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے جس پر لعنت بھیجی جاتی ہے اگر وہ بے قصور ہوتا ہے تو بھیجنے والے پر لوٹ آتی ہے، میں نے خیال کیا کہ خادمہ اگر معذور ہوئی تو بے وجہ میں اس لعنت کے واپس آنے کا باعث ہوں گا۔ [105] ایک بار انھوں نے ایک شخص سے ایک لونڈی خریدی ؛لیکن قیمت بے باق ہونے سے پہلے بائع مفقود الخبر ہو گیا حضرت عبد اللہ نے ایک سال تک اس کو تلاش کیا؛مگر کچھ پتہ نے چلا بالآخر مایوس ہوکر ایک ایک دو دو درہم کرکے اس کی طرف سے صدقہ کر دیا اور فرمایا اگر وہ واپس آئے گا تو قیمت ادا کروں گا اور یہ صدقہ میری طرف سے ہوگا۔ تمیم بن حرام فرماتے ہیں کہ مجھ کو اکثر اصحاب رسول اللہ ﷺ کی ہم نشینی کا فخر حاصل ہے،لیکن میں نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے زیادہ کسی کو دنیا سے بے نیاز اور آخرت کا طالب نہ دیکھا،[106]حضرت عثمان ؓ نے دو برس تک ان کا وظیفہ بند کر دیا تھا، وفات کے وقت انھوں نے ان کی اولاد کے لیے جاری کردینا چاہا ؛لیکن حضرت عبد اللہ نے نہایت بے نیازی کے ساتھ انکار کر دیا، بولے ،کیا آپ کو میری اولاد کے محتاج ودست نگر ہو جانے کا اندیشہ ہے؟ میں نے انھیں حکم دیا ہے کہ ہررات کو سورۂ واقعہ پڑھ لیا کریں،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو ہر رات کو سورۂ واقعہ پڑھے گا وہ کبھی فاقہ نہ ہوگا۔ [107] حضرت عبد اللہ ؓ کو مہمان نوازی کا نہایت شوق تھا،انھوں نے کوفہ میں موضع الرمادہ کامکان مخصوص طور سے مہمانوں کے لیے خالی کر دیا تھا۔ [108] .[109]
مذہبی زندگی
[ترمیم]عبیداللہ بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ رات کے وقت جب کہ تمام دنیا محو راحت ہوتی تھی، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بیٹھ کر صبح تک آہستہ آہستہ قرآن کی تلاوت فرماتے تھے،[110] رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی تمام طاق راتیں شب قدر کی تلاش میں بسر ہوتی تھیں، ابوعقرب کہتے ہیں کہ میں رمضان میں ایک روز علی الصبح ان کی خدمت میں حاضر ہوا دیکھا کہ مکان کی چھت پر بیٹھے ہوئے فرما رہے ہیں، خدا اور اس کے رسول نے سچ کہا میں نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ بولے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا تھا کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہے اوراس کی علامت یہ ہے کہ اس روز جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس میں شعاع نہیں ہوتی ؛چنانچہ آج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ [111] سارا گھر صبح سویرے بیدار ہوکر عبادت میں مشغول ہوجاتا تھا، خود صبح صادق سے طلوع آفتاب تک تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے تھے۔ ابووائل راوی ہیں کہ ایک دن ہم لوگ صبح کی نماز پڑھ کر عبد اللہ بن مسعود ؓ کے پاس گئے دروازہ پر کھڑے ہوکر سلام کیا،اندر آنے کی اجازت ملی؛ لیکن ہم لوگ تھوڑی دیر دروازے پرٹھہرے رہے کہ اتنے میں لونڈی نے آکر کہا آتے کیوں نہیں، ہم لوگ گھر میں گئے تو وہ بیٹھے ہوئے تسبیح پڑھ رہے تھے،کہا اجازت ملنے کے بعد تم لوگوں کو اندرآنے سے کس نے روکا تھا؟ ہم لوگوں نے کہا کسی نے نہیں، خیال ہوا ممکن ہے بعض اہل بیت سو رہے ہوں،کہا ابن ام عبد کی اولاد پر تم نے غفلت کا گمان کیا،اس کے بعد پھر تسبیح میں مشغول ہو گئے،جب سمجھے کہ آفتاب نکل چکا تو لونڈی سے کہا دیکھو آفتاب طلوع ہوا؟