علی رضا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(علی بن موسی الرضا سے رجوع مکرر)


علی رضا
(عربی میں: أبو الحسن علي بن موسى الرضا ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش 12 اپریل 770ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 ستمبر 818ء (48 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طوس[1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات زہر  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مزار امام علی رضا  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل مامون الرشید  ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد محمد تقی[2]  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد موسی کاظم[2]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ نجمہ  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
مناصب
بارہ امام (8 )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
799  – 818 
موسی کاظم 
محمد تقی 
عملی زندگی
استاد موسی کاظم  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ امام  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

علی رضا، موسی کاظم کے فرزند اور اہلِ تشیع کے آٹھویں امام تھے۔

علی نام , رضا لقب او ر ابو الحسن کنیت، حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام والد بزرگوار تھے اور اس لیے آپ کوپورے نام ولقب کے ساتھ یاد کیا جائے تو امام الحسن علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام کہاجائے گا , والدہ گرامی کی کنیت ام البنین اور لقب طاہرہ تھا۔ نہایت عبادت گزار بی بی تھیں۔

ولادت

11ذی القعدہ 148ھ میں مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی۔ اس کے تقریباً ایک ماہ قبل 15 شوال کو آپ کے جدِ بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السّلام کی وفات ہو چکی تھی اتنے عظیم حادثہ مصیبت کے بعد جلد ہی اس مقدس مولود کے دنیا میں آجانے سے یقینًاگھرانے میں ایک سکون اور تسلی محسوس کی گئی۔

تربیت

آپ کی نشو و نما اور تربیت اپنے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے زیر سایہ ہوئی اور اس مقدس ماحول میں بچپنا اور جوانی کی متعدد منزلیں طے ہوئی اور پینتیس برس کی عمر پوری ہوئی۔ اگرچہ اخری چند سال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم عراق میں قید وظلم کی سختیاں برداشت کر رہے تھے مگر اس سے پہلے 82یا92برس آپ کو برابر پدرِ بزرگوار کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔

جانشینی

امام موسیٰ کاظم کو معلوم تھا کہ حکومت وقت آپ کو آزادی سے سانس لینے نہ دے گی اور ایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آپ کے اخری عمر کے حصے میں اور دنیا کو چھوڑنے کے موقع پر دوستانِ اہلبیت علیہ السّلام کا آپ سے ملنا یا بعد کے لیے رہنما کا دریافت کرنا غیر ممکن ہو جائے گا۔ اس لیے آپ نے انہی آزادی کے دنوں اور سکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروانِ اہلیبت علیہ السّلام کو اپنے بعد ہونے والے امام علیہ السّلام سے روشناس بنانے کی ضرورت محسوس فرمائی۔ چنانچہ اولاد علی علیہ السّلام وفاطمہ میں سے سترہ آدمی جو ممتاز حیثیت رکھتے تھے جمع فرما کر اپنے فرزند علی رضا علیہ السّلام کی وصایت وجانشینی کااعلان فرمایااور ایک وصیت نامہ تحریراً بھی مکمل فرمایا , جس پر مدینہ کے معزز ین میں سے ساٹھ ادمیوں کی گواہی لکھی گئی , یہ اہتمام دوسرے ائمہ کے یہاں نظر نہیں اتا۔ صرف ان خصوصی حالات کی بنائ پر جن سے دوسرے ائمہ اپنی وفات کے موقع پر دوچار نہیں ہونے والے تھے۔

دور امامت

حضرت امام علی رضا علیہ السّلام کی پینتیس برس کی عمر جب آپ کے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی وفات ہوئی اور امامت کی ذمہ داری آپ کی طرف منتقل ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب بغداد میں ہارون رشید تخت خلافت پر تھا اور بنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ناساز گار تھے۔ اس ناخوشگوار ماحول میں حضرت علیہ السّلام نے خاموشی کے ساتھ شریعت ُ حقہ کے خدمات انجام دینا شروع کر دیا۔

علمی کمال

آل محمد علیہ السّلام کے اس سلسلہ میں ہر فرد حضرت احادیث کی طرف سے بلند ترین علم کے درجہ پر قرار دیا گیا تھا جسے دوست اور دشمن سب کو ماننا پڑتا تھا , یہ اور بات ہے کہ کسی کو علمی فیوض پھیلانے کا زمانے نے کم موقع دیا اور کسی کو زیادہ , چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفر صادق علیہ السّلام کے بعد اگر کسی کو موقع حاصل ہوا ہے تو وہ امام رضا ہیں۔ جب آپ امامت کے منصب پر نہیں پہنچے تھے اس وقت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام اپنے تمام فرزندوں اور خاندان کے لوگوں کونصیحت فرماتے تھے کہ تمھارے بھائی علی رضا علیہ السّلام عالمِ الِ محمد ہیں۔ اپنے دینی مسائل کو ان سے دریافت کر لیا کرو اور جو کچھ وہ کہیں اسے یاد رکھو اور پھر حضرت موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اور روضئہ رسول پر تشریف فرما تھے تو علمائے اسلام مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ محمد ابن عیسیٰ القطینی کا بیان ہے کہ میں نے ان کے جوابات تحریر کیے تھے اکٹھے کیے تو اٹھارہ ہزار کی تعداد میں تھے۔

زندگی کے مختلف دور

حضرت امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم کے بعد دس برس ہارون کادور رہا۔ یقیناً وہ امام رضا علیہ السّلام کے وجود کو بھی دنیا میں اسی طرح پر برداشت نہیں کر سکتا تھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والد بزرگوار کو رہنا اس نے گورا نہیں کیا۔ مگر یا تو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدد اور ظلم ہوتا رہا اور جس کے نتیجہ میں قید خانہ ہی کے اندر آپ دنیا سے رخصت ہو گئے اس سے حکومت ُ وقت کی عام بدنامی ہو گئی تھی اور یا واقعی ظالم کو اپنی بد سلوکیوں کا احساس ہو ااور ضمیر کی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلا امام رضا علیہ السّلام کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی , یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ ایک دن یحییٰ ابن خالد برمکی نے اپنے کے بعداثرورسوخ کے بڑھانے کے لیے یہ کہا کہ علی علیہ السّلام ابن موسیٰ بھی اب اپنے باپ کے بعد امامت کے اسی طرح دعویدار ہیں تو ہارون نے جواب دیا کہ جو کچھ ہم نے ان کے باپ کے ساتھ کیا وہی کیا کم ہے جواب تم چاہتے ہو کہ میں اس نسل ہی کا خاتمہ کروں۔

