علی بن ابی طالب البلخی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ابو الحسن علی بن ابی طالب بلخی فقہ حنفی کے امام اور بلخ میں نقیب الاشراف تھے۔اور اپ کے دوسرے بھائی سید عقیل بھی تھے، [1]نیلی مسجد یا مسجدِ کبود (مزارِ شریف، افغانستان) میں موجود روضہ شریف ان ہی سے منسوب ہے۔[2][3]

نسب[ترمیم]

ابو الحسن علی بن ابی طالب الحسن نقیب بلخ بن ابی علی عبید اللہ بن ابی الحسن محمد الزاہد بن ابی علی عبید اللہ نقیب ہرات بن ابی القاسم علی نقیب بلخ بن ابی محمد الحسن بن الحسین بن جعفر الحجہ بن عبید اللہ الاعرج بن تاج العارفین الحسين الاصغر بن زین العابدین بن الحسین بن علی[4] بن ابی طالب جس کا ذکر سید قمر عباس اعرجی کی کتاب مدرک الطالب فی نسب آل ابی طالب میںہے اور والدہ ریطہ بنت الحسن کا نسب محمد بن حنفیہ بن علی بن ابی طالب سے جا ملتا ہے۔[5][6][7]

زمانہ حیات[ترمیم]

آپ کی زندگی کا بیان سید قمر عباس اعرجی کی کتاب روضۃ الطالب فی اخبار آل ابی طالب میں تفصیل سے ہے آپ کے عہد میں کلامیہ اور دیگر فقہی مذاہب کے درمیان فکری تنازعات اپنے عروج پر تھے۔ یہ دراصل اُنہی سیاسی مسائل اور عقائد کے اختلافات کا تسلسل تھا جو زمانہ قدیم سے چلے آ رہے تھے حالانکہ جس طرح دیگر تمام ادیان کے اصول و فروع میں اس طرح کے اختلافات رہتے آئے ہیں اسی طرح اسلامی ثقافت میں بھی رہے ہیں لیکن ان نظریاتی اختلافات کی نہ کوئی خاص اہمیت رہی ہے اور نہ ہی انھیں قابلِ ملامت سمجھا گیا۔ علمِ کلام اصول میں اختلافات کے باعث پروان چڑھا ہے جبکہ علمِ فقہ کی بنیاد فروعی اختلافات پر مبنی ہے۔ اصول میں اختلاف چار بڑے مسائل کے باعث تھا۔ پہلا مسئلہ صفات اور توحید، دوسرا قضا اور قدر، تیسرا وعد و وعید اور چوتھا مسئلہ نبوت اور امامت کا تھا۔ پانچویں صدی ہجری اس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ اس عہد میں علومِ شرعی کے دائرہ تفکیر نے وسعت پائی اور یہی حال دیگر علوم کا بھی رہا جن میں عقلی، طبیعی اور سماجی علوم بھی شامل ہیں۔ یہ عہد اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں ان علوم پر تمام فرقوں اور مذاہب کی جانب سے بکثرت کام ہوا۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ علی ابن ابی طالب بلخی کا عہدِ حیات خلافتِ عباسیہ کے تنزل کا دور تھا۔ مرکزی حکومت مختلف علاقائی حکومتوں میں بٹ چکی تھی اور یہ چھوٹی چھوٹی طاقتیں خلفاء کے انتخاب کے لیے آپس میں دست و گریبان تھیں جس کے باعث ان میں اور خلیفہ وقت میں جنگی کیفیت پیدا ہو گئی تھی جو عام زندگی کے تمام شعبوں پر بری طرح اثر انداز تھی۔ اس کے علاوہ اس عہد میں زلزلوں اور قحط سالی جیسے قدرتی حوادث بھی بکثرت واقع ہوئے جن کے نتائج و نقصانات کا تفصیلی ذکر مورخین نے کیا ہے۔ یہ دور اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں ہر علم و فن میں علمائے کاملین پیدا ہوائے ہیں۔ اضمحلال اور تنزل کے باعث ان اہم واقعات کی بنیاد پر اس دور کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

  • یہ دور مختلف شعبہ ہائے حیات میں عجیب وغریب واقعات سے بھرا ہوا تھا۔
  • یہ دور سیاسی' فکری اور دینی اعتبار سے اضطراب کا دور تھا۔
  • مسلم بادشاہوں اور سلاطین کی کمزوری اور آپسی اختلافات کے باعث مغلوں نے مشرقی حدود پر ہلہ بول دیا تھا
  • مغربی جانب سے بلادِ اسلامیہ کو صلیبی جنگوں کے خطرہ نے آگھیرا تھا۔
  • مسلم بادشاہوں نے اپنی آپسی لڑائیوں میں ان اجنبی طاقتوں سے مدد لینی شروع کردی تھی جو بہر طور ان کی دشمن تھیں۔
  • سماجی بنیادیں کمزور ہو گئیں تھیں بلکہ لڑکھڑا رہی تھیں۔
  • گروہِ کلامیہ اور مذاہبِ فقہی کے درمیان تنازعات اپنے عروج پر تھے۔
  • علامہ علاء الدین سمرقندی اور علامہ نظام الملک جیسے اکابر علما کے وجودِ بابرکت سے اسلامی شعور نئے انداز سے پنپ رہا تھا۔