اس نے جاکر دیکھا تو ابھی طلوع نہ ہوا تھا، پھر تسبیح میں مشغول ہو گئے ،تھوڑی دیر کے بعد پھر لونڈی سے کہا دیکھو آفتاب طلوع ہوا، اس نے جاکے دیکھا تو طلوع ہو چکا تھا تو پھر یہ دعا پڑھی، اس خدا کا شکر ہے جس نے ہم کو آج کے دن معاف کر دیا، مہدی راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ بھی کہا تھا اورہمارے گناہوں کے بدلے میں ہم کو ہلاک نہیں کیا۔ [112] نمازیں نہایت کثرت سے پڑھتے تھے، فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ سب سے بہتر عمل خیر کیا ہے؟ ارشاد ہوا کہ نماز کا اپنے وقت پر ادا کرنا، میں نے کہا پھر کیا ہے؟ فرمایا والدین کے ساتھ نیکو کاری، میں نے کہا پھر؟ حکم ہوا، راہ خدا میں جہاد کرنا، اس کے بعد خاموش ہو گیا، ہاں اگر میں اپنا سوال آگے بڑھاتا تو آپ اس پر کچھ اور اضافہ فرماتے ،[113] غرض اس ارشاد کے مطابق وہ فرائض ٹھیک وقت پر ادا کرتے تھے، ایک مرتبہ ولیدبن عقبہ والی کوفہ کو پہنچنے میں دیر ہو گئی،حضرت عبد اللہ نے بغیر توقف وا نتظار کے نماز پڑھا دی ،ولید نے برہم ہوکر کہلا بھیجا، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ کیا امیر المومنین کا کوئی حکم ہے یا اپنی ایجاد؟ انھوں نے جواب دیا کہ نہ تو امیر المومنین کا حکم ہے اورنہ اپنی ایجاد ،البتہ خدا کو یہ نا پسند ہے کہ تم اپنے مشاغل میں مصروف رہو اور لوگ نماز میں تمھارے منتظر رہیں۔ [114] رمضان کے علاوہ ہفتہ میں دو دن دوشنبہ اور جمعرات عموماً روزوں کے لیے مخصوص تھے ،عاشورے کا روزہ بھی پابندی کے ساتھ رکھتے تھے، باوجود اس کے عبد الرحمن ابن یزید کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن مسعود ؓ کے سوا اور کسی فقیہ کو اس قدر کم روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، چنانچہ ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ روزے کیوں نہیں رکھتے؟ بولے میں روزہ پر نماز کو ترجیح دیتا ہوں اگر روزے رکھوں گا تو ضعف کے باعث نماز نہ ہو سکے گی۔ [115]
خانگی زندگی
[ترمیم]بیوی بچوں سے محبت رکھتے تھے، گھر میں داخل ہوتے تو باہرہی سے کھکھارتے اور بلند آواز سے کچھ بولتے، تاکہ گھر کے لوگ باخبر ہوجائیں، ان کی اہلیہ محترمہ حضرت زینب ؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز عبد اللہ ؓ کھکھارتے ہوئے اندر آئے، اس وقت ایک بڈھی عورت مجھے تعویذ پہنا رہی تھی، میں نے ان کے ڈر سے اس کو پلنگ کے نیچے چھپا دیا، عبد اللہ آکر میرے پاس بیٹھ گئے اور گلے کی طرف دیکھ کر پوچھا،یہ دھاگہ کیسا ہے؟ میں نے کہا تعویذ ہے، انھوں نے اس کو توڑ کر پھینک دیا اورکہا عبد اللہ کا خاندان شرک سے بری ہے، رسول اللہ ﷺ سے میں نے سنا ہے کہ تعویذ اور گنڈے شرک میں داخل ہیں، میں نے کہا، آپ یہ کیا فرماتے ہیں میری آنکھیں جوش کر آتی تھیں تو میں فلاں یہودی سے تعویذ لینے جایا کرتی تھی اور اس کے تعویذ سے سکون ہو جاتا تھا ،بولے یہ سب عمل شیطانی ہے تمھارے لیے صرف رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا کافی ہے۔ أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا۔ [116] خوف دورکراے پروردگار شفادے تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شفا نہیں، وہ شفا ایسی ہے جو کسی بیماری کو نہیں چھوڑتی۔ پوشاک نہایت سادہ پہنتے تھے، ہاتھ میں ایک آہنی انگوٹھی رہتی تھی،[117]جو غالباً مہرو غیر ہ کے کام آتی ہوگی، غذا بھی پر تکلف نہ تھی، کھانے کے بعد عموماً نبیذ (چھوہاروں کا شربت )استعمال فرماتے تھے،ایک مرتبہ علقمہ نے ان سے کہا خدا آپ پر رحم کرے، آپ تمام امت کے مقتدا اور پیشوا ہو کر نبیذ پیتے ہیں، بولے میں نے رسول اللہ ﷺ کو نبیذ پیتے ہوئے دیکھا تھا، اگر میں آپ ﷺ کو نہ دیکھتا تو استعمال نہ کرتا۔ [118] [119][120]