پھر بھی ہارون رشید کااہل بیت رسول سے شدید اختلاف اور سادات کے ساتھ جو برتاؤ اب تک تھا اس کی بنا پر عام طور پر سے عمال حکومت یا عام افراد بھی جنھیں حکومت کو راضی رکھنے کی خواہش تھی اہل بیت علیہ السّلام کے ساتھ کوئی اچھا رویّہ رکھنے پر تیار نہیں ہو سکتے تھے اور نہ امام علیہ السّلام کے پاس آزادی کے ساتھ لوگ استفادہ کے لیے اسکتے تھے نہ حضرت علیہ السّلام کو سچے اسلامی احکام کی اشاعت کے مواقع حاصل تھے۔

ہارون کا اخری زمانہ اپنے دونوں بیٹوں امین اور مامون کی باہمی رقابتوں سے بہت بے لطفی میں گذرا۔ امین پہلی بیوی سے تھا جو خاندان شاہی سے منصور دوانقی کی پوتی تھی اور اس لیے عرب سردار سب اس کے طرفدار تھے اور مامون ایک عجمی کنیز کے پیٹ میں سے تھا۔ اس لیے درباد کاعجمی طبقہ اس سے محبت رکھتا تھا۔ دونوں کی اپس میں رسہ کشی ہارون کے لیے سوہانِ روح بنی رہتی تھی، اس نے اپنے خیال میں اس کا تصفیہ مملکت کی تقسیم کے ساتھ یوں کر دیا کہ دار السلطنت بغداد اور اس کے چاروں طرف کے عربی حصے جیسے شام ،مصرحجاز، یمن وغیرہ محمد امین کے نام کیے گئے اور مشرقی ممالک جیسے ایران , خراسان، ترکستان وغیرہ مامون کے لیے مقرر کیے گئے مگر یہ تصفیہ تو اس وقت کار گاہو سکتا تھا جب دونوں فریق "جیو اور جینے دو" کے اصول پر عمل کرتے ہوتے۔

لیکن جہاں اقتدار کی ہوس کار فرماہووہاں اگر بنی عباس کے ہاتھوں بنی فاطمہ کے خلاف ہر طرح کے ظلم وتعدی کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے تو خود بنی عباس میں ایک گھر کے اندر دو بھائی اگر ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں تو کیوں نہ ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کرنے کے لیے تیارنظر اتے۔ اور کیوں نہ ان طاقتوں میں باہم تصادم ہو جب ان میں سے کوئی اس ہمدردی اور ایثار اورخلقِ خدا کی خیر خواہی کا بھی حامل نہیں ہے جسے بنی فاطمہ علیہ السّلام اپنے پیش نظر کر اپنے واقعی حقوق سے چشم پوشی کر لیا کرتے تھے۔ اسی کانتیجہ تھا کہ ادھر ہارون کی انکھ بند ہوئی اور ادھر بھائیوں میں خانہ جنگی کے شعلے بھڑک اٹھے۔ اخر چار برس کی مسلسل کشمکش اور طویل خونریزی کے بعد مامون کو کامیابی ہوئی اور اس کا بھائی امین محرم 891ھ میں تلوار کے گھاٹ اتارا دیا گیا اور مامون کی خلافت تمام بنی عباس کے حدودسلطنت پر قائم ہو گئی۔

ولی عہدی

امین کے قتل ہونے کے بعد سلطنت تو مامون کے نام سے قائم ہو گئی مگر یہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ امین ننھیال کی طرف سے عربی النسل تھا اور مامون عجمی النسل۔ امین کے قتل ہونے سے عراق کی عرب قوم اور ارکان سلطنت کے دل مامون کی طرف سے صاف نہیں ہو سکتے تھے بلکہ غم وغصہ کی کیفیت محسوس کرتے تھے۔ دوسری طرف خود بنی عباس میں سے ایک بڑی جماعت جو امین کی طرف دار تھی اس سے بھی مامون کو ہر وقت خطرہ لگا ہوا تھا۔

اولاد فاطمہ میں سے بہت سے لوگ جو وقتاً فوقتاً بنی عباس کے مقابل میں کھڑے ہوتے رہتے تھے وہ خواہ قتل کردیے گئے ہوں یا جلاوطن کیے گئے ہوں یاقید رکھے گئے ہوں ان کے بھی موافق ایک جماعت تھی جو اگر حکومت کا کچھ بگاڑ نہ بھی سکتی تب بھی دل ہی دل میں حکومت بنی عباس سے بیزار ضرور تھی۔

