عطاء بن ابی رباح

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عطاء بن ابی رباح
(عربی میں: عطاء بن أبي رباح أسلم بن صفوان ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 647ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 732ء (84–85 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ عبد اللہ بن عباس   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص عبد الرحمٰن اوزاعی ،  قتادہ بن دعامہ ،  ایوب سختیانی ،  بدیل بن میسرہ العقیلی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث ،  فقیہ ،  مفتی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عطاء بن ابی رباح (پیدائش: 647ء — وفات: 732ء) پہلی اور دوسری صدی ہجری کے تابعی، محدث، فقیہ اور عالم تھے۔ عطاء بن ابی رباح اپنے عہد کے نامور مفتی مکہ تھے۔ عطاء بن ابی رباح کی پیدائش 27ھ مطابق 647ء میں یمن میں ہوئی۔ بعد ازاں اُن کا خاندان مکہ مکرمہ منتقل ہو گیا جہاں عطاء کی پرورش ہوئی۔ وہ خاندان ابو مَیسَرہ بن ابی خُثَیم الفِہری کے موالی تھے۔ وہ مکہ مکرمہ کے وہ پہلے قدیم مفتیان میں سے ہیں جن کے متعلق ہمیں تفصیلات اور معلومات بہ نسبت دیگر فقہا کے مختلف کتب تراجم سے فراہم ہوتی ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

عطا نام، والد کا نام اسلم اور ابو رباح کنیت،عطاء کی کنیت ابو محمد تھی،یمن کے مردم خیز قصبہ چند میں حضرت عثمان کے آغازِ خلافت میں پیدا ہوئے اورمکہ میں نشو و نما پائی آل میسرہ بن خثیم فہری کے غلام تھے۔

تابعیت[ترمیم]

عطاء درجہ اَوَّل کے تابعی شمار ہوتے ہیں۔ اُن کی پیدائش خلیفہ دُوُّم عمر فاروق کے عہدِ خلافت میں ہوئی تھی جبکہ اِس دَور میں کبار صحابہ کرام بقیدِ حیات تھے۔ عطاء نے ام المؤمنین عائشہ، ام المؤمنین اُم سلمہ، ام ہانی، عبداللہ ابن عباس، عبداللہ ابن عباس، جابر بن عبداللہ، عبداللہ ابن زبیر، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ ابن عباس، ابو سعید اور معاویہ بن ابو سفیان سے حدیث نقل کی ہے۔

فضل وکمال[ترمیم]

فضل وکمال اورزہد وورع کے لحاض سے عطا بڑے جلیل القدرتابعی تھے، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ عطاءفقہ،علم وورع اورفضل وکما ل کے لحاظ سے ساداتِ تابعین میں تھے،حجت امام اورکبیر الشان [1] علامہ نووی لکھتے ہیں کہ وہ مکہ کے مفتی اورمشہور ائمہ میں تھے، بڑے بڑے ائمہ ان کے علمی کمالات کے معترف تھے ،امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ علم کا خزانہ خدا اسی کو دیتا ہے جسے محبوب رکھتا ہے، اگر علم کسی کے ساتھ مخصوص ہوتا تو عالی نسب اس کے زیادہ حقدار تھے،لیکن عطاء حبشی غلام تھے،یزید بن جیب نولی تھے، حسن بصری اورابن سیرین غلام تھے۔ [2] امام اوزاعی کہتے تھے کہ عطاء نے جس وقت انتقال کیا، اس وقت وہ لوگوں میں روئے زمین کے سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی تھے۔ [3]

قرآن[ترمیم]

ان کو قرآن،حدیث،فقہ جملہ مذہبی علوم میں پوری دستگاہ حاصل تھی: کان ثقۃ فقیھا عالما کثیر الحدیث کان یعلم القرآن قرآن کا مستقل درس دیتے تھے۔

حدیث[ترمیم]