وظیفہ
[ترمیم]حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے لیے بیت المال سے پانچ ہزار درہم کا سالانہ وظیفہ مقرر تھا جوان کی وفات سے دو برس پہلے خلیفہ ثالث کے حکم سے بند کر دیا گیا تھا،لیکن حضرت زبیر ؓ نے سفارش کرکے ان کی اولاد کے لیے جاری کرا دیا، اس طرح ان کے پسماندوں کو ایک مشت دس یا پندرہ ہزار درہم مل گئے، اس کے علاوہ انھوں نے تقریبا 90 ہزار درہم نقد چھوڑے۔ [121]
حلیہ
[ترمیم]حلیہ یہ تھا،جسم لاغر ،قد کوتاہ، رنگ گندم گوں اورسرتا کانوں تک نہایت نرم و خوبصورت زلف، حضرت عبد اللہ اس کو اس طرح سنوارتے تھے کہ ایک بال بھی بکھرنے نہیں پاتا تھا۔ ٹانگیں نہایت پتلی تھیں، حضرت عبد اللہ بن مسعود ہمیشہ ان کو چھپائے رکھتے تھے ایک مرتبہ وہ آنحضرت ﷺ کے لیے مسواک توڑنے کے خیال سے پیلو کے درخت پر چڑھے تو ان کی پتلی ٹانگیں دیکھ کر لوگوں کو بے اختیار ہنسی آگئی، آنحضرت ﷺ نے فرمایا، تم ان کی پتلی ٹانگوں پر ہنستے ہو ؛حالانکہ یہ قیامت کے روز میزان عدل میں کوہِ احد سے بھی زیادہ بھاری ہوں گی۔ [122]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "ص3 - شرح كتاب الفوائد - فضائل بعض الصحابة - المكتبة الشاملة"۔ shamela.ws۔ 10 اپریل 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2023
- ↑ سانچہ:استشهاد بويكي بيانات
- ↑ (اسد الغابہ :2 تذکرہ عبد اللہ بن مسعود ؓ)
- ^ ا ب پ ت سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» عبد الله بن مسعود (1) آرکائیو شدہ 2016-11-20 بذریعہ وے بیک مشین
- ^ ا ب پ ت ٹ ث الإصابة في تمييز الصحابة - عبد الله بن مسعود (1) آرکائیو شدہ 2017-07-10 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (تذکرہ عبد اللہ بن مسعود ؓ)
- ↑ (اسد الغابہ جلد 2 تذکرہ عبد اللہ بن مسعود ؓ)
- ↑ (مسند ابن حنبل)
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ أسد الغابة في معرفة الصحابة - عبد الله بن مسعود آرکائیو شدہ 2017-07-22 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ^ ا ب الطبقات الكبرى لابن سعد - عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودِ (1) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ^ ا ب پ ت ٹ تهذيب الكمال للمزي» عَبْد اللَّهِ بن مسعود بن غافل بن حبيب بن شمخ بن مخزوم (1) آرکائیو شدہ 2016-11-20 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (اسدالغابہ تذکرہ عبد اللہ بن مسعود ؓ)
- ↑ (طبقات ابن سعد قسم اول جلد 3 تذکرہ عبد اللہ بن مسعود ؓ)
- ^ ا ب پ الطبقات الكبرى لابن سعد - عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودِ (2) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (بخاری :2/565)
- ↑ (احمد:1/453)
- ^ ا ب پ سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» عبد الله بن مسعود (2) آرکائیو شدہ 2016-11-20 بذریعہ وے بیک مشین
- ^ ا ب الإصابة في تمييز الصحابة - عبد الله بن مسعود (2) آرکائیو شدہ 2017-07-10 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (اسدالغابہ:3/257)
- ↑ (اسد الغابہ:2/173)
- ↑ (تاریخ طبری :2845)
- ↑ (تاریخ طبری :2845)
- ↑ الطبقات الكبرى لابن سعد - عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودِ (3) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (تاریخ طبری:2811)
- ↑ الطبقات الكبرى لابن سعد - عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودِ (4) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (اصابۃتذکرہ عبد اللہ بن مسعود ؓ)