ایران میں ابو مسلم خراسانی نے بنی امیہ کے خلاف جو اشتعال پید اکیا تھا وہ ان مظالم ہی کو یاد دلا کر جو بنی امیہ کے ہاتھوں حضرت امام حسین علیہ السّلام اور دوسرے بنی فاطمہ کے ساتھ ہوئے تھے۔ اس سے ایران میں اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کا پیدا ہونا فطری تھا , درمیان میں بنی عباس نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا مگر اتنی مدت میں کچھ نہ کچھ تو ایرانیوں کی انکھیں بھی کھلی ہی ہوں گی کہ ہم سے کیا کہا گیا تھا اور اقتدار کن لوگوں نے حاصل کر لیا۔ ممکن ہے کہ ایرانی قوم کے ان رجحانات کاچرچا مامون کے کانوں تک بھی پہنچا ہو۔ اب جس وقت کہ امین کے قتل کے بعد وہ عرب قوم پر اور بنی عباس کے خاندان پر بھروسا نہیں کر سکتا تھا اور اسے ہر وقت اس حلقہ سے بغاوت کااندیشہ تھا تو اسے سیاسی مصلحت اسی میں معلوم ہوئی کہ عرب کے خلاف عجم اور بنی عباس کے خلاف بنی فاطمہ کو اپنا بنایا جائے اور چونکہ طرزِعمل میں خلوص سمجھا نہیں جا سکتا اور وہ عالمِ طبائع پر اثر نہیں ڈال سکتا۔ اگر یہ نمایاں ہو جائے کہ وہ سیاسی مصلحتوں کی بنا پر ہے ا س لیے ضرورت ہوئی کہ مامون مذہبی حیثیت سے سے اپنی شیعیت اور ولائے اہل بیعت علیہ السّلام کے چرچے عوام کے حلقوں میں پھیلائے اور یہ دکھلائے کہ وہ انتہائی نیک نیتی سے اب "حق بحق دار رسید" کے مقولے کو سچا بنانا چاہتا ہے۔

اس سلسلے میں جیسا کہ جناب شیخ صدوق اعلٰی الله مقامہ، نے تحریرفرمایا ہے اس نے اپنی نذر کی حکایت بھی نشر کی کہ جب امین کااور میرا مقابلہ تھا اور بہت نازک حالت تھی اور عین اسی وقت میرے خلاف سیستان اور کرمان میں بھی بغاوت ہو گئی تھی اور خراسان میں بے چینی پھیلی ہوئی تھی اور میری مالی حالت بھی ابتر تھی اور فوج کی طرف سے بھی اطمینان نہ تھا تو اس سخت اور دشوار ماحول میں میں نے خدا سے التجا کی اور منّت مانی کہ اگر یہ سب جھگڑے ختم ہوجائیں اور میں خلافت تک پہنچوں تو اس کو اس کے اصلی حقدار یعنی اولادِ فاطمہ میں سے جو اس کااہل ہو اس تک پہنچادوں۔ اسی نذر کے بعد سے میرے سب کام بننے لگے اور اخر تمام دشمنوں پر مجھے فتح حاصل ہوئی۔ یقینایہ واقعہ مامون کی طرف سے اس لیے بیان کیا گیا کہ اس طرزِ عمل خلوص قلب اورحسن نیّت پر مبنی سمجھا جائے۔ یوں تو اہلیبت علیہ السّلام کے جو کھلے ہوئے سخت سے سخت دشمن تھے وہ بھی ان کی حقیقت اور فضیلت سے واقف تھے ہی اور ان کی عظمت کو جانتے تھے مگر شیعیت کے معنیٰ صرف یہ جاننا تو نہیں ہیں بلکہ محبت رکھنا اوراطاعت کرنا ہیں اور مامون کے طرزِ عمل سے یہ ظاہر ہے کہ وہ اس دعوائے شیعیت اور محبت اہلیبت علیہ السّلام کاڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود خود امام علیہ السّلام کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ عوام کو اپنی منشائ کے مطابق چلانے کی کوشش کی تھی۔ ولی عہد بننے کے بارے میں آپ کے اختیارات کو بالکل سلب کر دیا گیا اور آپ کو مجبور بنا دیا گیا تھا۔ اس سے ظاہ رہے کہ ولی عہدی کی تفویض بھی ایک حاکمانہ تشدد تھا جو اس وقت شیعیت کے بھیس میں امام علیہ السّلام کے ساتھ کیا جا رہا تھا۔