حدیث کے مشہور حفاظ میں تھے،حافظ ذہبی نے ان کے حالات طبقہ اول کے حفاظ میں لکھے ہیں،علامہ ابن سعد کثیر الحدیث لکھتے ہیں، حدیث میں انھوں نے صحابہ میں عبد اللہ بن عباسؓ،ابن عمرؓ، ابن عمروبن العاصؓ،ابن زبیرؓ،معاویہؓ،اسامہ بن زیدؓ،جابر بن عبد اللہؓ،زید بن ارقمؓ، عبد اللہ بن سائبؓ مخزومی،عقیل بن ابی طالب ؓ، عمرو بن ابی سلمہؓ، رافع بن خدیجؓ،ابودرداءؓ، ابو سعید خدریؓ،ابوہریرہؓ،ام المومنین عائشہ صدیقہؓ اورام ہانی ؓ کے خرمن کمال سے خوشہ چینی کی تھی۔ عام علما میں ابو صالح السمان ،سالم بن شوال،صفوان بن یعلی بن امیہ،عبید بن عمیر، عروہ بن زبیر،ابن ابی ملیکہ،عماد بن ابی عمار،ابو الزبیر،موسیٰ بن انس،جیب بن ابی ثابت وغیرہ سے سماع حدیث کیا تھا۔ [4]

تلامذہ[ترمیم]

حدیث میں ان سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست بہت طویل ہے بعض کے نام یہ ہیں، ابو اسحٰق سبیعی،زہری،مجاہدہ، ایوب سختیانی ،اعمش ،اوزاعی،ابن جریج ،ابوالزبیر حکم بن عتبہ،ابو حنیفہ وغیرہ۔ [5]

آداب سماع حدیث[ترمیم]

حدیثِ رسول کا اتنا احترام تھا کہ تذکرہ حدیث کے درمیان میں بولنا سخت ناپسند کرتے تھے اور اس پر برہم ہوتے تھے،معاذ بن سعید الاعورکابیان ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ عطاء کے پاس تھے،ایک شخص نے حدیث بیان کی،ایک دوسرا شخص درمیان میں کچھ بولا،عطاء سخت برہم ہوئے اور کہا یہ کون سا اخلاق اورکون سی طبیعت ہے، خدا کی قسم آدمی اس لیے حدیث بیان کرتا ہے کہ اس سے ہم کو علم حاصل ہو اگر کوئی حدیث سناتا ہے،تو خواہ وہ حدیث مجھی سے سنی ہوئی ہو میں اس کو خاموشی سے سنتا ہوں کہ بیان کرنے والے کو یہ معلوم ہوکہ میں نے اس سے پہلے نہیں سنی تھی، عمروبن عاصم کہتے ہیں کہ میں نے عطاء کی یہ باتیں عبد اللہ بن مبارک سے نقل کیں تو انھوں نے سن کر کہا کہ میں اس وقت تک جوتا نہ اتاروں گا جب تک خود جاکر اس مہدی سے نہ سنوں گا۔ [6] ان کی روایات کے بارہ میں ائمہ کی رائے امام باقر لوگوں کو ہدایت کرتے تھے کہ جہاں تک ہو سکے عطاء سے حدیث لیا کرو۔ [7]

فقہ[ترمیم]

آپ کا خاص امتیازی فن فقہ تھا آپ کے تفقہ پر تمام فقہا ءمحدثین اورآئمہ فن کا اتفاق ہے،حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ وہ فقہ میں سادات تابعین میں تھے [8] ربیعہ جو خود بہت بڑے فقیہ تھے کہتے تھے کہ عطاء فتاویٰ میں تمام اہل مکہ پر فایق تھے، محمد بن عبد اللہ الدیباج کہتے تھے کہ میں نے عطاء سے افضل کسی کو نہیں پایا [9]اکابر صحابہ تک ان کے تفقہ کے معترف تھے، حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ اورابن عمرؓ جب مکہ تشریف لاتے اور سائلین ان کی خدمت میں پہنچتے تو عبد اللہ بن عباس ان سے کہتے کہ عطا تمھارے یہاں موجود ہیں اور تم لوگ میرے پاس آتے ہو [10]حضرت ابن عمرؓ فرماتے کہ تم میں ابن ابی رباح موجود ہیں اور تم لوگ مجھ سے پوچھنے کے لیے مسائل اٹھا رکھتے ہو۔ [11] ان کے زمانہ میں صرف دوشخص مکہ کی مسندِ افتاء کی زینت تھے، ایک یہ اور دوسرے مجاہد لیکن ان دونوں میں امتیاز انھیں کو حاصل تھا۔ [12]

احتیاط فی الفتویٰ[ترمیم]