اسی افراتفری اور بدحالی کے دور میں آپ نے طلبِ علم کے لیے جد و جہد فرمائی ' مختلف حنفی شیوخ کی خدمت میں فقہ کی تعلیم حاصل کی اور مذہب' خلاف اوراصول میں یکتائے زمانہ ہو گئے۔اسی طرح آپ نے ادب پڑھا اور مختلف محدثین سے سماعتِ حدیث کا شرف حاصل کیا۔ آپ تیس سال تک علوم ِ شرعی اور ان کے اصول و فروع کی تعلیم میں مشغول رہے[8]۔

آپ کے بعض حالاتِ زندگی[ترمیم]

آپ ساداتِ حنفیہ و ماتریدیہ میں اعلیٰ مرتبت کے حامل تھے ۔ خاص طور پر فاضل کی موجودگی میں مفضول کی امامت کے مسئلہ پر آپ کا قول معروف ہے۔ آپ شاعر بھی تھے نثر نگار بھی' زاہد بھی تھے عابد بھی ۔ مشربِ تصوف میں عامل اور بڑے بھائی سید عقیل کے خلیفہ مجاز بھی تھے۔ [9] کا شمار بلخ اور اقلیمِ خراسان کے ان ساداتِ کرام میں ہوتا تھا جن کی وہاں کے عوام میں بڑا مقام و منزلت تھی۔ "شاہِ مردان" کے لقب سے معروف تھے۔ اور سلجوقی امرا مثلاً الپ ارسلان اور اس کے بیٹے جلال الدولہ ملک شاہ ' وزرائے سلطنت مثل نظام الملک وغیرہ کے سفیر رہے جنہیں اپنی سرکاری مہمات و وفود میں آپ پر کامل اعتماد تھا۔ آپ نے بغداد' دمشق' قاہرہ اور ہندوستان کا سفر کیا اور ان ممالک کے بادشاہوں اور عوام میں آپ یکساں طور پر محترم تھے۔ آپ نے کتاب "فضائلِ بلخ" تصنیف کی۔ بغداد کے مدرسہء نظامیہ میں حنفی اور شافعی فقہ کے استاد رہے اور ایک عرصہ تک وہاں خدمات انجام دیں آپ کی ریشِ مبارک نہایت کثیف و حسین تھی۔ شجاعت و قوتِ قلبی اورپہلوانی میں اپنے والد کی مانند شجیع تھے۔ آپ خواجہ خیران نامی گاؤں میں بہت مشہور تھے جو آج کل "مزارِ شریف" کے نام سے موسوم ہے اور خراسان میں بلخ سے چند میل کی دوری پر واقع ہے ۔ آپ نے دو دفعہ حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور ایک دفعہ "ہرات" کا سفر کیا جہاں کے بادشاہ نے آپ کا نہایت احترام کیا۔ اس کے علاوہ بھی آپ نے متعدد سفر کیے جن میں سمرقند؛ ریورتون؛ سمنان؛ مرو؛ طوس ؛ تایباد' قزل رباط؛ کیش شامل ہیں۔ آپ کے عوام النّاس سے بہترین تعلقات تھے اور ان کے دلوں میں آپ کا رعب تھا اور آپ تمام فرقوں میں اپنے زہد و تقویٰ کے باعث محبوب تھے۔

معروف عالم أبو الحسن علي بن أبي طالب بن عبيد الله البلخي الباخرزي نے اپنی کتاب "دمية القصر وعصرة أهل العصر" میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ آپ اشرف السادات اور صاحبِ فضیلت تھے اور اس عظیم الشان سلطنت کی ایک شاخ اور اس ہوادار شجر کے ایک پھول تھے۔میں نے شیخ ابو عمرو کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے چچا کی خدمت میں ان کے شعر سناتے تو ان کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ جاتی اوران کی زبان اس خزینہء فضل و رحمت کے چھلکتے پیالے پر حمد و شکر میں مشغول ہوجاتی جس کے باعث انھیں یہ شرف و منزلت حاصل تھی۔ میں نے کتاب "قلاید الشرف" میں آپ سے منسوب حسبِ ذیل نطم دیکھی ہے جس کے متعلق میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ آپ پر اللہ سبحانہ تعالیٰ کی کی خاص نظرِ عنایت ہے:

  • • أرقت وحجري بالمدافع يشرق *** وقلبي إلى شرقي رامة شيق
  • • وما زلت أحمى بالتصبر مهجة *** يكر عليها للصبابة فيلق
  • • خليلي هل لي بالعذيبة رجعة *** وان لم يعاودني الصبا المتأنق
  • • وهل لي بأطراف الوصال تماسك *** وهل انا من داء التفرق مقرق
  • • بحيث الصبا فينان أخضر مورق *** يغازلني والعيش صاف مورق
  • • وكم قد مضى ليل على أبرق الحمى *** يضئ ويوم بالمشرق يشرق
  • • تسرقت فيه اللهو أملس ناعما *** وأطيب انس المرء ما يتسرق
  • • ويا حسن طيف قد تعرض موهنا *** وقلب الدجى من صولة الصبح يخفق
  • • تنسمت رياه قبيل وروده *** وما خلته يحنو على ويشفق
  • • آپ کا ایک قصیدہ نعتِ نبیء کریم صلى الله عليه و آلہ و سلم میں معروف ہے:
  • • لله روضٌ به المختار يُسعدنا *** بالكوثر العذب فياضٌ وزخّار
  • • وجنة الخلد زُفت عند روضته *** قلبي لها لمدى الأيام يختار
  • • وقد جثوت بذل عند عتبته *** إن الكريم لكسر القلب جبار
  • • قد مسني مِن أليم البين يا أملي *** وطال في الصدّ أزمانٌ وأعمار
  • • فارفُق بقلبي وحاشا أن أضام إذا *** كان الشفيع هو المختار والجار
  • • وانظر إليّ بعطف منك يسعفني *** فالغيث منك لقلب الصب مدرار
  • • عليك مني سلام ملؤه شجن *** ما غردت في سماء العشق أطيار
  • • والآل وصحبه مني مهجةً صُرفت *** للود والشوق هم في الدين أقمار[10]

آپ کی اولاد[ترمیم]

آپ کے دو صاحبزادے تھے۔ الحسين تاج الدين اور شرف الدين أبى محمد الحسن جو عالم؛ محدث اور بلخ کے نقیب تھے۔ ان کی مشہور و معروف اولاد میں مندرجہ ذیل افراد شامل ہیں: - الحسن ابى يعلى اور ابى الحسن جو القاسم بن علي بن شرف الدين بن علي الفقيه کے صاحبزادے تھے۔ - علي نقيب طخارستان بن حسين تاج الدين بن علي بن ابي طالب جن کی اولاد طخارستان میں باقی رہی۔ - تاج الدين بن الحسن ابى يعلى(أبوالفوارس) بن القاسم مجدالدين بن علي ابى محمد المغفور بن شرف الدين الحسن بن علي بن ابي طالب نقيب بلخ جنھوں نے مشرقی اناضول کو ہجرت کی اوركرد کے قریب ديار بكر میں قیام کیا جہاں ان کی اولاد آج بھی موجود ہے۔ [11] - أبى الحسن عـلي بن القاسم مجدالدين بن عـلي(أبوالفـراس) بن أبى محمد المغفـور شرف الدين بن الأمام علي بن الحسن أبي طالب بن عبيدالله النقيب جن کے پوتوں میں الشيخ محمد الحافظ بن عبدالله القـاضي بن علي بن محمد أبوالحسن بن جعفر بن أحمد بن حسـن بن أحمد الحـافـظ بن يحيى(أبـوالطـيب) بن جعفر (اليارخداي) بن محمـد بن القاسم(أبى يعلى) بن علي بن مجدالدين محمـد بن أبى الحسن علي بن القـاسم مجدالدين بن علي(أبـوالفراس) بن أبى محمـدالعـالم المغفور شرف الدين الحسن بن علي بن أبي طالب بن عبيدالله النقيب مشہور تھے[12]

آپ کی وفات اور مدفن[ترمیم]

