علاؤ الدین عالم شاہ
علاؤ الدین عالم شاہ | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
تاریخ پیدائش | 14ویں صدی | ||||||
وفات | سنہ 1479ء (128–129 سال) بدایوں |
||||||
مدفن | دہلی | ||||||
والد | محمد شاہ سید | ||||||
مناصب | |||||||
سلطان | |||||||
برسر عہدہ 1 جنوری 1446 – 19 اپریل 1451 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | سلطان سلطنت دہلی | ||||||
درستی - ترمیم |
علاؤ الدین عالم شاہ (وفات: 1479ء) سلطنت دہلی کے سید خاندان کا آخری سلطان تھا جس نے 1445ء سے 1451ء تک حکومت کی۔
عہد حکومت
[ترمیم]عالم شاہ جنوری 1446ء میں تخت نشیں ہوا۔ عالم شاہ رموزِ سلطنت و کا رہائے حکومت سے ناواقف تھا۔ عالم شاہ کی بزدلی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 850ھ/ 1446ء میں جب یہ بیانہ کی تسخیر کے لیے روانہ ہوا تو کسی نے یہ افواہ اُڑا دی کہ جونپور کا حاکم دہلی فتح کرنے آ رہا ہے، یہ سنتے ہی اُس کے دل پر کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ راستے سے بھاگتا ہوا واپس دہلی چلا آیا۔ عالم شاہ کو بدایوں پسند تھا۔ چنانچہ جب یہ 851ھ/ 1447ء میں بدایوں گیا تو ایک مدت تک وہیں مقیم رہا اور بہت دیر بعد دہلی واپس آیا۔ عالم شاہ کے عہدِ حکومت میں سلطنت دہلی میں طوائف الملوکی پھیل گئی اور سلطنت دہلی کے اکثر صوبے اور علاقے اقتدار سے نکل گئے۔ عالم شاہ کی حکومت بس بارہ میل کے دائر تک محیط ہو چکی تھی۔ گجرات، سندھ، مالوہ، ملتان، خطۂ پنجاب، بنگال، جونپور، گوالیار، دھولپور، بھدورا، سنبھل، نارنول، بیانہ، بہار، غرض کہ ہر ریاست اور صوبے میں خود مختار گورنر حکومت کرنے لگے۔ عالم شاہ کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے 851ھ/ 1447ء میں دوبارہ دہلی پر حملہ کیا لیکن اُسے کامیابی نہ ہو سکی۔
عالم شاہ نے استحکام سلطنت کی طرف توجہ مبذول کی تو قطب خاں، عیسیٰ خاں اور رائے پرتاپ سے مشورہ کیا۔ یہ امرا تو چاہتے تھے کہ عالم شاہ کو بدتر حالت میں دیکھیں۔ لہٰذا اِن لوگوں نے یہ مشورہ کیا کہ حمید خاں کو اگر عہدہ وزارت سے معزول کر دیا جائے تو حالات درست ہوجائیں گے کیونکہ رعیت اُس سے بہت ناراض ہے۔ عالم شاہ کو عقل و فہم اور دور اندیشی سے کوئی واسطہ نہ تھا، اِسی لیے اُس نے امرا کا یقین کر لیا اور حمید خاں کو قید کروا دیا اور خود بدایوں جا کر اقامت اختیار کرلی۔ عالم شاہ نے دہلی کی بجائے بدایوں کو دار السلطنت بنانا چاہا لیکن حسام خان نے اِس بار بھی یہی سمجھا کہ دہلی پایہ تخت ہے، اب اِس کو بدایوں منتقل کرنا نامناسب ہے۔ لیکن عالم شاہ نے کسی کی بات پر غور نہ کیا اور حسام خاں کی طرف سے رنجیدہ خاطر ہوا۔ عالم شاہ حسام خاں سے الگ ہو گیا اور خود 852ھ کے آخری مہینوں میں بدایوں چلا گیا۔ عالم شاہ اپنی بیوں کے ہمراہ بدایوں منتقل ہوا تو دہلی میں طوائف الملوکی عام ہو گئی، خونریزی کے واقعات بڑھتے گئے یہاں تک کہ عالم شاہ کے دو سالے بھی اِنہی واقعات و ہنگاموں میں قتل ہو گئے۔ مگر عالم شاہ بدستوں اپنی رنگ رلیوں میں مصروف رہا۔ عالم شاہ کے بدایوں قیام کے دوران رائے پرتاب نے اُسے یہ بات باور کروائی کہ اگر حمید خاں کو قتل کر دیا جائے تو دہلی کے حالات درست ہو سکتے ہیں اور سب فوراً مطیع ہو سکتے ہیں۔ عالم شاہ نے حمید خان کے قتل کا حکم جاری کر دیا۔ حمید خاں کو عالم شاہ نے قید کروا دیا تھا، جب اُس کے ساتھیوں کو پتا چلا کہ عالم شاہ بدایوں منتقل ہو گیا تو انھوں نے قید خانہ پر حملہ کرکے حمید خاں کو آزاد کروا لیا۔ حمید خان رہا ہوتے ہی حرم شاہی میں داخل ہو گیا اور عالم شاہ کی بہو بیٹیوں کی خوب بے عزتی کی اور عالم شاہ کے بیٹوں، بیٹیوں، بیویوں اور خاندان کے دوسرے افراد کو کو محل سے برہنہ سر کرکے نکال دیا اور شاہی خزانہ پر قبضہ کر لیا اور بہلول لودھی کو دہلی پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی۔ بہلول لودھی جس نے 1447ء میں پہلے حملہ کیا تھا کہ سلطنت دہلی کو اپنے ہاتھوں میں لے سکے، اب کی بار موقع پاتے ہی اُس نے دہلی پر حملہ کر دیا۔ 854ھ/ 1450ء میں بہلول لودھی دہلی پر قابض ہو گیا اور پنجاب اور دیپالپور کو فتح کرلینے کے بعد واپس دہلی آیا تو عالم شاہ نے ایک خط کے ذریعہ سے اپنی دستبرداری ظاہر کردی اور سلطنت دہلی کی باگ دوڑ بہلول لودھی کو سونپ دی اور خود بدایوں میں مقیم رہا۔[1][2]
وفات
[ترمیم]19 اپریل 1451ء کو عالم شاہ معزول ہو گیا اور سلطنت دہلی بہلول لودھی کے ہاتھ میں آگئی۔ عالم شاہ بدایوں میں مزید 28 سال تک زندہ رہا اور 1479ء میں فوت ہوا۔ اُس کی تدفین بدایوں میں کی گئی۔ بحیثیت سلطان سلطنت دہلی اُس نے 5 سال 3 ماہ تک حکومت کی۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]ماقبل | سلطان سلطنت دہلی جنوری 1446ء – 19 اپریل 1451ء |
مابعد |