لیکن اس کمال کے باوجود وہ اتنے محتاط تھے کہ مسائل میں کبھی اپنی رائے نہ دیتے تھے،اگر اس کے متعلق کوئی سند نہ ہوتی تو صاف کہہ دیتے کہ مجھے نہیں معلوم،عبد العزیز ابن رفیع کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عطاء سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا،انھوں نے جواب دیا مجھے نہیں معلوم لوگوں نے کہا اپنی رائے سے کیوں نہیں جواب دیتے،فرمایا مجھے خدا سے شرم معلوم ہوتی ہے کہ اس کی زمین میں میری رائے کی اطاعت کی جائے۔ [13]

لیکن ایک فقیہ اورمفتی کے لیے رائے سے کام لینا ناگزیر ہے، اس لیے عطاء جب کبھی رائے سے کام لیتے تھے تو اس کو ظاہر کردیتے تھے، ابن جریج کا بیان ہے کہ عطاء جب کوئی بات بیان کرتے تھے،تو میں ان سے پوچھتا تھا کہ یہ علم ہے یا رائے، اگر انھوں نے اثر کی سند پر کہا ہوتا تو کہہ دیتے اثر ہے اور اگر رائے ہوتی توکہہ دیتے رائے ہے۔ [14]

مناسک حج کا علم[ترمیم]

مناسکِ حج کے بڑے عالم تھے،امام باقر فرماتے تھے کہ عطاء سے زیادہ مناسک حج کا جاننے والا کوئی باقی نہیں ہے [15] اموی فرمان روا،ان سے مناسک حج کی تعلیم حاصل کرتے تھے،علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ سلیمان بن عبد الملک آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اس کو مناسکِ حج بتائے [16] امویوں کے زمانہ میں حج کے موقع پر منادی کردی جاتی تھی کہ حج کے مسائل میں عطاء کے علاوہ دوسرا شخص فتویٰ نہ دے۔ [17]

معمولی معمولی درجہ کے لوگ جنہیں حج کے ایام میں انھیں دیکھنے کا،ان کے ساتھ رہنے کا یا ان کی خدمت کرنے کا موقع ملتا تھا، مسائل حج کے واقف کار بن جاتے تھے،اس سلسلہ میں یہ حکایت مشہور ہے کہ امام ابو حنیفہ فرماتے تھے کہ حج کے موقع پر ایک حجام نے جس نے عطا کو دیکھا تھا، پانچ موقعوں پر مناسک حج کی تعلیم دی، بال ترشوانے سے پہلے میں نے اس سے حجامت کی بنوائی طے کرنی چاہی اس نے کہا عبادت میں شرط نہیں کی جاتی،بیٹھ جاؤ حجامت بن جائے گی ، میں قبلہ رُخ سے ذرا ہٹ کر بیٹھا تھا،اس نے قبلہ رخ بیٹھنے کا اشارہ کیا، میں نے بائیں جانب سے سر منڈانا چاہا اس نے کہا داہنی سمت پھیرو میں نے پھیر دیا وسرمونڈنے لگا میں بالکل خاموش تھا، اس نے کہا داہنی سمت پھیرو میں نے پھیر دیا وہ سرمونڈنے لگا،میں بالکل خاموش تھا، اس نے کہا تکبیر کہتے جاؤ، حجامت بنوانے کے بعد جب میں جانے لگا تو اس نے پوچھا کہاں جاتے ہو میں نے کہا اپنے قیام گاہ پر،اس نے کہا پہلے دورکعتیں پڑھ لو،اس کے بعد جاؤ،میں نے خیال کیا کہ حجام خود اس قسم کے مسائل نہیں جان سکتا جب تک اس نے کسی سے معلوم نہ کیا ہو، میں نے اس سے پوچھا تم نے جن باتوں کی مجھ کو تعلیم دی ہے، وہ تمھیں کہاں سے معلوم ہوئیں اس نے کہا میں نے عطاء بن ابی رباح کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔ [18]

علم میں للہیت[ترمیم]

عطاء اپنے علم سے کوئی دنیاوی فائدہ نہ حاصل کرتے تھے؛بلکہ ان کا علم خالصۃً لوجہ اللہ تھا،سلمہ کا بیان ہے کہ میں نے عطاء طاؤس اورمجاہد کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا ،جس کا مقصد علم سے خالص لوجہ اللہ ہو۔ [19]

زہد وتقویٰ[ترمیم]

علم کے ساتھ ان میں اسی درجہ کا عمل بھی تھا، زہد وورع کے لحاظ سے وہ جماعت تابعین میں ممتاز تھے، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ وہ علم اورورع میں سادات تابعین میں تھے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ عطاء کے علم،زہد اور خدا پرستی کے مناقب بہت ہیں۔ [20]

