علی الامین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سید علی الامین کا پورا نام " علی بن محمد بن علی تقی بن محمد الامين" ہے۔ آپ ایک مشہور و معروف لبنانی شیعہ عالم دین و مجتہد ہیں۔[1] آپ سنہ 1952 عیسوی میں قلاويہ العامليہ میں پیدا ہوئے۔ آپ علم فقہ،حدیث اصول،تفسیر اور منطق پر عبور رکھتے ہیں۔[2]

دینی تعلیم[ترمیم]

آپ نے مذھبی تعلیم کیلے نجف اشرف کا سفر کیا ،اور حوزہ علمیہ نجف سے درجہ اجتہاد حاصل کیا۔ آپ کے اساتذہ یہ ہیں: آیۃ الله الخوئی آیۃ الله محمد باقر الصدر آیۃ الله نصر الله المستنبط آیۃ الله الروحانی[3]

آپ نے اصول الفقہ اور دیگر علوم حوزات النجف وقم ولبنان وغیرہ میں پڑھائے۔ اور سینکروں طلبہ آپ کے علم و تحقیق سے مستفید ہوئے۔

بعد میں آپ نے وطن مراجعت کے بعد بیروت کے حوزہ جات میں درس و تدریسی خدمات انجام دئے۔ حزب اللہ میں آپ کے بہت سے طلبہ شامل ہو گئے۔ چونکہ باقر الصدر کے آپ ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے[4] اس لیے بعد میں معهد الإمام الصدر للدراسات الإسلامية صور لبنان میں آپ نے تشنگانِ علم کو سیراب کیا۔

2008ء میں بعض مسلح گروہوں نے آکے گھر کا گھیراؤ کیا اور آپ کو وہاں سے نکل جانے پر مجبور کیا۔ اور آپ بیروت میں قیام پزیر ہو گئے۔

کتابیں[ترمیم]

آپ نے بہت سی کتابیں لکھیں کتابیں جن میں سے بعض یہ ہیں:[3]

  • السنة والشيعة أمة واحدة(إسلام واحد واجتهادات متعدّدة)
  • الأحزاب الدينية بين شهوة السلطة ورسالية الأئمة
  • ولاية الدولة ودولة الفقيه
  • النجوم العوالي في فروع العلم الإجمالي
  • غاية المراد في حديث "لا تعاد"
  • كيف نفهم الثورة الحسينية
  • رسالة في تخطئة المجتهد وتصويبه
  • بلغة النفوس في شرح الدروس
  • موقع المسلمين الشيعة في العالم العربي والإسلامي انطلاقا من التقريب بين المذاهب الإسلامية
  • الإسلام كما جاء: المذاهب ليست قدراً لا يمكن تجاوزه
  • وهل يخفى القمر
  • زبدة التفكير في رفض السبّ والتكفير

Ali-alamine-books.jpg

ان کتابوں میں سے سب سے زیادہ شہرت آپ کی کتاب "السنة والشيعة أمة واحدة" کو ملی جس میں آپ نے کہا کہ شیعہ اور سنی امت واحد ہے صرف بعض اجتہادی اختلافات ہیں۔[5]

مجموعہ کلام[ترمیم]

آپ ایک مشہور اور برجستہ شاعر بھی ہیں،آپ کے اشعار و قصائد کے مجموعے جو طبع ہو کر آئے ہیں درج ذیل ہیں: النائب السعيد في العهد الجديد الصمت العجيب في رحاب التوحيد موعظة المشيب شهداء تونس

شیعہ و سنی اتحاد[ترمیم]

سید فضل اللہ کے بعد شیعہ سنی اختلافی مسائل اور تاریخی حقائق پر بے خوف تبصرہ کرنے والے گنے چنے مجتہدین میں سے ہیں۔ آپ کی اس بے خوف اور نڈر بیانات کو ہم ان کی کتب شیعہ سنی امۃ واحدہ میں دیکھ سکتے ہیں۔

عزاداری پر موقف[ترمیم]

واقعہ کربلا اور مجالس عزاداری کے متعلق آپ ایک اصلاحی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔[6]

ولایت فقیہ اور حزب اللہ پر موقف[ترمیم]

آپ ولایت فقیہ کا ایران سے باہر دائرہ کار کو نہیں مانتے اور حزب اللہ کو ایک ارہابی تنظیم قرار دیتے ہیں۔[7]

علما اور سیاست[ترمیم]

آپ کا نظریہ یہ ہے کہ علما کو سیاست میں شامل نہیں ہونا چاہیے،کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ علما کو یہ اجازت نہیں کہ وہ سیاست میں شامل ہو جائیں۔ ہمارے ائمہ میں سے کوئی سیاست میں شامل نہ تھا اور نہ انبیا کا یہ شیوہ رہا۔[8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "آرکائیو کاپی"۔ 01 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مئی 2017 
  2. آفیشل سائیٹ سید علی الامین کی ویب گاہ
  3. ^ ا ب علي الأمين - ويكيبيديا، الموسوعة الحرة
  4. باقر الصدر کے شاگرد و دوست Notable Colleagues and Students
  5. http://www.thenational.ae/news/uae-news/education/scholar-deplores-sectarian-rhetoric
  6. https://www.al-amine.org/it-is-necessary-to-re-consider-organizing-the-majjalis-practices-of-imam-hussein-through-promoting-its-aspects-and-readings-with-tools-of-internal-reform/
  7. السيّد علي الأمين: ولاية الفقيه شأن إيراني وحزب الله وأمل أساءا للشيعة العرب - المجلة[مردہ ربط]
  8. "Sayyed Ali al-Amin: No political role for religious leaders | Rasheed's World"۔ 26 نومبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مئی 2017