عبد الوہاب بن عبد الرحمن فارس
عبد الوہاب بن عبد الرحمن فارس | |
---|---|
(عربی میں: عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْفَارِس) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (عربی میں: عبد الوهاب بن عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله الفارس) |
پیدائش | سنہ 1900ء کویت شہر |
وفات | 12 جنوری 1983ء (82–83 سال) کویت شہر |
وجہ وفات | ٹریفک حادثہ |
شہریت | ![]() |
عملی زندگی | |
استاذ | عبد اللہ بن خلف دحیان |
تلمیذ خاص | محمد بن سلیمان الجراح |
پیشہ | امام ، معلم ، فقیہ |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | فقہ |
درستی - ترمیم ![]() |
ابو عبد اللہ عبد الوہاب بن عبد الرحمٰن بن محمد بن عبد اللہ فارس حنبلی، عبد الوہاب بن عبد الرحمٰن الفارس، جو اختصاراً عبد الوہاب الفارس کے نام سے معروف ہیں، (1316ھ – 28 ربیع الأول 1403ھ / 1900ء – 12 جنوری 1983ء) ایک مسلم عالم اور کویتی حنبلی فقیہ تھے۔ انھوں نے شیخ عبد اللہ بن خلف الدحیان سے فقہِ حنبلی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد، انھوں نے شیخ عبد المحسن البابطین سے عربی زبان سیکھی۔ مزید علمی ترقی کے لیے، انھوں نے خود مطالعہ شروع کیا اور مختلف کتب کا گہرا مطالعہ کیا، خاص طور پر شیخ ابن تیمیہ کی تصانیف سے بہت زیادہ استفادہ کیا۔[1] عبد الوہاب بن عبد الرحمن الفارس (1316ھ – 1403ھ / 1900ء – 1983ء) کویتی مسلم عالم اور حنبلی فقیہ تھے۔ انھوں نے شیخ عبد اللہ بن خلف الدحیان سے فقہِ حنبلی اور شیخ عبد المحسن البابطین سے عربی زبان سیکھی۔ وہ ابن تیمیہ کی تصانیف سے بھی متاثر تھے۔[2]
انھوں نے 54 سال تک مسجد الفارس میں امامت کے فرائض انجام دیے اور مدرسہ السعادہ میں علومِ قرآن، خطاطی اور املا پڑھایا۔ سنہ 1950ء میں معہد دینی میں تدریس شروع کی اور 20 سال تک خدمات انجام دیں، جہاں انھوں نے نصاب کی ترقی میں بھی کردار ادا کیا۔ 12 جنوری 1983ء کو ٹریفک حادثے میں 83 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔[3]
نسب
[ترمیم]عبد الوہاب بن عبد الرحمٰن بن محمد بن عبد اللہ الفارس، جن کا تعلق بنی تمیم العدنانیہ قبیلے سے تھا۔ ان کے آبا و اجداد روضہ سدیر (موجودہ سعودی عرب) میں مقیم تھے، جہاں سے بعد میں ان کا خاندان کویت منتقل ہوا۔[4]
ولادت
[ترمیم]وہ 1316ھ/1900ء میں کویت میں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش ایک علم دوست خاندان میں ہوئی، جہاں ان کے والد اور دادا نے انھیں علومِ شرعیہ کے حصول کی بھرپور ترغیب دی۔[5]
طلبِ علم
[ترمیم]عبد الوہاب بن عبد الرحمن الفارس نے شیخ عبد اللہ بن خلف الدحیان سے فقہِ حنبلی کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں، انھوں نے قاضی عبد المحسن البابطین سے عربی زبان سیکھی۔ اس کے بعد، انھوں نے خود مطالعہ شروع کیا اور علمی کتب کا گہرا مطالعہ کیا، خاص طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تصانیف سے بہت متاثر تھے اور ان کے علوم کو پسند کرتے تھے۔[6]
اعمال و خدمات
[ترمیم]1- امامت عبد الوہاب الفارس نے اپنے والد کے انتقال کے بعد مسجد الفارس کی امامت سنبھالی اور 54 سال تک اس منصب پر فائز رہے۔[7]
تدریس
[ترمیم]عبد الوہاب بن عبد الرحمن الفارس نے مدرسہ السعادہ میں تدریسی خدمات انجام دیں، جہاں وہ علومِ قرآن، خطاطی اور املا پڑھاتے رہے۔ سنہ 1370ھ/1950ء میں، انھوں نے معہد دینی میں تدریس کا آغاز کیا اور 20 سال تک وہاں تدریسی فرائض انجام دیے۔ انھوں نے شیخ عبد العزیز حمادہ کے ساتھ جامعۃ الازہر کے تعاون سے معہد دینی کے نصاب کی بہتری میں اہم کردار ادا کیا اور اس مقصد کے لیے جامعۃ الازہر کا دورہ بھی کیا۔[8]
وفات
[ترمیم]بروز جمعرات، 28 ربیع الأول 1403ھ / 12 جنوری 1983ء کی صبح، عبد الوہاب الفارس 83 سال کی عمر میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے، جب وہ اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔[9] ان کی خدمات کے اعتراف میں: وزارتِ تعلیم نے ان کے نام پر ایک اسکول کا نام رکھا۔ وزارتِ اوقاف و اسلامی امور نے ایک مسجد کو ان کے نام سے منسوب کیا۔ حکومتِ کویت نے ایک مرکزی شاہراہ کو ان کے نام پر رکھا، تاکہ ان کی یاد ہمیشہ باقی رہے۔