قوت ایمانی[ترمیم]

عطاء ایمان کے جس درجہ پر تھے اس کے متعلق عبد الرحمٰن کا بیان ہے کہ سارے اہل مکہ کا ایمان مل کر بھی عطاء کے ایمان کے برابر نہ تھا۔ [21]

عبادت وریاضت[ترمیم]

عبادت کا یہ حال تھا کہ کامل بیس سال تک مسجد کا فرش ان کا بستر رہا [22] تہجد میں روزانہ دوسویا اس سے زیادہ آیتیں پڑھتے تھے [23] کثرت عبادت سے پیشانی پر نشان سجدہ تاباں تھا [24] ان کا کوئی وقت ذکر الہی سے خالی نہ ہوتا تھا، عبد اللہ بن عمرو بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ میں نے عطاء سے بہتر مفتی نہیں دیکھا،ان کی مجلس میں ہر وقت خدا کا ذکر ہوتا رہتا تھا اورلوگ علمی مباحثہ کرتے تھے،عطاء جب کچھ بولتے،یا جب کوئی سوال کیا جاتا تو نہایت خوبی سے اس کا جواب دیتے۔ [25]

حج[ترمیم]

آپ کا قیام مکہ ہی میں تھا اس لیے کسی سال حج ناغہ نہ ہوتا تھا؛چنانچہ آپ نے ستر حج کیے۔ [26]

اتباع حدیث[ترمیم]

اتباعِ حدیث میں بڑا اہتمام تھا امام شافعیؒ کا بیان ہے کہ تابعین میں عطاء سے زیادہ کوئی متبع حدیث نہ تھا۔ [27]

عزلت گزینی[ترمیم]

طبیعت میں عزلت پسندی تھی،لوگوں سے زیادہ ملنا جلنا پسند نہ تھا،دروازہ بند کیے گھر میں بیٹھے رہتے تھے،جب کوئی اندر آنے کی اجازت چاہتا تو پوچھتے کس نیت سے آئے ہو، اگر آنے والا کہتا کہ آپ کی زیارت کے لیے تو جواب دیتے کہ میرے جیسے شخص کی زیارت نہیں کی جاتی،پھر فرماتے وہ زمانہ کیسا خبیث ہے،جس میں میرے جیسے شخص کی زیارت کی جائے [28] لیکن اچھی مجلسوں کو جن میں خدا کا ذکر ہوتا پسند کرتے تھے،فرماتے تھے کہ جو شخص اس مجلس میں بیٹھتا ہے،جس میں خدا کا ذکر ہوتا ہے تو خدا اس مجلس کو دس باطل مجلسوں کا کفارہ بنادیتا ہے۔ [29]

خاموشی[ترمیم]

جب مجمع میں بیٹھنے کا بھی اتفاق ہوتا تو زیادہ تر خاموش ہی رہتے اسمعیل بن امیہ کا بیان ہے کہ عطاء عموماً خاموش رہتے تھے،جب کچھ بولتے تھے تو ہم لوگوں کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان پر الہام ہورہا ہے۔ [30]

فقہ میں مقام ==[ترمیم]

