عبد الوہاب بن عبد اللہ فارس
عبد الوہاب بن عبد اللہ فارس | |
---|---|
(عربی میں: عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْفَارِس) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (عربی میں: عبد الوهاب بن عبد الله بن عبد العزيز بن محمد بن عبد الله الفارس) |
پیدائش | سنہ 1901ء کویت شہر |
وفات | 26 جولائی 1975ء (73–74 سال) کویت شہر |
طرز وفات | طبعی موت |
شہریت | ![]() |
عملی زندگی | |
استاذ | عبد اللہ بن خلف دحیان |
تلمیذ خاص | محمد بن سلیمان الجراح |
پیشہ | امام ، خطیب ، معلم ، فقیہ |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | فقہ |
درستی - ترمیم ![]() |
عبد الوہاب بن عبد اللہ بن عبد العزیز بن محمد بن عبد اللہ فارس حنبلی ، مختصراً عبد الوہاب فارس ( 1319ھ - 17 رجب 1395ھ / 1901ء - 26 جولائی 1975ء ) کویتی مسلم عالم اور حنبلی فقیہ تھے ۔ انھوں نے اپنی نوجوانی میں ہی علم حاصل کرنا شروع کیا، قرآن حفظ کیا اور کُتّاب (روایتی مدرسہ) میں پڑھنا اور لکھنا سیکھا۔ بعد ازاں شیخ عبد اللہ بن خلف الدحیان سے ملاقات کی اور ان کے زیرِ تربیت امام احمد بن حنبل کے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔
سنہ 1350ھ/1931ء میں عبد الوہاب الفارس نے فریضۂ حج ادا کیا، جہاں مکہ اور مدینہ منورہ میں کئی علما سے ملاقات کی، ان کی علمی مجالس میں شریک ہوئے اور ان کے دروس سے استفادہ کیا۔[1] سنہ 1345ھ/1936ء میں وہ مسجد الفہد کے امام مقرر ہوئے، یہ منصب انھیں شیخ سلیمان بن مانع کے انتقال کے بعد ملا۔ وہ تقریباً 50 برس تک اس مسجد کے امام رہے، یہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ تدریس کے میدان میں بھی ان کا اہم کردار رہا۔ انھوں نے اپنے شاگرد عبد اللہ النوری کو سنہ 1351ھ/1932ء میں "نَیلُ المآرب فی شرح دلیل الطالب" (تغلَبی کی تصنیف) پڑھایا۔ عبد الوہاب الفارس کا انتقال بروز ہفتہ، 17 رجب 1395ھ / 26 جولائی 1975ء کو ہوا۔
نسب
[ترمیم]وہ عبد الوہاب بن عبد اللہ بن عبد العزیز بن محمد بن عبد اللہ الفارس ہیں۔ ان کا خاندان، آل فارس، بنی تمیم العدنانیہ قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے آبا و اجداد روضہ سدیر (موجودہ سعودی عرب) میں مقیم تھے، جہاں سے بعد میں ان کا خاندان کویت منتقل ہوا۔ انھوں نے اپنے علمی سفر کا آغاز کم عمری میں کیا، قرآن حفظ کیا اور ابتدائی تعلیم کتاتیب (روایتی اسلامی مدارس) میں حاصل کی۔ بعد ازاں، فقہِ حنبلی کی تعلیم کے لیے شیخ عبد اللہ بن خلف الدحیان سے اکتسابِ علم کیا۔[2]
ولادت
[ترمیم]عبد الوہاب الفارس سنہ 1319ھ/1901ء کے آخر میں کویت میں پیدا ہوئے۔ جب وہ 18 برس کے تھے تو ان کے والد کا 1338ھ/1919ء میں انتقال ہو گیا۔ وہ اپنے چھ بھائی بہنوں میں چھٹے نمبر پر تھے اور ان کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ ان کے دادا، محمد بن عبد اللہ الفارس، کویت کے ممتاز فقہائے حنابلہ میں شمار ہوتے تھے، جن کی علمی خدمات کویت میں معروف تھیں۔[3]
طلبِ علم
[ترمیم]عبد الوہاب الفارس نے اپنی نوجوانی میں ہی علم حاصل کرنا شروع کیا۔ انھوں نے قرآن مجید حفظ کیا اور ابتدائی تعلیم کتاتیب (روایتی اسلامی مدارس) میں حاصل کی۔ یہ سب ان کے والد کی زندگی میں ہوا۔ والد کے 1338ھ/1919ء میں انتقال کے بعد، وہ شیخ عبد اللہ بن خلف الدحیان سے ملے۔ شیخ الدحیان نے ان کی طلبِ علم میں اخلاص دیکھ کر ان کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی اور انھیں فقہِ حنبلی پڑھایا۔
سنہ 1350ھ/1931ء میں، عبد الوہاب الفارس نے فریضۂ حج ادا کرنے کا ارادہ کیا۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں انھوں نے کئی جلیل القدر علما سے ملاقات کی، ان کی علمی مجالس میں شریک ہوئے اور ان کے دروس سے بھرپور استفادہ کیا۔
اعمال و خدمات
[ترمیم]- 1- امامت و خطابت
سنہ 1345ھ/1936ء میں عبد الوہاب الفارس کو مسجد الفہد کا امام مقرر کیا گیا۔ یہ منصب انھیں شیخ سلیمان بن مانع کے انتقال کے بعد ملا۔ وہ تقریباً 50 برس تک اس مسجد کے امام اور خطیب رہے، یہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا۔[4]
- 2- علمی سرگرمیاں
تدریس
[ترمیم]عبد الوہاب الفارس نے تدریس کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ سنہ 1351ھ/1932ء میں، انھوں نے اپنے شاگرد عبد اللہ النوری کو "نَیلُ المآرب فی شرح دلیل الطالب" (تغلَبی کی تصنیف) پڑھایا۔
وفات
[ترمیم]عبد الوہاب الفارس کو ایک وقت میں ہلکی سی علالت محسوس ہوئی، لیکن اس کے باوجود انھوں نے فرائض اور نماز جمعہ کی ادائیگی جاری رکھی۔ بالآخر، بروز ہفتہ 17 رجب 1395ھ / 26 جولائی 1975ء کو سورج طلوع ہونے سے قبل ان کا انتقال ہو گیا۔ اسی دن ان کا جنازہ اٹھایا گیا اور تدفین عمل میں آئی۔[5]