عطا محمد رتوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مفتی عطا محمد رتوی رتہ، چکوال کے عالم یگانہ اور عارف کامل تھے۔

ولادت[ترمیم]

مولانا مفتی عطا محمد رتوی ابن مفتی امام الدین رتوی 1301ھ/1883ء میں بمقام رتہ شریف تحصیل کلر کہار میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد جید عالم دین صاحب حال بزرگ اور مولانا خواجہ غلا م نبی للّہی ( للہ شریف ) کے خلیفۂ مجاز تھے ۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

مولانا مفتی عطا محمد نے قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد والد ماجد سے سکندر نامہ تک فارسی کی کتابیں پڑھیں،بعد ازاں کچھ دن موضع یوسف شاہ ( سرگودہا) اور کچھ دن بیربل شریف رہے پھر گھوٹہ ضلع ملتان میں صرف ونحو کے امام مولانا حافظ جمال اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تین سال کے عرصے میں متن متین اور قطبی تک کتابیں پڑ ھ لیں ، ازاں بعد استاذ محترم کی اجازت سے دہلی گئے اور کوچہ بلی ماراں میں قیام کیا لیکن یہاں اطمینان حاصل نہ ہوا اس لیے شہرہ آفاق فاضل مولانا فضل حق رامپوری کی خدمت میں رام پور حاضر ہوئے اور مدرسہ عالیہ میں داخل ہو کر سات سال تک درسیات کی کتب متداولہ کی تکمیل کی ۔ مولانا فضل حق رامپوری نے اسی مدرسہ میں بحیثیت مدرس کام کرنے کی پیشکش کی لیکن مفتی صاحب نے عرض کیا کہ اس سلسلے میں والد ماجد سے اجازت لینا ضروری ہے ، عریضہ ارسال کیا تو والد ماجد نے اجازت نہ دی اور تاکید واپسی کا حکم دیا چنانچہ آپ کو مجبوراً واپس آنا پڑا۔

تدریسی زندگی[ترمیم]

مفتی صاحب کو والد ماجد نے بچپن ہی میں خواجہ دوست محمد للّٰہی کے صاحبزادے خواجہ غلام نبی للّٰہی کے دست مبارک پر بیعت کرادیا تھا ، رامپور سے واپسی پر پہلے للہ شریف حاضر ہوئے ۔ اسٹیشن پر اترے تو خواجہ محبوب الرسول بہ نفیس نفیس استقبال کے لیے تشریف فرما تھے گھر پہنچنے پر والد ماجد نے تدریس کا کام آپ کے سپرد کر دیا اور موضع رتہ ( تحصیل کلرکہا) ایسا دور افتادہ دیہات آپ کے دم قدم سے گہوارہ علمی بن گیا ۔ اٹھارہ بیس سال تک اس فریضہ کو باقاعدگی سے ادا کرتے رہے اور ساتھ ساتھ والد ماجد سے روحانی استفادہ کرتے رہے کیونکہ اپ کی رامپور سے واپسی سے پہلے ہی آپ کے مرشد خواجہ دوست محمد کا وصال ہو چکا تھا ، بعد ازاں تعلیمی مشاغل سے کنارہ کش ہو کر عبادت و ریاضت اور خلق خدا کی اصلاح و ہدایت میں ہمہ تن مصروف ہو گئے ۔

تقریر کی لذت[ترمیم]

مفتی صاحب اپنے دور کے بہتین مقرر اور خطیب تھے ۔ جب آپ روح پرور آواز سے مثنوی شریف کے اشعار پڑھتے تو یو ں محسوس ہوتا تھا کہ پوری فضا جھوم رہی ہے للہ شریف میں معراج شریف کی تقریبات میں آپ کے والد ماجد نے تقریباً تیس سال تک اور مفتی صاحب نے چالیس سال تک شرکت کی اور حاضرین کو اپنے وجد آور بیانات سے مستفید کیا۔آپ کے علمی نکات اور حقائق و حکم سے معمور بیانات نصف شب سے شروع ہو کر صبح تک جاری رہتے ،سامعین کو محویت کے عالم میں رات کے گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا ۔

تلامذہ[ترمیم]

مفتی صاحب کے مریدین ، تلامذہ اور فیضیافتہ افراد کی بہت زیادہ تعداد ہے ، للہ شریف کے موجودہ سجادہ نشین صاحبزادہ الحاج محمد مطلوب الرسول سات سال تک آپ سے روحانی استفاضہ کرتے رہے ہیں،حضرت مفتی صاحب کے وصال کے بعد آپ کے چھوٹے صاحبزادے مولانا مفتی محمع عبد القدوس ہاشمی مذہبی رہنما گورنمنٹ کالج سر گودھا ، فاضل مرکزی حزب الاحناف لاہور (1954ء) آپ کے جانشین ہوئے ، مولانا ہاشمی جیدعالم دین اور خوش بان خطیب ہیں ، بری رسموں کو مٹانے اور اصلاح معاشرہ کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔

وفات[ترمیم]

آپ کا 10رجب ، 10 فروری 1376ھ/1957ء کو وصال ہوا۔ موضع رتہ(تحصیل چکوال) میں والد ماجد کے پہلو دفن ہوئے ، ہر سال 10 رجب کو آپ کا عرس منایا جاتا ہے [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ اکابر اہل سنت: محمد عبد‌الحکیم شرف قادری:صفحہ279 نوری کتب خانہ لاہور