فقہ کے جو اُصول عطاء سے منسوب کیے جاتے ہیں، اُن کے تجزئیے سے ہم مستند روایات اور اُن میں کیے جانے والے متاخر فرضی اِضافوں میں فرق کرسکتے ہیں۔ اپنے معاصرین کے عام طریقے کے مطابق وہ اپنی ذاتی رائے کو قیاس اور استحسان کی صورتوں میں اِستعمال کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے تھے۔لہٰذا وہ بیانات جو بعد کے اندازِ فکر کی عکاسی کرتے ہوئے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ رائے کو رَد کردیتے تھے، جعلی ثابت ہوتے ہیں۔یہ یقین سے کہنا مشکل ہے کہ عطاء نے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور روایات صحابہ کو کس حد تک فقہی دلائل کے طور پر اِستعمال کیا ہے۔ اگر انھوں نے اِس طرح کیا ہے تو غالباً صرف مُرسَل احادیث کو ہی اِستعمال کیا ہوگا کیونکہ دوسری صدی ہجری کے آغاز میں فقہ اِسلامی کا اِرتقاء بہت تیزی سے ہوا جس کی وجہ سے عطاء کے بعض اِمتیازی افکار بظاہر اُن کے آخری ایام ہی میں ناپسندیدہ سمجھے جانے لگے تھے۔ یہ بات اِس بیان سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ اُن کے بعض نوعمر معاصرین نے اُن کے درس میں حاضر ہونا چھوڑ دیا تھا اور یہ کہ اُن کی روایت کردہ مُرسَل احادیث ضعیف ہیں۔ اِن بیانات کی تلافی بہت حد تک اِس اَمر سے ہوجاتی ہے کہ جب حدیث کے بارے میں محدثین کی پہلی رَوِش تبدیل ہو گئی تو یہ کہا جانے لگا کہ عطاء کو صحابہ کرام سے ذاتی رابطہ حاصل تھا اور اُن صحابہ کی تعداد میں بھی اِضافہ ہوتا گیا۔ تاہم خود مسلم ناقدین کہتے ہیں کہ عطاء نے عبداللہ بن عمر، ام المؤمنین ام سلمہ اور دیگر صحابہ کرام سے احادیث نہیں سنی تھیں اور وہ ام المؤمنین عائشہ بنت ابی بکر سے بھی اُن کے بلاواسطہ رابطے کے بارے میں شک کرتے ہیں۔ دوسری صدی ہجری کے آغاز میں فقہ اِسلامی کے متخصصین دینی مسائل کی بہ نسبت اصطلاحی حیثیت کے فقہی مسائل سے زیادہ دلچسپی رکھنے لگے تھے۔ عطاء کے مصدقہ عقائد سے اِس کی تائید ہوجاتی ہے اور اُن کے مناسکِ حج کا خصوصی مطالعہ بھی یہ ظاہر کرتا ہے، جیسا کہ بعض ماخذین میں کہا گیا ہے کہ یہ مکہ مکرمہ کے فقہا اور علما کا پسندیدہ موضوع تھا۔ عطاء کی شہرت اُن کی زندگی میں ہی مکہ مکرمہ سے باہر دور دراز کے مقامات تک پھیل گئی تھی اور امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کا بیان ہے کہ وہ عطاء کے حلقۂ درس میں شامل ہوئے تھے۔ یہ بیان فقہ اِسلامی کی اصطلاحی تعلیم کے متعلق شاید اَوَّلین مصدقہ شہادت تسلیم کی جاتی ہے۔[31][32][33]

وفات[ترمیم]

عطاء کی وفات 114ھ مطابق 732ء میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تہذیب التہذیب:7/203)
  2. (تہذیب الاسماء نووی :1/1333)
  3. (مختصر صفوہ الصفوہ:158)
  4. (ابن سعد:5/344)
  5. (تہذیب التہذیب:7/159)
  6. (ابن سعد:5/345)
  7. (تہذیب الاسماء:1/334)
  8. (تہذیب التہذیب:7/203)
  9. (ایضاً:201)
  10. (تذکرۃ الحفاظ:1/86)
  11. (تہذیب التہذیب:7/201)
  12. (ابن سعد:5/346)
  13. (تہذیب التہذیب:7/203)
  14. (ابن سعد:5/345)
  15. (ایضاً)
  16. (مختصر صفوۃ الصفوۃ:156)
  17. (تہذیب الاسماء:1/334)
  18. (ابن خلکان :1/319)
  19. (ابن سعد:5/345)
  20. (تذکرہ الحفاظ:1/)
  21. (تہذیب التہذیب:7/203)
  22. (تہذیب التہذیب:7/203)
  23. (مختصر صفوہ الصفوہ:7/158)
  24. (ابن سعد: /333)
  25. (ایضاً:345)
  26. (مختصر صفوۃ الصفوہ:158)
  27. (تہذیب الاسماء:1/333)
  28. (مختصر صفوۃ الصفوۃ:158)
  29. (مختصر الصفوہ الصفوۃ :185)
  30. (تذکرہ الحفاظ:1/86)
  31. ابن سعد: طبقات الکبیر لابن سعد، جلد 5، صفحہ 344۔
  32. ابو حاتم رازی: کتاب الجرح والتعدیل، جلد 4، صفحہ 330۔ مطبوعہ حیدرآباد دکن، 1360ھ
  33. ابو نعیم اصفہانی: حلیۃ الاولیاء لابی نعیم، جلد 3، صفحہ 31۔ مطبوعہ قاہرہ، 1933ء