علی یاسر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
علی یاسر
معلومات شخصیت
پیدائش 13 دسمبر 1976ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گوجرانوالہ ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 17 فروری 2020ء (44 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اسلام آباد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ پنجاب
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد پی ایچ ڈی   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈاکٹری مشیر ارشد محمود ناشاد   ویکی ڈیٹا پر (P184) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  محقق ،  مترجم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ڈاکٹر علی یاسر (پیدائش:13 دسمبر 1976ء ۔ وفات: 17 فروری 2020ء) اردو زبان کے پاکستانی شاعر، نقاد، محقق اور مترجم تھے۔[1]

حالات زندگی[ترمیم]

علی یاسر 13 دسمبر 1976ء کو گوجرانوالہ، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حبیب حیدر تھا۔ انھوں عمر کے ابتدائی سولہ سال گوجرانوالہ میں ہی گذرے اور وہ 1994 میں اسلام آباد آ گئے۔ علی یاسر نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے (اردو) کی ڈگری حاصل کی اور پھر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے اردو ادب میں ایم فل اور پھر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ علی یاسر نے 1990 میں شاعری کا آغاز کیا اور ابتدا میں اپنے دادا امیر علی ساتھی سے اصلاح لی۔ ان کی تعلیمی سرگرمیاں بھی اردو کے حوالوں سے جاری رہیں اور یوں ان کا ادبی ذوق اور مہارت بڑھتی رہی۔ انھوں نے ادبی حلقوں میں اپنی مضبوط پہچان اور جدا رنگ قائم کیا۔ علی یاسر نے ادب کی سرپرستی کے لیے قائم حکومتی ادارے اکادمی ادبیات میں ملازمت اختیار کی اور یوں نہ صرف ملک بھر کے ادبی حلقوں سے وابستہ ہو گئے بلکہ شعر و ادب کی خدمت کا بیڑا بھی اٹھایا۔ وہ اکادمی ادبیات میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر مامور رہے۔[2]

شاعری میں اپنی پہچان رکھنے والے علی یاسر میڈیا سے بھی وابستہ رہے اور ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام میں شریک بھی ہوتے اور میزبانی بھی کرتے رہے۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن، ریڈیو پاکستان اور علامہ اقبال یونیورسٹی ایف ایم ریڈیو پر کئی پروگرامز کے میزبان رہے۔ انھوں نے پی ٹی وی کے لیے بہت سی دستاویزی فلمیں، سکرپٹس اور نغمے لکھے۔ بطور مترجم انھوں نے انگریزی اور پنجابی سے اردو میں تراجم کیے جن میں “چین کی محبت کی نظمیں” اور “نوبل لیکچر” وغیرہ شامل ہیں۔ علی یاسر علامہ اقبال یونیورسٹی سے جُز وقتی استاد کے طور پر بھی وابستہ تھے۔

علی یاسر تواتر سے مشاعروں میں شریک ہوتے تھے اور مشاعروں کی نظامت بھی کرتے تھے۔ وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں ادبی محافل اور مشاعروں میں شرکت کے علاوہ دبئی، ابو ظہبی اور نئی دہلی میں مشاعروں میں بھی شریک ہو ئے۔ “ارادہ” کے نام سے علی یاسر کی غزلوں کا مجموعہ 2007 میں منظر عام پر آیا جبکہ 2016 میں ان کی غزلوں کا دوسرا مجموعہ “غزل بتائے گی” کے عنوان سے شائع ہوا۔[3] علی یاسر نے 2008 اور 2010 میں اہلِ قلم ڈائری کو مرتب کیا۔ “کلیاتِ منظور عارف” اور “اردو غزل میں تصورِ فنا و بقا” کے عنوانات سے کتابیں زیرِ طبع ہیں۔ وہ اپنی نعتیں اور نیا مجموعہء غزل بھی مرتب کرنے میں منہمک تھے لیکن موت نے مہلت نہ دی

انتخاب کلام[ترمیم]

مجھ کو تو راہ نکلتی نظر آتی ہے کوئی

بل نہیں یہ جو سرِ سطحِ جبیں پڑتا ہے

حوصلہ اور ذرا حوصلہ، اے سنگ بدست

وقت آے گا تو خود شاخ سے ہم اتریں گے

تمھارے پاس نہیں ہے تو ہم سے لے جاؤ

ہمارے پاس محبت ہے اور کچھ بھی نہیں

تو آپس میں لڑائی کس لیے ہے

اگر ہے متفق دنیا خدا پر

تیرگی بھی جائے گی ٗ روشنی بھی آئے گی

اک دیا جلائو تم ٗ اک دیا جلائیں ہم

اسے میں غنچۂ دل میں اسیر کیسے کروں

حیات بادِصبا ہے اور آنی جانی ہے

وفات[ترمیم]

علی یاسر 17 فروری 2020ء کو برین ہیمرج کے سبب اسلام آباد میں وفات پا گئے اور اپنے آبائی علاقے راہوالی ( گوجرانوالہ) میں مدفون ہوئے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://www.rekhta.org/Poets/ali۔yasir/couplets?lang=ur[مردہ ربط]
  2. اسلام امجد امجد (20 فروری 2020)۔ "علی یاسر"۔ ایکسپرس نیوز۔ ایکسپرس اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 فروری 2020 
  3. https://www.rekhta.org/poets/ali-yasir/ebooks?lang=ur