امام علیہ السلام کا اس ولی عہدی کوقبول کرنا بالکل ایسا ہی تا جیسا ہارون کے حکم سے امام موسیٰ کاظم کا جیل خانہ چلے جانا،اسی لیے جب امام رضا علیہ السّلاممدینہ منورہ سے خراسان کی طرف روانہ ہو رہے تھے تو آپ کے رنج وصدمہ اور اضطراب کی کوئی حد نہ تھی روضئہ رسول سے رخصت کے وقت آپ کا وہی عالم تھا جوحضرت امام حسین علیہ السّلام کا مدینہ سے روانگی کے موقع پر تھا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ بیتابانہ روضئہ کے اندر جاتے تھے اور نالہ واہ کے ساتھ امت کی شکایت کرتے ہیں۔ پھر باہر اتے نکل کر گھر جانے کا ارادہ کرتے ہیں او پھر دل نہیں مانتا , پھر روضہ سے جاکر لپٹ جاتے ہیں۔ یہی صورت کئی مرتبہ ہوئی۔ راوی کابیان ہے کہ میں حضرت علیہ السّلام کے قریب گیا تو فرمایا اے محول میں اپنے جدِامجد کے روضہ سے بہ جبر جُدا کیا جا رہا ہوں۔ اب مجھ کو یہاں واپس انا نصیب نہ ہوگا۔ 002ھ میں حضرت علیہ السّلام مدینہ منورہ سے خراسان کی طرف روان ہوئے , اہل و عیال اور متعلقین سب مدینہ ہی چھوڑ گئے۔ اس وقت امام محمد تقی علیہ السّلام کی عمر پانچ برس کی تھی۔ آپ بھی مدینہ میں ہی رہے۔ جب حضرت علیہ السّلام مرو پہنچے جو اس وقت دار السلطنت تھاتو مامون نے چند روز ضیافت وتکریم کے مراسم ادا کرنے کے بعد قبول خلافت کاسوال پیش کیا۔ حضرت علیہ السّلام نے اس سے اسی طرح انکار کیا جس طرح امیر المومنین علیہ السّلام چوتھے موقع پر خلافت پیش کیے جانے کے وقت انکار فرما رہے تھے , مامون کو خلافت سے دست بردار ہونا درحیقیقت منظور نہ تھا رونہ وہ امام علیہ السّلام کو اسی مجبور کرتا۔ چنانچہ جب حضرت علیہ السّلام نے خلافت قبول کرنے سے انکار فرمایا تو اس نے ولی عہدی کا سوال پیش کیا۔ حضرت علیہ السّلام اس کے بھی انجام سے واقف تھے۔ نیز بخوشی جابر حکومت کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا آپ کے مذہبی اصول کے خلاف تھا۔ حضرت علیہ السّلام نے اس سے بھی انکار فرمایا مگر اس پر مامون کااصرار جبر کی حد تک پہنچ گیا اور اس نے صاف کہہ دیا کہ اگر آپ اس کو منظور نہیں کرسکتے تو آپ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ جان کا خطرہ قبول کیا جا سکتا ہے۔ جب مذہبی مفاد کا قیام جان دینے پر موقوف ہو ورنہ حفاظت ُ جان شریعت اسلام کا بنیادی حکم ہے۔ امام علیہ السّلام نے فرمایا یہ ہے تو مجبوراً قبول کرتا ہوں مگر کاروبار سلطنت میں میں خود دخل نہ دوں گا۔ اس کے بعد یہ ولی عہدی صرف برائے نام سلطنت وقت کے ایک ڈھکوسلے سے زیادہ کوئی وقعت نہ رکھتی تھی۔ جس سے ممکن ہے کچھ عرصہ تک کسی سیاسی مقصد میں کامیابی حاصل ہو گئی ہو۔ مگر امام علیہ السّلام کی حیثیت اپنے فرائض کے انجام دینے میں بالکل وہ تھی جو ان کے پیش روحضرت علی مرتضی علیہ السّلام اپنے زمانہ کی بااقتدار طاقتوں کے ساتھ اختیار کرچکے تھے جس طرح ان کا کبھی کبھی مشورہ دے دینا ان حکومتوں کو صحیح اور ناجائز نہیں بنا سکتا تھا ویسے ہی امام رضا علیہ السّلام کا اس نوعیت سے ولی عہدی کاقبول فرمانا اس سلطنت کے جواز کا باعث نہیں ہو سکتا تھا ,.صرف مامون کیا ایک راج ہٹ تھی جو اس طرح پوری ہو گئی مگر امام علیہ السّلام نے اپنے دامن کو سلطنت ظلم کے اقدامات اور نظم ونسق سے بالکل الگ رکھا۔

بنی عباس مامون کے اس فیصلے سے قطعاً متفق نہ تھے انھوں نے بہت کچھ دراندازیاں کیں مگر مامون نے صاف کہہ دیا کہ علی رضا علیہ السّلام سے بہتر کوئی دوسرا شخص تم بتادو اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس سلسلے میں بڑے بڑے مناظرے بھی ہوئے مگر ظاہر ہے کہ امام علیہ السّلام کے مقابلہ میں کس کی علمی فوقیت ثابت ہو سکتی تھی , مامون کافیصلہ اٹل تھا اور وہ اس سے ہٹنے کے لیے تیار نہ تھا کہ وہ اپنے فیصلہ کو بدل دیتا۔

یکم رمضان 102ھئ روزپنجشنبہ جلسئہ ولی عہدی منعقد ہوا۔ بڑی شان وشوکت اور تزک واحتشام کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی۔ سب سے پہلے مامون نے اپنے بیٹے عباس کو اشارہ کیا اور اس نے بیعت کی۔ پھر اور لوگ بیعت سے شرفیاب ہوئے سونے چاندی کے سکے سرمبارک پر نثار کیے گئے اور تمام ارکانِ سلطنت وملازمین کو انعامات تقسیم ہوئے , مامون نے حکم دیا کہ حضرت علیہ السّلام کے نام کا سکّہ تیار کیا جائے , چنانچہ درہم و دینار پر حضرت علیہ السّلام کے نام کا نقش ہوا اور تمام قلمرومیں وہ سکّہ چلایا گیا , جمعہ کے خطبہ میں حضرت علیہ السّلام کانام داخل کیا گیا۔

اخلاق و اوصاف

مجبوری اور بے بسی کانام قناعت یا درویشی "عصمت بی بی از بے چادری" کے مقولہ کے موافق اکثر ابنائے دنیا کا شعار رہتا ہے مگر ثروت واقتدار کے ساتھ فقیرانہ زندگی اختیار کرنابلند مرتبہ مردانِ خدا کاحصہ ہے۔ اہل بیت معصومین علیہ السّلام میں سے جو بزرگوار ظاہری حیثیت سے اقتدار کے درجہ پر نہ تھے کیوں کہ ان کی فقیری کو دشمن بے بسی پر محمول کرکے طعن وتشنیع پر امادہ ہوتے اور حقانیت کے وقار کو ٹھیس لگتی مگر جو بزرگ اتفاقات روزگار سے ظاہری اقتدار کے درجہ پر پہنچ گئے۔ انھوں نے اتنا ہی فقرا اور سادگی کے مظاہرہ میں اضافہ کر دیا تاکہ ان کی زندگی غریب مسلمانوں کی تسلی کاذریعہ بنے اور ان کے لیے نمونہ عمل ہو جیسے امیر المومنین حضرت علی المرتضی علیہ السّلام چونکہ شہنشاہ ُ اسلام مانے جا رہے تھے ا س لیے آپ کالباس اور طعام ویسا زاہدانہ تھا جس کی مثال دوسرے معصومین علیہ السّلام کے یہاں نہیں ملتی۔ یہی صورت حضرت علی رضا علیہ السّلام کی تھی، آپ مسلمانوں کی اس عظیم الشان سلطنت کے ولی عہد بنائے گئے تھے جن کی وسعت ُ مملکت کے سامنے روم وفارس کاذکر بھی طاقِ نسیان کی نذر ہو گیا تھا۔ جہاں اگر بادل سامنے سے گزرتا تھا تو خلیفہ کی زبان سے اواز بلند ہوتی تھی کہ "جا جہاں تجھے برسنا ہو برس , بہتر حال تیری پیداواری کااخراج میرے پاس ہی ائے گا۔"

