علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی پیر آف جھنڈہ ششم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی پیر آف جھنڈہ ششم

سید احسان اللہ شاہ راشدی کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹے عطا کیے تھے ان کی وفات کے بعد ان کے سب سے بڑے بیٹے علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی کو پیر جھنڈا ششم کی حیثیت سے خاندانی سجادگی کے منصب پر فائز کیا گیا ۔ آپ کی ولادت گوٹھ پی جھنڈو نیو سعید آباد ضلع مٹیاری سندھ میں مؤرخہ 2 اکتوبر 1921 مطابق 29 محرم الحرام 1325ھ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسہ دار الرشاد میں حاصل کی جو ان کے والد سید احسان اللہ شاہ راشدی کی نگرانی میں جاری تھا آپ کے مشہور اساتذہ میں حافظ محمد متوہ ، مولانا ولی محمد کیریو، مولانا محمد اسحاق افغانی ، مولانا عبد الوھاب، مولانا حمید الدین ، مولانا محمد اکرم ہالائی انصاری، مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا محمد مدنی ، مولانا محمد خلیل ، مولانا عبد الحق بہاولپوری ہاشمی مدنی ، مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی ، مولانا عطاء اللہ حنیف اور آپ کے والد ماجد سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمہم اللہ علیہم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے سندھ یونیورسٹی جام شورو حیدرآباد سے فاضل عربی اور شعبہ ثقافت اسلامی وتقابل ادیان میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد آپ درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ میں مصروف ہو گئے۔ مدرسہ دار الرشاد کے ساتھ اور ینٹیل کالج قائم کیا جو سندھ یونیورسٹی کے ماتحت آٹھ برس تک چلتارہا۔ آپ کو بھی اپنے خاندان کے اسلاف کی طرح کتابیں جمع کرنے کا بے حد شوق تھا۔ اپنے خاندانی کتب خانہ کی توسیع وترقی میں خوب حصہ لیا۔ نادر و نایاب کتابوں کے حصول میں زر کثیر خرچ کیا اور آبائی کتب خانہ میں مختلف علوم وفنون کے ہزاروں مخطوطہ ومطبوعہ کتابوں کا اضافہ کیا۔ آپ نے کتابوں کے حصول کے لیے امرتسر اور دہلی کے سفر کیے۔ ترکی کے علمی مرکز استنبول، برطانیہ کے اسفار اور حج کے متعدد مواقع پر زیادہ وقت کتابوں کی تلاش وحصول میں مصروف رہے۔ اس لیے آپ کا کتب خانہ المکتبۃ العلمیہ آج بھی ہزاروں مطبوعات ومخطوطات کا خزینہ تسلیم کیاجاتاہے۔ کتابیں جمع کرنے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ مطالعہ و تحقیق میں بھی مصروف رہتے تھے۔ آب کو علم تفسیر،حدیث،فقہ،فن رجال، فلسفہ،تاریخ اصول عربی،ادبیات وغیرہ علوم پر گہری نظر وعبور حاصل تھا۔ فن خطابت وتدریس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تصنیف وتالیف کا خصوصی ملکہ عطا کیا تھا۔ علوم حدیث سے قلبی لگاؤ تھا۔ آپ نے عربی ،اردو اور سندھی زبان میں 60 سے زیادہ کتابیں تصنیف فرمائیں۔ ان کے علاوہ متعدد تحقیقی و علمی مقالات ومضامین اور فتاویٰ جات تحریر فرمائے۔

سید محب اللہ شاہ راشدی کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹے عطا کیے تھے ان کی وفات کے بعد ان کے سب سے بڑے بیٹے

سید محمد یاسین شاہ راشدی

کو پیر جھنڈا ہفتم کی حیثیت سے خاندانی سجادگی کے منصب پر فائز کیا گیا

وفات[ترمیم]

علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے 19 شعبان 1415ھ مطابق 21 جنوری 1995ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے چھوٹے بھائی اپنے وقت کے مجدد اور امام علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی نے پڑھائی۔

حوالہ جات[ترمیم]

( کاروان سلف محمد اسحاق بھٹی ، صفحہ : 379، مقدمہ بدیع التفاسیر ، پیش لفظ از پروفیسر محمد جمن کنبھر ، صفحہ: 23، اصحاب علم و فضل از محمد تنزیل الصدیقی ، صفحہ : 43 ، ماہنامہ دعوت اہل حدیث مٹیاری سندھ۔ اگست 2004ء