علم بیان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

علمِ بیان کے معنی واضع کرنا اور روشن کرنا کے ہیں۔ یہ کسی بھی تحریر کی نگارش میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس علم کی بدولت کوئی بھی تحریر فصاحت اور بلاغت کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ اس کی چار اہم اقسام ہیں۔ جن کی آگے مزید درجہ بندی کر دی گئی ہے۔ چار اقسام میں تشبیہ، استعارہ، کنایہ، مجاز مرسل شامل ہیں۔

تشبیہ؛یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مادہ شبہ ہے۔ کسی مشارکت کی بنا پر ایک چیز کو دوسری چیز جیسا کہنا تشبیہ کہلاتا ہے۔ اس کے اراکین کی تعداد پانچ ہے۔ اس کی مثال یہ ہے۔ اس کی رنگت چاند کی طرح سفید ہے۔

استعارہ؛یہ عربی زبان کا لفظ اس کے معنی ادھار لینا کے ہیں۔ اس میں کسی شخص کو ہو بہو دوسرا کہ دیا جاتا ہے۔ اس کے اراکی کی تعداد چار ہے جس میں مستعارلہ۔ مستعارمنہ۔ مستعار اور وجع جامع شامل ہیں۔

کنایہ؛یہ بھی عربی سے ہی ماخوز ہے۔ اس کے معنی اشارہ کرنا کے ہیں۔ اس میں اشاروں سے بات کہ دی جاتی ہے اور مجازی طور پر مفہوم واضح کر دیا جاتا ہے۔ اس کی آگے آٹھ اقسام درج ذیل ہیں۔ کنائیہ قریب۔ کنائیہ بعید۔ تلویح۔ تعریض۔ کنائیہ اثبات۔ کنائیہ نفی۔ رمز۔ اور ایما۔مجاز مرسل؛اصل میں یہ استعارہ سے تھوڑی الگ قسم ہے۔ اس میں کسی ایک شے کو وجہ مان کر دوسری اشیاء کے متعلق بتایا جاتا ہے۔ اس کی آگے چھ صورتیں ہیں۔ جن میں یہ شامل ہیں۔ جزو بول کر کل مراد لینا۔ کل بول کر جزو مراد لینا۔ سبب بول کر نتیجہ یا مسبب مراد لینا۔ مسبب بول کر سبب مراد لینا۔ ظرف بول کر مظروف مراد لینا۔

حوالہ جات[ترمیم]