حضرت امام رضا علیہ السّلام کا اس سلطنت کی ولی عہدی پر فائز ہونا دنیا کے سامنے ایک نمونہ تھا کہ دین والے اگر دنیا کو پاجائیں تو ان کارویہ کیا ہوگا۔ یہاں امام رضا علیہ السّلام کو اپنی دینی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ضرورت تھی کہ زہد اور ترک ُ دنیا کے مظاہرے اتنے ہی نمایاں تربنادیں جتنے تزک و احتشام کے دینی تقاضے زیادہ ہیں چنانچہ تاریخ نے اپنے کو دہرایا اور وہ علی رضا علیہ السّلام کے لباس میں علی المرتضی علیہ السّلام کی سیرت دنیا کی نگاہوں کے سامنے اگئی۔ آپ نے اپنی دولت سرا میں قیمتی قالین بچھوانا پسند نہیں کیے بلکہ جاڑے میں بالوں کا کمبل اور گرمی میں چٹائی کا فرش ہوا کرتا تھا , کھانا سامنے لایا جاتا تو دربان سائیس اور تمام غلاموں کو بلا کر اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرماتے تھے۔ داب واداب ُ شاہی کے خوگر ایک بلخی شخص نے ایک دن کہہ دیا کہ حضور اگر ان لوگوں کے کھانے کا انتظام الگ ہوجایا کرے تو کیا حرج ہے? حضرت علیہ السّلام نے فرمایا خالق سب کاالله ہے۔ ماں سب کی حواّ اور باپ سب کے ادم علیہ السّلام ہیں۔ جزاوسزا ہر ایک کی اس کے عمل کے مطابق ہوگی , پھر دُنیا میں تفرقہ کس لیے ہو۔

اسی عباسی سلطنت کے ماحول کا ایک جزوبن کرجہاں صرف پیغمبر کی طرف ایک قرابتداری کی نسبت کے سبب اپنے کو خلق ُ خدا پر حکمرانی کاحقدار بنایا جاتا تھا اور اس کے ساتھ کبھی اپنے اعمال وافعال پر نظر نہ کی جاتی تھی کہ ہم کیسے ہیں اور ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ یہ کہاجانے لگاکہ بنی عباس ظلم وستم اور فسق وفجور میں بنی امیہ سے کم نہ رہے بلکہ بعض باتوں میں ان سے آگے بڑھ گئے اور اس کے ساتھ پھر بھی قرابتِ رسول پر افتخار تھا اس ماحول کے اندر داخل ہو کرامام رضا علیہ السّلام کا اس بات پر بڑا زور دینا کہ قرابت کوئی چیز نہیں اصل انسان کا عمل ہے بظاہر صرف ایک شخص کا اظہار فروتنی اور انکسار نفس تھا جو بہرحال ایک اچھی صفت ہے لیکن حقیقت میں وہ اس سے بڑھ کر تقریباً ایک صدی کی عباسی سلطنت کی پیدا کی ہوئی ذہنیت کے خلاف اسلامی نظریہ کااعلان تھااور اس حیثیت سے بڑا اہم ہو گیا تھا کہ وہ اب اسی سلطنت کے ایک رکن کی طرف سے ہو رہا تھا۔ چنانچہ امام رضا علیہ السّلامکی سیرت میں اس کے مختلف شواہد ہیں , ایک شخص نے حضرت علیہ السّلام کی خدمت میں عرض کی کہ »خدا کی قسم اباؤاجداد کے اعتبار سے کوئی شخص آپ سے افضل نہیں۔ حضرت علیہ السّلام نے فرمایا۔ ,, میرے اباواجداد کو جو شرف حاصل ہوا ہے وہ صرف تقویٰ , پ رہی ز گاری اوراطاعتِ خداسے۔,, ایک شخص نے کسی دن کہا کہ، " والله آپ بہترین خلق ہیں۔" حضرت علیہ السّلام نے فرمایا، "اے شخص حلف نہ اٹھا، جس کاتقویٰ وپ رہی ز گاری مجھ سے زیادہ ہو وہ مجھ سے افضل ہے۔"

ابراہیم بن عباس کابیان ہے کہ حضرت علیہ السّلام فرماتے تھے، "میرے تمام لونڈی اور غلام ازاد ہوجائیں اگر اس کے سوا کچھ اور ہو کہ میں اپنے کو محض رسول الله کی قرابت کی وجہ سے اس سیاہ رنگ غلام سے بھی افصل نہیں جانتا (حضرت علیہ السّلام نے اشارہ کیا اپنے ایک غلام کی جانب) ہاں جب عملِ خیر بجا لاؤں گا تو الله کے نزدیک اس سے افضل ہوں گا۔"

یہ باتیں کو تاہ نظر لوگ صرف ذاتی انکسار پر محمول کرلیتے ہوں مگر خود حکومت عباسیہ کا فرماں روایقیناً اتنا کند ذہن نہ ہوگا کہ وہ ان تازیانوں کو محسوس نہ کرے جو امام رضا علیہ السّلام کے خاموش افعال اور ا س طرح کے اقوال سے اس کے خاندانی نظامِ سلطنت پر برابر لگ رہے تھے۔ اس نے تو بخیال خود ایک وقتی سیاسی مصلحت سے اپنی سلطنت کو مستحکم بنانے کے لیے حضرت علیہ السّلام کو ولی عہد بنایا تھا مگر بہت جلد اسے محسوس ہوا کہ اگران کی زندگی زیادہ عرصہ تک قائم رہی تو عوام کی ذہنیت میں یک لخت انقلاب ہو جائے گا اور عباسی سلطنت کاتخت ہمیشہ کے لیے الٹ جائے گا۔