علي بن أبي طالب البلخي کی وفات سن 485 ہجری مطابق 1092 عیسوی میں ہوئی۔[13] اور آپ بلخ میں مدفون ہوئے[14]. عام لوگوں کا خیال ہے کہ نیلی مسجد یا مسجدِ کبود جس کا شمار آثارِ قدیمہ میں ہوتا ہے اس میں حضرت امیر المومنین علي بن أبي طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی مرقد ہے لیکن تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ دراصل حضرت علي بن أبي طالب البلخي کی مرقد ہے جو اپنے عہد میں بلخ کے علوی سادات کے نقیب تھے۔ [15] سلجوقی سلاطین نے سلطان سنجر سلجوقی کی پیشوائی میں فیصلہ کیا کہ حضرت علي بن أبي طالب البلخي کی قبرِ مبارک کے احترام میں جو سلجوقی سلطنت کے سفیر تھے نیلی مسجد کو اس کے اصل مقام پر دوبارہ تعمیر کیا جائے۔ بعد ازاں یہ مسجد چنگیز خان کے ہاتھوں سن 1220 کے حملہ کے دوران مسمار کردی گئی۔ پھر سلطان حسین مرزا بایقرا نے پندرہویں صدی میں اس کی دوبارہ تعمیر کروائی[16]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مرات العارفین صفحہ 24 مصنف شمس العلماء سید محمد بن سید حسین
  2. مزار الشريف والضريح : جدلية الأسطورة والتاريخ : ملامح سيرة علي بن أبي طالب البلخي ، د.جمال الدين الكيلاني، مجلة الفكر الحر، 2011
  3. د.قحطان عبد الستار الحديثي (أستاذ تاريخ خراسان الاسلامي بجامعة بغداد)، أبو الحسن علي بن أبي طالب البلخي والمسجد الازرق، جريدة الراصد البغدادية، 1988
  4. عمدة الطالب في أنساب آل أبى طالب تأليف: جمال الدين أحمد بن علي الحسيني المعروف بابن عنبة المتوفى سنة 828 هجرية الطبعة الثانية 1380هـ - 1960م عنى بتصحيحه محمد حسن آل الطالقاني منشورات المطبعة الحيدرية في النجف الاشرف، مادة ذرية جعفر الحجة.
  5. الجامع لصلة الأرحام في نسب السادة الكرام من الإمامين الحسن والحسين (مجلدات اربعة) إعداد: الشريف احمد وفقي بن محمد ياسين المحاسب بالجهاز المركزي للمحاسبات بمصر مراجعة وتحقيق: الدكتور عبد الفتاح أبو سنة عضو المجلس العلمى للشؤون الإسلامية،ج2،ص65
  6. بهجة الحضرتين تأليف محمد الصيادي تحقيق المجموعة: عارف أحمد عبد الغني نسابة بلاد الشام الشريف عبد الله بن حسين السادة (قطر - الدوحة) الناشر: دار كنان - دمشق / الدوحة ص.ب 8878
  7. ابن عنبة الحسني ، عمدة الطالب في انساب ابي طالب ، ص 303
  8. 2. ڈاکٹر قحطان عبد الستار الحديثي (استاد تاريخ خراسانِ اسلامي بغداد یونیورسٹی) ۔ "أبو الحسن علي بن أبي طالب البلخي والمسجد الازرق" ، جريدة الراصد البغدادية ، 1988
  9. مرات العارفین صفحہ 24 مصنف شمس العلماء سید محمد بن سید حسین بن سید ابراہیم شہید
  10. 2. ڈاکٹر قحطان عبد الستار الحديثي (استاد تاريخ خراسانِ اسلامي بغداد یونیورسٹی) ۔ "أبو الحسن علي بن أبي طالب البلخي والمسجد الازرق" ، جريدة الراصد البغدادية ، 1988
  11. 10. "الشيخ عبدالقادرالكيلاني رؤية تاريخية معاصرة" - ڈاکٹر جمال الدين فالح الكيلاني۔ ناشر: مؤسسة مصر مرتضى للكتاب ، بغداد - 2011 - صفحہ 211
  12. 2. ڈاکٹر قحطان عبد الستار الحديثي (استاد تاريخ خراسانِ اسلامي بغداد یونیورسٹی) ۔ "أبو الحسن علي بن أبي طالب البلخي والمسجد الازرق" ، جريدة الراصد البغدادية ، 1988
  13. 30. "مزار الشريف والضريح: جدلية الأسطورة والتاريخ: ملامح سيرة علي بن أبي طالب البلخي" ۔ ڈاکٹر جمال الدين الكيلاني، "الفكر الحر" میگزین، 2011
  14. 42. ڈاکٹر.بكر السامرائي ۔" علي بن ابي طالب الحسيني : هو صاحب الضريح في مزار شريف" 'مجلة الفكر الاسلامي ، بغداد ، 1988 ، صفحہ231.
  15. 10. "الشيخ عبدالقادرالكيلاني رؤية تاريخية معاصرة" - ڈاکٹر جمال الدين فالح الكيلاني۔ ناشر: مؤسسة مصر مرتضى للكتاب ، بغداد - 2011 - صفحہ 211
  16. 2. ڈاکٹر قحطان عبد الستار الحديثي (استاد تاريخ خراسانِ اسلامي بغداد یونیورسٹی) ۔ "أبو الحسن علي بن أبي طالب البلخي والمسجد الازرق" ، جريدة الراصد البغدادية ، 1988

مزید پڑھیے[ترمیم]