عدیم ہاشمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عدیم ہاشمی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: فصیح الدین)،  (انگریزی میں: Fashih Uddin ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 1 اگست 1946ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فیروزپور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 نومبر 2001ء (55 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شکاگو   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن شکاگو   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ساحل عدیم ،  زریاب ہاشمی   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

عدیم ہاشمی (پیدائش: یکم اگست، 1946ء - وفات: 5 نومبر، 2001ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر اور ڈراما نویس تھے۔

حالات زندگی و ادبی خدمات[ترمیم]

عدیم ہاشمی یکم اگست، 1946ء کو ڈلہوزی، بھارت برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام فصیح الدین تھا۔[1][2]۔ عدیم ہاشمی کا شمار اردو کے جدید شعرا میں ہوتا تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں ترکش، مکالمہ، فاصلے ایسے بھی ہوں گے، میں نے کہا وصال، مجھے تم سے محبت ہے، چہرا تمھارا یاد رہتا ہے، کہو کتنی محبت ہے اور بہت نزدیک آتے جا رہے ہو کے نام سرفہرست ہیں۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ایک ڈراما سیریل آغوش بھی تحریر کیا اور مشہور ڈراما سیریز گیسٹ ہاؤس کے لیے بھی کچھ ڈرامے تحریر کیے۔[2]

تصانیف[ترمیم]

شعری مجموعے[ترمیم]

  • مکالمہ
  • بہت نزدیک آتے جا رہے ہو
  • چہرہ تمھارا یاد رہتا ہے
  • فاصلے ایسے بھی ہوں گے
  • ترکش
  • کہو کتنی محبت ہے
  • میں نے کہا وصال
  • مجھے تم سے محبت ہے

ڈرامے[ترمیم]

  • گیسٹ ہاؤس
  • آغوش

نمونۂ کلام[ترمیم]

غزل

فاصلے ایسے بھی ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
خود چڑھا رکھے تھے تن پر اجنبیت کے غلاف ورنہ کب ایک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا
وہ کے خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا آئینہ تو تھا مگر اس میں ترا چہرا نہ تھا
آج اس نے درد بھی اپنے علاحدہ کر لیے آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا
سینکڑوں طوفان لفظوں کے دبے تھے زیرِ لب ایک پتھر تھا خموشی کا جو ہلتا نہ تھا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا

شعر

بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ اُڑا دیئے ہیں پرندے شجر میں بیٹھے ہوئے

شعر

بہت نزدیک آتے جارہے ہوبچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا

وفات[ترمیم]

عدیم ہاشمی 5 نومبر، 2001ء کو شکاگو، ریاستہائے متحدہ امریکا میں وفات پا گئے اور شکاگو میں پاکستانیوں کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔[1][2]

حوالہ جات[ترمیم]