عزائے حسین علیہ السلام کی اشاعت

اب امام رضا علیہ السّلام کو تبلیغ حق کے لیے نام حسین علیہ السّلام کی اشاعت کے کام کو ترقی دینے کا بھی پورا موقع حاصل ہو گیا تھا جس کی بنیاد اس کے پہلے حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام اور امام جعفر صادق علیہ السّلام قائم کرچکے تھے مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ امام علیہ السّلام کی خدمت میں وہی لوگ حاضر ہوتے تھے جو بحیثیت امام اور بحیثیت عالم دین آپ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے اور اب امام رضا علیہ السّلام تو امام روحانی بھی ہیں اور ولی عہد ُ سلطنت بھی۔ اس لیے آپ کے دربار میں حاضر ہونے والوں کا دائرہ وسیع ہے۔ مرو ##کامقام ہے جو ایران کے تقریباً وسط میں واقع ہے۔ ہر طرف کے لوگ یہاں اتے ہیں اور یہاں یہ عالم ہے کہ ادھر محرم کا چاند نکلا اور انکھوں سے انسو جاری ہو گئے۔ دوسروں کو بھی ترغیب وتحریص کی جانے لگی کہ الِ محمد کے مصائب کو یاد کرو اور تاثرات غم کو ظاہر کرو۔ یہ بھی ارشاد ہونے لگا کہ جو اس مجلس میں بیٹھے جہاں ہماری باتیں زندہ کی جاتی ہیں اس کا دل مردہ نہ ہوگا۔ اس دن کہ جب سب کے دل مردہ ہوں گے۔ تذکرہ امام حسین علیہ السّلام کے لیے جو مجمع ہو اس کانام اصطلاحی طو ر پر مجلس# اسی امام رضا علیہ السّلام کی حدیث ہی سے ماخوذ ہے۔ آپ نے علمی طور پر خود مجلسیں کرنا شروع کر دیں , جن میں کبھی خود ذاکر ہوئے اور دوسرے سامعین جیسے یان بن شیب کی حاضری کے موقع پر جو آپ نے مصائب امام حسین علیہ السّلام بیان فرمائے اور کبھی عبد الله بن ثابت یادعبل خزاعی ایسے کسی شاعر کی حاضری کے موقع پر اس شاعر کو حکم ہوا کہ تم ذکر امام حسین علیہ السلام میں اشعار پڑھو وہ ذاکر ہوا اور حضرت سامعین میں داخل ہوئے۔

دعبل# کو حضرت نے بعدمجلس ایک قیمتی حلّہ بھی مرحمت فرمایا جس کے لینے میں دعبل# نے یہ کہہ کرعذر کیاکہ مجھے قیمتی حلّہ کی ضرورت نہیں ہے اپنے جسم کااترا ہوا لباس مرحمت فرمائے تو حضرت نے ان کی خوشی پوری کی وہ حلّہ تو انھیں دیا ہی تھا اس کے علاوہ ایک جبّہ اپنے پہننے کا بھی مرحمت فرمایا۔

اس سے ذاکر کابلند طریقہ کار کہ اسے کسی دنیوی انعام کی حاضر یامعاذ الله اجرت طے کرکے ذاکری نہیں کرنا چاہیے اور بانی مجلس کاطریقہ کار کہ وہ بغیر طے کیے ہوئے کچھ بطور پیشکش ذاکر کی خدمت میں پیش کرے دونوں امرثابت ہیں مگر ان مجالس میں سامعین کے اندر کسی حصہ کی تقسیم ہر گز کسی معتبر کتاب سے ثابت نہیں ہوئی۔

وفات

مامون کی توقعات غلط ثابت ہونے ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ اخر امام علیہ السّلام کی جان لینے کے درپے ہو گیا اور وہی خاموش حربہ جوان معصومین علیہ السّلام کے ساتھ اس کے پہلے بہت دفعہ استعمال کیا جاچکا تھا کام میں لایا گیا۔ انگور میں جو بطور تحفہ امام علیہ السّلام کے سامنے پیش کیے گئے تھے زہر دیا گیا اوراس کے اثر سے 17 صفر 302ھ میں حضرت علیہ السّلام نے شہادت پائی۔ مامون نے بظاہر بہت رنج وماتم کااظہار کیا اور بڑے شان وشکوہ کے ساتھ اپنے باپ ہارون رشید کے قریب دفن کیا۔ جہاں مشہد مقدس میں حضرت علیہ السّلام کا روضہ اج تاجدارانِ عالم کی جبیں سائی کا مرکز بناہوا ہے وہیں اپنے وقت کابزرگ ترین دنیوی شہنشاہ ہارون رشید بھی دفن ہے جس کا نام و نشان تک وہاں جانے والوں کو معلوم نہیں ہوتا۔

اولاد

امام کی تعداد اولاد میں شدید اختلاف ہے۔ علامہ مجلسی نے بحا را لا نوار جلد 12 صفحہ 26 میں کئی اقوال نقل کرنے کے بعد بحوالہ قرب الاسناد تحریر فرمایا ہے کہ آپ کے دو فرزند تھے۔ ایک امام محمد تقی دوسرے موسیٰ۔ انوار نعمانیہ 127 میں ہے کہ آپ کے تین اولادتھی۔ انوار الحسینیہ جلد 3 ص52 میں ہے کہ آپ کے تین اولاد تھی۔ مگر نسل صرف امام محمد تقی سے جاری ہوئی۔ صواعق محرقہ 123 میں ہے کہ آپ کے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ نو ار الابصار 145 میں ہے کہ آپ پانچ لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ جن کے نا م یہ ہیں۔ امام محمد تقی۔ حسن جعفر۔ ابراہیم۔ حسین۔ عائشہ۔ روضتہ الشہداء 238 میں ہے کہ آپ کے پانچ لڑکے تھے جن کے نا م یہ ہیں۔ امام محمد تقی۔ حسن جعفر۔ ابراہیم۔ حسین۔ عقب اواز بزرگوارش محمدتقی است۔ مگر آپ کی نسل صرف امام محمد تقی سے بڑھی ہے۔ یہی کچھ رحمۃ للعالمین جلد 2ص 145 میں ہے۔ جنات الخلود 32 میں ہے کہ آپ کے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ روضتہ الا حباب جمال الدین میں ہے کہ آپ کے پانچ لڑکے تھے۔ کشف الغمہ 110 میں ہے کہ آپ کے چھ اولاد تھی 5 لڑکے ایک لڑکی یہی مطالب السول میں ہے۔ کنز الانساب 96 میں ہے کہ آپ کے آٹھ لڑکے تھے جن کے نام یہ ہیں امام محمد تقی، ہادی، علی نقی، حسین، یعقوب، ابراہیم، فضل، جعفر۔