- ↑ سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» عبد الله بن مسعود (4) آرکائیو شدہ 2016-11-20 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (مسند احمد بن حنبل:5/166)
- ↑ (یہ تمام تفصیل اسدالغابہ سے ماخوذ ہے)
- ↑ (طبقات ابن سعد قسم اول:3/113)
- ^ ا ب سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» عبد الله بن مسعود (7) آرکائیو شدہ 2017-09-09 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الطبقات الكبرى لابن سعد - عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودِ (8) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ الطبقات الكبرى لابن سعد - عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودِ (9) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (مسند اعظم :184)
- ↑ (مستدرک حاکم :3/316)
- ↑ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث 109)
- ↑ (صحیح مسلم:2/343)
- ↑ الإصابة في تمييز الصحابة - عبد الله بن مسعود (3) آرکائیو شدہ 2017-07-10 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (بخاری:2/48)
- ↑ (مسلم باب میں فضائل عبد اللہ بن مسعود ؓ)
- ↑ (اسد الغابہ:3/259)
- ↑ (بخاری باب القراء میں اصحاب النبی ﷺ )
- ^ ا ب سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» عبد الله بن مسعود (6) آرکائیو شدہ 2017-09-09 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الطبقات الكبرى لابن سعد - عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودِ (6) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (آل عمران:77)
- ↑ (مسند: ا/ 277،وبخاری :2/652)
- ↑ (الفرقان:68) (مسند احمد:1/380)
- ↑ الطبقات الكبرى لابن سعد - عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودِ (7) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (مسند:1/381 وبخاری :2/710)
- ↑ صحيح البخاري » كتاب فضائل القرآن » باب القراء من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم آرکائیو شدہ 2018-01-12 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (مسند:1/454)
- ↑ (مسند احمد:1/374 وبخاری:2/659)
- ↑ سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» عبد الله بن مسعود (3) آرکائیو شدہ 2018-01-12 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (تذکرہ الحفاظ:1/14)
- ↑ (ابن سعد قسم اول جز ثالث:110)
- ↑ غاية النهاية في طبقات القراء لابن الجزري - عبد الله بن مسعود (1) آرکائیو شدہ 2017-02-26 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (مسند احمد:1/385)
- ↑ ( تہذیب الکمال :234)
- ↑ غاية النهاية في طبقات القراء لابن الجزري - عبد الله بن مسعود (2) آرکائیو شدہ 2017-02-26 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (مسند احمد:1/448)
- ↑ ( مسنداحمد، عبد اللہ بن مسعود)
- ↑ "ص3 - شرح كتاب الفوائد - فضائل بعض الصحابة - المكتبة الشاملة"۔ shamela.ws۔ 10 اپریل 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2023
- ↑ طبقات الفقهاء لأبي إسحاق الشيرازي (1) آرکائیو شدہ 2017-04-01 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ طبقات الفقهاء لأبي إسحاق الشيرازي (2) آرکائیو شدہ 2017-04-01 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ إعلام الموقعين عن رب العالمين » فصل أول من وقع عن الله آرکائیو شدہ 2016-11-20 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (موطا امام محمد:232)
