مندرجات کا رخ کریں

عمرو بن بکر تمیمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عمرو بن بکر تمیمی
معلومات شخصیت

عمرو بن بَکر تمیمی ساتویں صدی عیسوی میں ظہور پانے والے خارجی تحریک کے نمایاں افراد میں سے تھا۔ وہ اُن تین خارجیوں میں شامل تھا جنھوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں سیاسی خلفشار اور جنگی حالات کے نتیجے میں مسلم قیادت کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور قتل و غارت کا راستہ اپنایا۔ اس سازش میں اُس کے ساتھ عبد الرحمن بن ملجم اور الحجاج بن عبد اللہ التمیمی شامل تھے۔[1]


پس منظر: خارجیوں کا ظہور

[ترمیم]

خارجی وہ فرقہ تھا جو جنگِ صفین (37ھ/657ء) کے بعد حضرت علی بن ابی طالب اور ان کے مخالف معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان تحکیم (ثالثی) کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ انھوں نے علیؓ، معاویہؓ اور عمرو بن عاصؓ تینوں کو "کافر" قرار دیا کیونکہ ان کے بقول انسانوں کو ثالث نہیں بنانا چاہیے تھا: "لا حکم إلا لله" یعنی "فیصلہ صرف اللہ کا ہے۔"[2]


سازش کا آغاز

[ترمیم]

خارجیوں کے ایک خفیہ اجتماع میں تین افراد نے تین مرکزی مسلم رہنماؤں کو قتل کرنے کا عہد کیا:

خارجی سازش کی تفصیل
خارجی سازشی ہدف مقام
عبد الرحمن بن ملجم علی بن ابی طالب کوفہ
عمرو بن بکر تمیمی عمرو بن العاص مصر
حجاج بن عبد اللہ تمیمی معاویہ بن ابی سفیان شام
یہ تینوں افراد ماہِ رمضان کے دوران ایک ہی دن قتل کی کوشش کرنے پر متفق ہوئے۔[3][4]

عمرو بن بَکر تمیمی کا کردار

[ترمیم]

عمرو بن بَکر نے مصر کا رخ کیا تاکہ عمرو بن العاص کو قتل کرے۔ مگر اتفاق سے اُس دن عمرو بن عاص نماز کے لیے نہیں آئے اور ان کی جگہ نماز پڑھانے والے شخص خارجہ بن حذافہ کو عمرو بن بَکر نے غلط فہمی میں قتل کر دیا۔ جب وہ گرفتار ہوا تو اُس نے اعتراف کیا کہ وہ عمرو بن العاص کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ یہ واقعہ نہ صرف اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ خارجی کس حد تک پرتشدد اور شدت پسند ہو چکے تھے، بلکہ یہ بھی کہ ان کے نظریات نے انھیں اندھا کر دیا تھا کہ وہ معصوم افراد تک کو قتل کرنے سے باز نہ آئے۔[5]

انجام

[ترمیم]

عمرو بن بَکر کو گرفتار کر کے فوری طور پر قتل کر دیا گیا۔ مصر کے گورنر اور عدلیہ نے اس مجرم کو کوئی رعایت نہ دی کیونکہ وہ ایک معصوم نمازی کا قاتل تھا اور وہ کھلے عام قتل کی نیت سے آیا تھا۔[6]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ابن کثیر، البدایة والنہایة، ج 7، ص 324۔ دار الفكر، بیروت، 1998ء۔
  2. الطبری، تاریخ الأمم والملوک، ج 4، ص 111۔ دار الکتب العلمیة، بیروت، 1997ء۔
  3. بلهول نسيم، الموسوعة الكبرى للجماعات الإسلامية المسلحة، أمواج النشر والتوزيع، عمان، الأردن 2014، ص 198 آرکائیو شدہ 2023-07-10 بذریعہ وے بیک مشین
  4. طه حسين، الفتنة الكبرى (الجزء الثاني)، الناشر مؤسسة هنداوي، المملكة المتحدة 1953، ص 181 آرکائیو شدہ 2023-07-10 بذریعہ وے بیک مشین
  5. ابن الأثیر، الکامل فی التاریخ، ج 3، ص 398۔ دار صادر، بیروت، 1985ء۔
  6. الذهبی، سیر أعلام النبلاء، ج 3، ص 306۔ مؤسسة الرسالة، بیروت، 2001ء۔