عشق رسول

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

عشق رسول[ترمیم]

عشق محبت کو کہتے ہیں، رسول سے محبت عشق کا نام ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبت عشق کا ستون ہے

ایک مستند حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی اس وقت کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک ہے شے سے بڑھ کر رسول پاک سے محبت نہ کرے عشق رسول ایمان کی نشانی ہے جو عشق رسول سے خالی ہے وہ صاحب ایمان سے خالی ہے

ایک واقعہ[ترمیم]

ایک بہت اچھا اور پیارا واقعہ جو ایمان کو تازہ کر دے،


" عِشقِ حبیب صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کا ایک واقعہ "

حضرت اَنس بِن مالک رضی اللّٰه عنهُ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایک یہودی عالمِ دِین تھا۔اس کا نام تھا جلبیب،اس کا ایک لڑکا ہبہاب نامی حُسن و جمال میں یکتا تھا۔بڑا خلیق ( یعنی خوش اِخلاق) اور کمال سِیرت۔اِتفاقاً اُس نے اپنے والد کے خزانے میں ایک ڈبیا دیکھی جو سُرخ موتیوں سے بنی ہوئی تھی اور اس پر مُشک کی مُہر لگی ہوئی تھی۔تاکہ کوئی شخص اُسے کھول سکے نہ اندر دیکھ سکے۔لڑکے نے اس ڈبیا کو دیکھا تو بڑا غضب ناک اور خوشمگیں ہو کر باہر نِکلا۔باپ نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا: " ایک عرصہ ہو گیا ہے آپ نے ایک چیز مجھ سے پوشیدہ نہیں رکھی مگر یہ ڈبیا ہمیشہ بند رکھی ہے۔حالانکہ میرے ساتھ آپ کی شفقت و محبّت بہت زیادہ ہے۔ "

باپ نے بتایا: " بیٹا! اس میں جواہرات ہیں نہ خزانہ،اس میں چند اوراق ہیں جن پر ایک عربی کا نام لِکھا ہُوا ہے۔جب تم عُلماء کی مجالس میں بیٹھ کر فاضل ہو جاؤ گے اور ہر بات سمجھنے لگو گے تو اس کا مطالعہ بھی کر لینا۔چونکہ ابھی تم ناپُختہ ذہن ہو اِس لیے ڈبیا کا رازِ دِیدہ دانستہ پوشیدہ رکھا گیا تھا۔[1]

۔ " ایک دِن جلبیب بادہ نوشی میں مشغول تھا۔ہبہاب یہ موقع غنیمت جانتے ہوئے والد کے خزانہ میں گیا اور اس ڈبیا کے کھولنے میں مشغول ہو گیا۔جس کے لیے رازداری سے کام لیا جا رہا تھا۔مُہر توڑ دی گئی،ڈبیا کا ڈھکنا کھولا ہی تھا کہ نُور کی ایک شُعاع نمودار ہوئی جس کے سامنے چراغ کی روشنی ماند پڑ گئی۔ڈبیا کے اندر دو سفید ورق دِکھائی دیے۔جن پر لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ لِکھا تھا۔اس کلمہ طیبہ کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے اوصافِ حمیدہ لِکھے ہوئے تھے کہ:

" آپ ( صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم ) کے ابرو پیوستہ ( یعنی بھنویں ایک دوسرے سے مِلی ہوئی ) ہوں گے۔داڑھی ( مُبارک ) گھنی ہو گی۔جسے بھی اس کا زمانہ میسّر ہو اس کی بات سُنے،اس کا کلام قران ہو گا۔اس کا دِین اِسلام ہو گا۔وہ اِنسانوں کو خدا کی عِبادت کی دعوت دے گا۔مُخالفین سے نہیں ڈرے گا۔ " ہبہاب کی نِگاہیں اس کاغذ پر پڑِیں تو حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی محبّت اس کے دِل میں اُتر گئی۔اس کاغذ کو آنکھوں پر مَلا،چُوما اور کہنے لگا: " یامُحمّد صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم! کاش میں معلوم کر سکتا کہ آپ خاکی ہیں یا نُوری،آسمانوں پر ہیں یا زمین پر،دریاؤں میں رہتے ہیں یا جنگلوں میں؟ اس نے اپنی محرومی اور سوگواری کا اس انداز سے اِظہار کِیا کہ بے ہوش ہو گیا۔چند لمحوں بعد اس کی والدہ بھی اس کے کمرے میں آئی،بیٹے کو بے ہوش پا کر حیران رہ گئی۔اُس کے باپ کو بُلایا۔بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر اس کے چہرے سے چہرہ مَلنے لگا۔ماتھے کو چُومنے لگا،رو رو کر اپنے بیٹے کی بے ہوشی پر حسرت و غم کا اِظہار کرنے لگا۔جب نوجوان لڑکا ہوش میں آیا،والدین کو اپنے سرہانے غم زدہ اور پریشان پایا۔مگر غُصّے میں آ کر کہنے لگا:

" اے والد محترم! تم میری آنکھوں کی روشنی نہیں دیکھتے اور بڑھاپے کے باوجود اس رحمتِ اِلٰہی سے محفوظ نہیں ہوئے۔آپ مجھے کُفر کی تعلیم دے رہے ہیں اور شریعتِ مُحمّدیہ ( صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کی اِتّباع سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے ہو۔ "

باپ یہ باتیں سُتے ہی غُصّے میں پاگل ہو گیا۔لڑکے کو بالوں سے پکڑا اور زمین پر دے مارا اور زور زور سے مارنے لگا۔جب اس کا ظُلم حد سے بڑھ گیا تو حي بِن اخطب،کعب بِن اشرف اور ابولبابہ وغیرہ اس کی سفارش کے لیے آئے۔انھوں نے دیکھا کہ باپ بیٹے کو ایذا دینے کو پاگل ہُوا جا رہا ہے۔انھوں نے اُسے زبردستی منع کِیا۔مگر وہ کسی صورت بچّے کو سزا دینے سے نہ رُکتا تھا۔لوگوں نے اس سے بچّے کا قصور پوچھا تو کہنے لگا: " اس کا قصور تو سزائے قتل کے لائق ہے۔جب تک میں اسے قتل نہ کر دوں گا ہاتھ نہ روکوں گا۔ " پِھر اس نے بتایا: " یہ دِینِ مُحمّد ( صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لے آیا ہے۔اپنے آباؤ و اجداد کا مذہب ترک کر چُکا ہے۔ " ان لوگوں نے اس بچّے کو نصیحت کرنا شروع کی اور کہا: " بیٹا! تمام لوگ تو ہم سے دِین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں،لوگ ہماری اِتّباع کرتے ہیں۔لیکن تم مُحمّد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی اِتّباع میں لگے ہوئے ہو،اسے چھوڑ دو اور اپنے سابقہ دِین پر قائم رہو۔ " ہبہاب کہنے لگا: " میں نے سوچ بچار کرنے کے بعد ان وہمی اور فرسوده دِینوں کو ترک کر دیا ہے اور مُحمّد صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے صِراطِ مُستقیم کو اُختیار کر لیا ہے،ان پر ایمان لایا ہوں۔ " ان لوگوں نے اس نوجوان کو بڑی اُلٹی سیدھی نصیحتیں کیں مگر وہ اپنے نیک اِرادے پر ڈٹا رہا۔ان یہودی مشائخ نے کہا: " چونکہ یہ لڑکا ناز و نعم کا پلا ہُوا ہے زندگی کے مصائب اور تکاليف کا احساس نہ رکھتا،[2]

  1. استشهاد فارغ (معاونت) 
  2. استشهاد فارغ (معاونت) 

[1]

  1. استشهاد فارغ (معاونت)