لیکن امام المحدثین تاج المحققین حضرت علامہ محمد بن محمد نعمان بغدادی المتوفی 413ء ہجری المقلب یہ شیخ مفید علیہ ا لرحمتہ۔ کتاب ارشاد 271۔345 میں اور تاج المفسرین، امین الدین حضرت ابو علی فضل بن حسن بن فضل طبرسی المشہدی صاحب مجمع البیان المتوفی 548ء ء کتاب اعلام الوری، 199 میں تحریر فرماتے ہیں۔ کان للرضامن الولد ابنہ ابر جعفر محمد بن علی الجواد لا غیر۔ حضرت امام محمد تقی کے علاوہ امام علی رضا علیہ السلا م کے کوئی اور اولاد نہ تھی یہی کچھ کتاب عمدة الطالب صفحہ186 میں ہے۔

نگار خانہ

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. http://al-qanaa.blogspot.com/2007/12/mashhads-haram.html
  2. ^ ا ب عنوان : Мухаммад ибн Али
  • فضل اللہ، محمدجواد، تحلیلی از زندگانی امام رضا (ع)، ترجمہ محمدصادق عارف، مشہد: آستان قدس رضوی، بنیاد پژوہشہای اسلامی، 1377.
  • حسینی، جعفر مرتضی، زندگی سیاسی ہشتمین امام، ترجمہ سید خلیل خلیلیان، تہران: دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1381.
  • جعفریان، رسول، اطلس شیعہ، تہران: سازمان جغرافیایی نیروہای مسلح، 1387.
  • جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ (علیہم السلام)، قم: انصاریان، 1381.
  • جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم: انصاریان، 1376.
  • دخیل، 1429ہجری۔،آئمتنا: سیرة الائمہ الاثنی عشر، الجزء الثانی ص 76-77.
  • مفید، 1428، ص447.
  • مفید، 1428، ص 447.
  • صدوق، ج 1، 1373، ص 26.
  • صدوق، ج1، 1373، ص 27.
  • صدوق، ج1، 1373، ص 30-31۔
  • دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ ج8، ص 12109، مدخل: "رضا"۔
  • جعفریان، 1381، ص 425.
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعۃ، ج 2، بیروت: دارالتعارف للمطبوعات، 1418ق-1998م۔، ص 545۔
  • طبری،دلائل الامامہ،359۔
  • کلینی، الکافی، ج 6، ص 474۔
  • محمد جواد فضل اللہ، تحلیل از زندگی امام رضا ، 1377، ص 43.
  • کلینی، 1363ش، ص 486.
  • عاملی، 1430ه.ق،الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضا (ع): دراسۃ و تحلیل ص 168.
  • فضل اللہ،ایضا 1377، ص 43.
  • کلینی، الکافی ج 1، 1363، ص 486۔
  • عاملی، 1430ہجری، ص 169۔
  • طبرسی، إعلام الورى بأعلام،ط مؤسسہ ال البيت لإحياء التراث۔ - قم 1417،ج2 ص 41.
  • قرشی، ج 2، صص 503-504.
  • طبرسی، 1417 ص 91.
  • کلینی، الکافی، مصحح محمد آخوندی، بی تا، ج 1، ص 492۔
  • طبری، محمد بن جریر، التاریخ، ج 7، ط بیروت: مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، بی تا، ص 149 (مکتبۃ اہل البیت ای۔ لائبریری۔ نسخہ نمبر2)
  • قرشی، ج 2، 1429ه، ص 408.
  • مرآة الجنان، عبد اللّه بن اسعد يافعي، ج 2، 1417، ص 10۔
  • تاريخ الخلفاء سیوطی، ص 307۔
  • فضل اللہ، محمدجواد، ایضا، ص 44.
  • سبط بن الجوزی، تذکرۃالخواص، ص 123.
  • جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ (علیہم السلام)، ط 1381، ص 426.
  • مفید، الارشاد مؤسسہ ال البيت (ع) لتحقيق التراث دار المفيد 1413، ج2، ص 271.
  • فضل الله،ایضا ط 1377، ص 44.
  • قمی، 1379، ص 1725-1726.
  • طبرسی، اعلام الوری ج2، 1417ہجری۔، صص 41-42.
  • مفید، الارشاد، ص 448.
  • مفید، الارشاد ص 448.
  • مفید، ص 448۔ اس موضوع پر دوسری حدیثیں دیکھنے کے لیے:ارشاد شیخ مفید صص 448-451.
  • مفید، الاختصاص، ص211۔
  • صافی، شیخ لطف اللہ، منتخب الاثر باب ہشتم ص97۔