- ↑ (التوضیح واتسویح)
- ↑ سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» عبد الله بن مسعود (5) آرکائیو شدہ 2017-09-10 بذریعہ وے بیک مشین
- ^ ا ب الطبقات الكبرى لابن سعد - عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودِ (5) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (البقرۃ:234)
- ↑ (الطلاق:4)
- ↑ (التوضیح والتلویح)
- ↑ (موطا امام محمد:1/96)
- ↑ (الاعراف:204)
- ↑ (مسند احمد:1/428،بخاری :2/997)
- ↑ (طبقات ابن سعدقسم اول جز ثالث :110)
- ↑ (مستدرک حاکم،مناقب)
- ↑ (طبقات ابن سعد ق اجز 3:110)
- ↑ (مؤطا امام مالک:223)
- ↑ (اصابہ :3/130)
- ↑ تهذيب الأسماء واللغات للنووي - عبد الله بن مسعود آرکائیو شدہ 2017-03-10 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (اعلام الموقنین :64)
- ↑ (اعلام الموقنین :64)
- ↑ (ابوداؤد باب فیمن تزوج ولم یسم صداقھا)
- ↑ الباعث الحثيث إلى اختصار علوم الحديث لابن كثير ج1 ص22 آرکائیو شدہ 2017-06-28 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ (موطا امام مالک :193)
- ↑ (موطا امام محمد:342)
- ↑ (استیعاب تذکرہ عمرفاروق ؓ)
- ↑ (تذکرہ الحفاظ :1/35)
- ↑ (تہذیب التہذیب :8/308)
- ↑ تهذيب الكمال للمزي» عَبْد اللَّهِ بن مسعود بن غافل بن حبيب بن شمخ بن مخزوم (2) آرکائیو شدہ 2016-11-20 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (بخاری :1/147)
- ↑ (مسند اعظم :86)
- ↑ (مسند احمد:1/461)
- ↑ (بخاری:2/630)
- ↑ (بخاری :2/630)
- ↑ (بخاری:407)
- ↑ "ماهي ترجمة عبدالله بن مسعود ؟"۔ research.rafed.net۔ 22 مارس 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مارچ 2021
- ↑ (مسند احمد:1/398)
- ↑ ابن عساكر (1995)۔ تاريخ دمشق۔ 33۔ دار الفكر۔ صفحہ: 51
- ↑ (مسند احمد:1/377)
- ↑ (مسلم :1/ 304، مطبوعہ مصر اس حدیث میں اورواقعات بھی ہیں،مگر ان کا تعلیم سے تعلق نہیں ہے اس لیے ہم نے حذف کر دیے)
- ↑ (جامع ترمذی مناقب عبد اللہ بن مسعود ؓ)
- ↑ (طبقات ابن سعد: قسم 1 :2/110)
- ↑ (بخاری :2/97)
- ↑ (اصابہ تذکرہ عبد اللہ بن مسعود ؓ)
- ↑ (اسد الغابہ:3/259)
- ↑ (تاریخ طبری میں:2842)
- ↑ "خلاصة الأقوال - العلامة الحلي - الصفحة ٣٦٩"۔ shiaonlinelibrary.com۔ 01 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مارچ 2021
- ↑ (اسدالغابہ تذکرہ عبد اللہ بن مسعود ؓ)
- ↑ (مسند احمد:1/406)
- ↑ (مسلم :1/305 باب ترتیل القراۃ واجتناب الہذ)
- ↑ (بخاری :1/390)
- ↑ ( مسند احمد:1/450)
- ↑ (طبقات ابن سعد، قسم اول:3/109)
- ↑ (مسند احمد:1/ 38 وابوداؤد:2/186)
- ↑ (طبقات )
- ↑ (مسند اعظم :201)
- ↑ "عبدالله ابن مسعود هل هو صحابي جليل ام لا ؟ بنظر علما الشيعة ؟"۔ alrasd.net (بزبان عربی)۔ 22 مارس 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مارچ 2021
- ↑ "عبد الله بن مسعود - مركز الأبحاث العقائدية"۔ www.aqaed.com۔ 25 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 مارچ 2021
- ↑ (طبقات ابن سعد ،قسم اول :3/113)
- ↑ (طبقات ابن سعد، صفحہ 110)
- 594ء کی پیدائشیں
- مکہ میں پیدا ہونے والی شخصیات
- 653ء کی وفیات
- مدینہ منورہ میں وفات پانے والی شخصیات
- صحابہ
- 650ء کی دہائی کی وفیات
- اصحاب احد
- جنت البقیع میں مدفون شخصیات
- ساتویں صدی کی عرب شخصیات
- ساتویں صدی کے مصنفین
- مکی شخصیات
- مہاجرین حبشہ
- نو مسلمین
- وزراء رسول
- اصحاب صفہ
- ساتویں صدی کے عرب مصنفین
- اصحاب بدر
- شیعہ کے محبوب صحابہ
- صحابی راویان حدیث