علماء کے بائیس نکات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

علما کے بائیس نکات یا بائیس اسلامی نکات سے مراد وہ نکات ہیں جنہیں 1951ء میں پاکستان کے جید علما اور تمام مسلم فرقوں کے نمائندگان نے متفقہ طور پر مرتب کرکے دستور پاکستان کی اساس بنانے کے لیے پیش کیا تھا۔[1]


پسِ منظر[ترمیم]

پاکستان میں نفاذِ شریعت کو روکنے کے لیے سیکولر طبقے کی ایک اہم دلیل یہ تھی کہ علما فرقہ واریت کا شکار ہیں اور وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ اسلامی نظام کے ایک تصور پر اتفاق کیا جاسکے۔ ان کا خیال تھا کہ علما نے قرآن مجید کے اصولوں کو اس طرح کی مبہم تشریحات دی ہیں کہ اسلام میں مشترکہ لائحہ عمل ختم ہو گیا۔ ان کا ماننا تھا کہ مختلف مکاتب فکر کے علما عقلی اور منظم آئینی لائحہ عمل دینے سے قاصر ہیں ، جو پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت کے لیے قابل قبول ہو سکے۔ اس دلیل کا مقابلہ کرنے اور اتحاد کا مظاہرہ کرنے کے لیے ، مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے 31 علما نے یہ چیلنج قبول کیا- 21 سے 24 جنوری 1951 کو کراچی میں منعقدہ ایک کنونشن میں تمام مسالک کے جید علما جمع ہوئے۔ مکمل بحث و مباحثے کے بعد ، انھوں نے 22 اصولوں کا ایک پروگرام وضع کیا جو ان کے مطابق اسلامی ریاست کے لیے کم سے کم تھا۔ ان کا دیا ہوا فارمولا عام طور پر علما کے بائیس نکات کے نام سے جانا جاتا ہے۔[2]


نکات[ترمیم]

(1) اصل حاکم تشریعی وتکوینی حیثیت سے الله رب العالمین ہے۔

(2) ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہو گا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا ، نہ ایسا حکم دیا جاسکے گا جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔

(3) مملکت کسی جغرافیائی ، نسلی ، لسانی یا کسی اور تصور پر ، بلکہ ان اصول اور مقاصد پر مبنی ہو گی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہو ضابطہ حیات ہے۔

(4) اسلامی مملکت کا یہ فرض ہو گا کہ کتاب و سنت کے بتائے ہوئے معروضات کو قائم کرے ، منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلام کے احیاء واعلاء اور متعلقہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔

(5) اسلامی مملکت کا یہ فرض ہو گا کہ وہ مسلمانان عالم کے رشتہ اتحاد واخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی ، لسانی ، علاقائی یا دیگر مادری امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ و استحکام کا انتظام کرے۔

(6) مملکت بلا امتیاز مذہب ونسل وغیرہ تمام ایسے لوگوںکی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا ، لباس ، مسکن ، معالجہ اور قیام کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں یا نہ رہے ہوں عارضی طور پر بے روزگار ہوں ، بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعی اکتساب پر قادرنہ ہوں۔

(7) باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان و مال وآبرو ، آزادی مذہب ومسلک ، آزادی عبادات ، آزادی ذات ، آزادی اکتساب رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔

(8) مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہر کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی مجرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقع صفائی و فیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔

(9) مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدود قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہو گی۔انھیں اپنے پیروؤں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہو گا ۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے ۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انھیں کے قاضی یہ فیصلہ کریں گے-

(10) غیر مسلم باشندگان مملکت کو حدود قانون کے اندر مذہب و عبادت ، تہذیب و ثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی ہوگی اور انھیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم ورواج کے مطابق کرانے کا حق حاصل ہوگا۔

(11) غیر مسلم باشندگان مملکت سے حدود شریعت کے اندر جو معاہدات کیے گئے ہیں ان کی پابندی لازمی ہو گی اور جن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر7 میں کیا گیا ہے ان میں غیر مسلم باشندگان ملک برابر شریک ہوں گے۔

(12) رئیس مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین ، صلاحیت اور اصابت رائے پرجمہور یا ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔

(13) رئیس مملکت ہی نظم مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا ، البتہ وہ اپنے اختیارات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کر سکتا ہے۔

(14) رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں ، بلکہ شوارئی ہو گی یعنی وہ ارکا ن حکومت اور منتخب نمائندگان جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض سر انجام دے گا۔

(15) رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہو گا کہ وہ دستور کو کلاً یا جزواً معطل کر کے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔

(16) جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہو گی ، وہ کثرت آراء سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہو گی۔

(17) رئیس مملکت شہری حقوق میں عامتہ المسلمین کے برابر ہو گا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر نہ ہوگا۔

(18) ارکان وعمال حکومت اور عام شہریوں کے لیے ایسا ہی قانون و ضابطہ ہو گا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔

(19) محکمہ عدلیہ ، محکمہ انتظامیہ سے علاحدہ اور آزاد ہو گا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت انتظامیہ سے اثر پزیر نہ ہو۔

(20) ایسے افکار ونظریات کی تبلیغ و اشاعت ممنوع ہو گی جو مملکت اسلامی کے اساسی اصول و مبادی کے انہدام کا باعث ہوں۔

(21) ملک کے مختلف ولایات و اقطاع مملکت واحدہ کے اجزاء انتظامی متصور ہوں گے ،ان کی حیثیت نسلی ، لسانی یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں ، بلکہ مخص انتظامی علاقوں کی ہو گی ، جنہیں انتظامی اختیارات کے پیش نظر مرکز کی سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا ، انھیں مرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہو گا۔

(22) دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہو گی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔


دستخط کنندگان[ترمیم]

ان 22 نکات پر دستخط کرنے والوں کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں ۔

(1) مولانا سید سلیمان ندوی
(2) مولانا شمس الحق افغانی
(3) مولانا بدرعالم میرٹھی
(4) مولانا احتشام الحق تھانوی
(5) مولانا عبد الحامد بدایونی
(6) مولانا مفتی محمد شفیع
(7) مولانا محمد ادریس کاندھلوی
(8) مولانا خیر محمد جالندھری
(9) مولانا محمد حسن امرتسری
(10) پیر امین الحسنات
(11) علامہ محمد یوسف بنوری
(12) حاجی خادم الاسلام
(13) قاضی عبدالصمد
(14) مولانا اطہر علی
(15) مولانا ابو جعفر محمد صالح
(16) مولانا راغب احسن
(17) مولانا حبیب الرحمٰن
(18) مولانا محمد علی جالندھری
(19) مولانا داؤد غزنوی
(20) مفتی جعفر حسین
(21) مفتی کفایت حسین
(22) مولانا محمد اسماعیل
(23) مولانا حبیب اللہ تھیڑی خیرپوری
(24) مولانا احمد علی لاہوری
(25) مولانا محمد صادق
(26) پروفیسر عبدالخالق
(27) مولانا شمس الحق فرید پوری
(28) مفتی محمد داد
(29) پیر محمد ہاشم مجددی
(30) سید ابو الاعلیٰ مودودی
(31) محمد ظفر احمد انصاری

حوالہ جات[ترمیم]