↑ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181۔

  • عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص285۔
  • بحارالأنوار ج23 ص290۔
  • اثبات الہداة ج3، ص123۔
  • مناقب ابن شہر آشوب، ج1، ص283۔
  • مجلسی، بحارالأنوار ج36 ص337۔
  • علی بن محمد خزاز قمى، كفاية الأثر في النص على الأئمة الإثنی عشر، ص157۔
  • سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، ج2، ص387 – 392، باب 76۔
  • جعفریان، 1381، ص 427
  • پایگاه حوزه ،فہرست موضوعی مقالات :: علم حدیث :: سیر تاریخی حدیث :: مکتب ہای حدیثی شیعہ در سده ہای اولیہ۔
  • اصحاب امام کاظم و رضا علیہماالسلام جیسے ہشام بن حکم و ہشام بن سالم و ابوجعفر مؤمن طالق و ... مناظرے اور کلامی ابحاث میں مشغول رہتے ر۔ ک۔: کشی، ایضا، ص 281 و 271 و 275 و 185.
  • نجاشی، ایضا، ص 27، حسن بن محمد بن سہل نوفلی کا ذیل، نجاشی اس کے متعلق کہتے ہیں:ضعیف ہے (لیکن)اس کی کتاب کثیر الفوائد پر مشتمل ہے۔ امام رضا ؑ کے مختلف ادیان کے ساتھ مذاکروں کو اس میں جمع کیا ہے ...» و نیز دکتر سید جواد مصطفوی کا مقالہ: «تجلّی علوم اہل بیت در مناظرات امام رضا علیه السلام » جو امام رضا ؑ کنگرے میں چھپ چکا ہے *طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، منشورات رضی (افست)، 1380 ق، ص 342 397 / فضلی، ایضا، ص 6 205 / بہبودی، محمدباقر، معرفۃ الحدیث، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، 1362 ش، ص 53.
  • عادل ادیب، زندگی تحلیلی پیشوایان ما، ترجمہ دکتر اسدالله مبشری، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1365 ش، ص 206 / ہاشم معروف حسنی، سیرة الائمۃ الاثنی عشر، ط 6، بیروت، دارالتعارف، 1411 ق، ج 2، ص 31 (نقل از مجید معارف پژوہشی در تاریخ حدیث شیعہ، ص 332)
  • شیخ مفید، الارشاد، ص 298.
  • امین، سید محسن، ایضا، ج 1، ص 101.
  • فضل بن حسن طبرسی، اعلام الوری، تحقیق مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، قم، 1417 ق، ج 2، ص 64 / مجلسی، بحارالانوار، ج 49، ص 100، ح 17.
  • بہبودی، محمد باقر، مقالہ «علم رجال و مسألہ توثیق»، کیہان فرہنگی، سال ہشتم شماره 8 (نقل از مجید معارف، «پژوہشی در تاریخ حدیث شیعہ»، تہران، مؤسسہ فرہنگی ہنری ضریح، 1374 ش، ص 331).
  • نجاشی، ایضا، ص 311.
  • صدوق، عیون اخبار الرضا، ج2، ص473؛ مسعودي، اثبات الوصيہ، ص391۔
  • جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ(ع) 1381، ص 426.
  • یعقوبی، التاریخ ج 2، 1378، ص 465.
  • مطہری، مجموعہ آثار، ج 18، 1381، ص 124.
  • جعفریان، 1387، ص 95.
  • ابن حبان، الثقات، ج 8، ہند: مطبعۃ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیۃ بحیدرآباد، 1402ہجری۔
  • سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفاء، بتحقیق محمد محیی الدین عبد الحمید، بیتا، بیجا۔
  • عاملی، السید جعفر مرتضی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضا (ع): دراسۃ و تحلیل، بیروت: المرکز الاسلامی للدراسات، 1430ہجری۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم: سعید بن جبیر، 1428 ق۔
  • دائرۃ المعارف تشیع، ج 1،تہران: بنیاد اسلامی، 1366.
  • دخیل، علی محمد علی، ائمتنا: سیرۃ الائمۃ الاثنی عشر، الجزء الثانی، قم: مؤسسۃ دار الکتاب الاسلامی، 1429ہ/2008م۔
  • عسقلانی، ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج 7، بیروت: دار صادر۔
  • صدوق، عیون اخبار الرضا (ع)، ترجمہ علی اکبر غفاری، 2 جلد، تہران: نشر صدوق، 1373.
  • طبرسی، الفضل بن الحسن، اعلام الوری باعلام الہدی، الجزء الثانی، قم: مؤسسہ آل البیت لاحیاء التراث، 1417 ہجری۔
  • طبرسی، ابی منصور احمد بن علی بن ابی طالب، الاحتجاج، تعلیقات و ملاحظات: السیدمحمدباقر الموسوی الخرسان، ج 2، مشہد: سعید، 1403ہجری۔
  • جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص من الامۃ فی ذکر خصائص الائمۃ، قم، منشورات الشریف الرضی، بی تا۔
  • دہخدا، علی اکبر، لغت‌نامہ دہخدا، ج 8، چاپ دوم از دورہ جدید، تہران: دانشگاہ تہران، 1377.
  • قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام علی بن موسی الرضا: دراسۃ و تحلیل، الجزء الثانی، الناشر: مہر دلدار، 1429ہجری۔/2008م۔
  • عرفان منش، جلیل، جغرافیای تاریخی ہجرت امام رضا از مدینہ تا مرو، مشہد: آستان قدس رضوی، بنیاد پژوہشہای اسلامی، 1374.
  • عطاردی، مسند الامام الرضا، الجزء الاول، بیروت: دار الصفوۃ، 1413ہ۔، 1993م۔
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال، تحقیق: ناصر باقری بیدہندی، قم: دلیل، 1379.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج 1، تصحیح و تعلییق: علی اکبر غفاری، چاپ پنجم، 1363ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، مصحح محمد آخوندی، علی اکبر غفاری، تہران: دار الکتب الاسلامیہ، بی تا، ج 1.
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج 18، تہران: قم: صدرا، 1381.
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی ج 2، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران: علمی و فرہنگی، 1378.
  • یافعی، عبد اللہ بن اسعد، مرآۃ الجنان و عبرۃ الیقضان فی معرفۃ ما یعتبر من حوادث الزمان، ج 2، بیروت: دار الکتب العلمیۃ، 1417ہجری۔

مفید، الارشاد، ص 455۔

  • محمد جواد فضل الله، تحلیل از زندگی امام رضا ، 1377، ص 133.
  • جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، 1381، ص 442۔
  • طبرسی، الاحتجاج